ڈاکٹر مسرت جہاں
بالآخرپروفیسر شمیم نکہت اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ کافی دنوں سے بسترعلالت پر تھیں۔اُن کے چاہنے والے افسردہ ہیں اور اُن کی خوبیوں کویاد کرتے ہیں۔ اب اُن پر ایک کتاب شائع ہونے جارہی ہے۔اُن کے معاصرین‘ طلبہ اور سبھی چاہنے والے اپنے تاثرات اور جذبات قلم بند کررہے ہیں۔ میرا بھی ان سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ مجھے بھی انہوں نے ڈھیرساری دعائیں دی ہیں اور زندگی کا سلیقہ سکھایا ہے۔میں لکھنے بیٹھ گئی ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کہاں سے شروع کروں؟ یہی سوچتے سوچتے کتنا وقت گزر گیا۔ہر لمحے بس اُن کی یاد آتی رہی بلکہ یادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ برسوں پرانا تعلق۔اتنے سارے واقعات۔۔۔اتنی ساری یادیں!
اکتوبر1994 ء کی بات ہے۔ معلوم ہوا کہ کل میڈم کے یہاں جانا ہے۔ وہ شالیمارباغ میں رہتی ہیں۔ معلوم نہیں کیوں ایک جھجک سی تھی۔ میرے شوہر پروفیسر محمد ظفرالدین اور دیور پروفیسر شہزاد انجم کی میڈم۔ اس طرح وہ غائبانہ طور پر میری بھی میڈم تھیں۔اور میڈم سے محبت‘ عقیدت اور جھجک طالب علموں کو ہوتی ہی ہے۔ بہرحال ہم سب وہاں پہنچ گئے۔ وہ انتظار کررہی تھیں۔ سرخ و سفید رنگت‘ لمبا اونچا قد‘ کتابی چہرہ‘ اونچی پیشانی‘ ستواں ناک‘ ذہین آنکھیں‘ پاٹ دار آواز‘ بارعب شخصیت۔ بہت ہی خوش اخلاق۔ انتہائی خوشدلی اور محبت سے پیش آئیں۔ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ خاطروتواضع کے ہنر میں مشاق تھیں۔ اتنے شوق سے کسی چیز کو پیش کرتیں کہ کوئی انکار کرہی نہیں سکتا۔میں بہت ہی خوشگوار ماحول میں کئی گھنٹے گزارکرشاندار یادوں کوسمیٹے ہوئے اُن کے گھر سے واپس ہوئی۔
تقریباً تین برسوں بعد مجھے ایک بارپھر اُن سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ سر اور میڈم دہلی یونیورسٹی کے کیمپس میں مورث نگر کے فلیٹ میں شفٹ ہوچکے تھے۔ میں تقریباً ڈیڑھ سال دہلی میں رہی اور اُن سے بارہا ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اُس دوران اُنہیں قریب سے دیکھنے اور مزید سمجھنے کا موقع ملا۔وہ بہت ہی مخلص‘ سلیقہ مند‘ نیک طبیعت کی مالک تھیں۔ اُن کے گھر پر ملنے کے لیے آنے والوں کا ایک سلسلہ لگا رہتا تھا۔ عزیز و اقارب‘ پڑوسی‘ احباب اور سب سے زیادہ ریسرچ اسکالرس کا آنا جانا رہتا تھا۔ وہ سبھی سے مل کر بہت خوش ہوتی تھیں۔ محبت سے بڑھ کر استقبال کرتیں۔ وہ بہت ہی اونچے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اعلیٰ تعلیم و تربیت سے سرفراز تھیں۔ اس بات کی غمازی ان کے طرز زندگی‘ رکھ رکھاؤ اور فکرونظر سے ہوتی تھی۔
پروفیسر شمیم نکہت بہت اچھی استاد تھیں۔ ان کی تدریس کا سلسلہ محض کلاس روم تک محدود نہیں رہتا تھا بلکہ ہر موقع پر تعلیم دیتی رہتی تھیں اور تعلیم کی اہمیت و افادیت پر توجہ دلاتی رہتی تھیں۔خصوصاً لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتی تھیں۔ وہ لڑکیوں کو خود کفیل دیکھنا چاہتی تھیں۔ لڑکیوں کے تئیں اُن کا خصوصی جھکاؤ ہوتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو بالکل possessive ہوجاتیں۔ ان کا ماننا تھا کہ مرد کی بہ نسبت عورت زیادہ ذمہ دار اوروفادار ہوتی ہے۔ اس میں محبت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے باپ‘ بھائی ‘ شوہر‘ بیٹے سبھی کو بہت عزیز رکھتی ہے۔سب کے لیے ایثار کرتی ہے‘ قربانی دیتی ہے۔ مگر اس قربانی کا اُسے خاطرخواہ صلہ نہیں ملتا ہے بلکہ اکثر عورتیں ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ پروفیسر شمیم نکہت کے نزدیک اس مسئلے کا حل تعلیم اور سماجی بیداری میں پنہاںہے۔ وہ مکمل طور پر feminist تھیں اور کھل کر اس کی تائید میں تبادلہ خیال کرتی تھیں۔میرا خیال ہے کہ وہ اکثر مباحث میں اپنے دلائل و شواہد سے سامنے والے کو قائل بھی کردیتی تھیں۔ اور جب تک وہ قائل نہ کردیتیں ‘ ہار نہیں مانتی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اُنہیں لڑکیاں بہت عزیز تھیں۔میڈم افسانے لکھا کرتی تھیں۔ اُن کے تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ کئی کتابیں منظرعام پر آئیں۔ہرجگہ اُن کا بنیادی نظریہ موجود رہتا تھا۔ وہ اپنے موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔
پروفیسر شمیم نکہت کی شخصیت کی خوبی یہ تھی کہ ہرکوئی خود کو اُن کا سب سے زیادہ قریبی سمجھتا تھا۔ ضرورت مندوں کی مدد بڑی خاموشی سے کیا کرتی تھیں اور ہم رتبہ و ہم مرتبہ سے تحفے تحائف کے لین دین کا سلسلہ بھی بحسن و خوبی نبھایا کرتی تھیں۔ میڈم نے کئی یتیم اور ضرورتمند لڑکیوں کو اپنے یہاں گھر کے ایک فرد کی طرح رکھا اور اُن کی بڑی اچھی تعلیم و تربیت کی۔یونیورسٹی کی عام لڑکیوں کو بی ایڈ کرنے پر زوردیتی تھیں تاکہ اُن کا روزگار یقینی ہوجائے۔ وہ اپنے والدین یا شوہر کی محتاج نہ رہیں۔میری جب اُن سے ملاقات ہوئی تھی اُن دنوں میں ایم اے کرچکی تھی۔ اُنہوں نے مجھے بھی باربار مزید تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی۔ وہ مجھے کہتی تھیں کہ صرف گھریلو خاتون بن کر نہ رہ جاؤ۔ عورتوں کا مقدرصرف شوہروں کا انتظار کرنا نہیں ہے بلکہ اُن کی برابری میں کھڑے ہونا اور اپنی شناخت بنانا ہے۔ اُنہوں نے مجھے بارہا روزگار سے جڑنے اور خودکفیل ہونے پر زوردیا۔ 1998 ء میں ‘میں اپنے شوہر کے ساتھ حیدرآباد چلی آئی۔ فون اور خط وغیرہ کے ذریعے اُن سے میں رابطے میں ضرور رہی لیکن ایک طویل مدت تک ملاقات نہ ہوسکی۔ 2009 ء میں جب وہ یہاں پروفیسر قمررئیس سمینار میں تشریف لائیں تو اُنہوں نے مجھے دیکھا۔ میں لکچرر بن چکی تھی۔ وہ جس سمینار کے لیے آئی تھیں ‘ میں نے بھی اُس میں اپنامقالہ پیش کیا ۔وہ مجھے ایک نئے انداز میں دیکھ کر کس قدر خوش ہوئیں‘ اس کا بیان نہ وہ لفظوں میں کرسکیں اور نہ ہی میرے لیے یہاں بیان کرنا ممکن ہے۔انہوں نے بے اختیار اور باربار مجھے گلے سے لگایا۔ میری پیشانی اور سر پر محبت اور دعائیہ انداز میں ہاتھ پھیرے۔میں سوچ رہی تھی کہ کوئی دوسروں کی ترقی دیکھ کر اس قدر خوش ہوسکتا ہے کیا؟ لیکن حق تو یہ ہے کہ وہ ہم لوگوں کو ’’دوسرا‘‘ مانتی ہی کب تھیں۔ وہ تو ہم سبھوں کو اپنا سمجھتی تھیں۔ بلکہ سبھوں کو اپنا ہی تصور کرتی تھیں ۔مگر افسوس کہ ہماری خوشیوں میں کھل کر خوش ہونے والی اب ہمارے درمیان نہیں رہیں۔ اللہ اُن کی قبر کو نور سے بھرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے!
( مانو نیورسٹی حیدرآباد، دکن)