9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ابوالکلام آزاد
مولانا ابوالکلام آزاد کا نام محی الدین احمد کنیت ابوالکلام اور تخلص آزادتھا،مولانا آزاد کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ذی الحجہ۱۳۰۵ھ مطابق۱۸۸۸ء میںہوئی بچپن کا زمانہ وہیں گزرا پھراپنے گھر والوں کے ساتھ ہندستان آگئے۔۱۴سال کی عمر میںکلکتہ میںتعلیم کی تکمیل کی۔۱۳۲۶ھ مطابق۱۹۰۸ء کو بیس سال کی عمر میں عرب اور یورپین ممالک کی سیاحت کے لیے نکلے اورعراق،شام،مصر،ترکی،فرانس،اور انگلینڈکا دورہ کیا۔مولانا آزاد ایک صاحب طرزادیب،شعلہ بیان خطیب،کامل شاعر،بالغ نظرمفکرکے ساتھ ساتھ ایک صحافی بھی تھے۔انہوں نے صحافت میں اسی وقت قدم رکھا جب ان کی عمر دس سال کی تھی،پھر اپنی مجاہدانہ صحافتی مصروفیات و مشغولیات عرصئہ دراز تک مشغول رہے اور بیسویںصدی کے آغازمیں ایک انقلابی صحافی کے روپ میں اردو صحافت کے افق پرظاہر ہوئے اور اردوصحافت کو ایک نئی راہ دیکھائی۔صحافت کے میدان میں مولانا آزاد کو دو ادوار میںتقسیم کرسکتے ہیں؛ایک ’’الہلال‘‘و ــ’’البلاغ‘‘سے پہلے کا زمانہ اور دوسرا ’’الہلال‘‘و’’البلاغ‘‘ کازمانہ پہلا دور جس میں انہوںنے’’نیرنگِ خیال‘‘اور’’لسان الصدق‘‘نکالا اورمختلف خبارات سے وابستہ رہے۔’’نیرنگِ خیال‘‘ایک ادبی پرچہ تھا،جس میں قصائدو اشعاربھی شائع ہوتے تھے۔دوسرا رسالہ’’لسان الصدق‘‘جسے نیرنگِ خیال کے بعد ۲۰نومبر ۱۹۰۳ء کوکلکتہ سے نکالا۔وہ اجتماعی دینی رنگ کا عکاس ایک علمی،واخلاقی اور تاریخی اخبار تھا،جو۱۹۰۵ء تک نکل کر بند ہوگیا۔
’’لسان الصدق‘‘ میں اس زمانہ کے صحافیوں اور ادیبوں نے اپنی تحریروںکے ذریعہ حصہ لیا،جن میںسید شاہد حسین،عبدالحلیم شرر،ذکاء اللہ اور وحید الدین سلیم وغیرہ تھے۔اس رسالہ میں شائع ہونے والے مضامین کودوسرے اخبارات بھی نقل کیا کرتے تھے۔
الندوہ اور وکیل کے معیار کو بلندکرنے اور ان کے دائرہ کو وسیع کرنے میں مولانا آزادبڑا ہاتھ تھا۔ مولانا آزاد نے عربی میںایک رسالہ ’’الجامعہ‘‘ کے نام سے نکالا تھا۔یہ رسالہ اس وقت کے شریف حسین کی حکومت پر تنقید کرتا تھا اور سعودی حکام کا مؤید تھا ۔یہ رسالہ زیادہ دن نہ نکل سکا۔
جرائد’’الہلال‘‘اور’’البلاغ‘‘:
مولاناابواکلام آزاد کی صحافت کے دوسرے دور میں اسلامی رنگ اور خالص اسلامی مقاصدکاظہور ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ مولاناآزاد’’الہلال ‘‘اور ’’البلاغ‘‘ کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔
’’الہلال ‘‘اور’’ البلاغ‘‘بیسویں صدی کے آغاز میں اسلامی صحافت کے علمبردار دو اہم اخبار تھے۔ان کے ایڈیٹر کے قلم کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی تھی اور ان کی آراء لوگوں کی گفتگو کا موضوع بنتی تھی۔’’الہلال‘‘پہلی مرتبہ ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء کو نکلا اور نومبر۱۹۱۴ ء تک مسلسل نکلتا رہا۔لیکن اپنی انقلابی تحریروںکی وجہ سے انگریز حکومت کے جبر وتشددکا نشانہ بنا،سیاسی بدامنی پھیلانے کے الزام میں اسے بند کر دیا گیا۔۱۲ نومبر ۱۹۱۴ء کومولانا ابوالکلام آزاد نے دوبارہ اسے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے نکالا،لیکن ریاستِ بنگال کی حکومت نے اسے بند کر دیا۔پھر مولانا ابواکلام آزاد نے ۱۰؍جون ۱۹۲۷ ء کواسے پھر ’’الہلال ‘‘ کے نام سے نکالا لیکن چھ مہینے سے زیادہ نہ نکل سکا اور حالات کی سخی و ابتر کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
جرائد ’’الہلال‘‘اور’’ البلاغ‘‘کے مقاصد:
مولانا ابوالکلام آزاد ’’الہلال ‘‘کے نکالنے کا مقصد وہ خود تحریر فرماتے ہیں کہ ’’الہلال‘‘کے نکالنے کااصل مقصد قرآن کریم کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑ نے اورحدیث شریف پر عمل کرنے کی دعوت دیناہے اور یہ کوشش کرنا ہے کہ انسان کی ساری زندگی ان کے تابع ہوجائے،اس کے مقصد میں سیاسی فکر کی تعمیر اور مناسبت سیاسی موقف کو اختیار کرنابھی ہے۔
صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد کا سیاسی موقف:
مولانا ابوالکلام آزاد ملک کی اندرونی سیاست اور ملک سے سامراج کو نکالنے کی کوشش میں کانگریس کی حمایت کرتے تھے اور اپنے اس موقف پر وہ تازندگی قائم رہے۔تحریک خلافت کے بھی وہ مؤید تھے۔تحریک خلافت اورکانگریس میں اتفاق پیدا کرانے میںان کا اہم کردار تھا۔مولانا آزاد دین و سیاست سے ملی جلی بامقصد صحافت پیش کرتے تھے،ان کی دعوت تمام تر دینی رنگ میں تھی اور ان کی سیاست پر اسلامی فکر کی چھاپ تھی۔
جرائد’’الہلال‘‘اور’’البلاغ‘‘اور تحریک آزادی ہند:
آزادی ہند اور سامراج سے جنگ ایسا موضوع تھا،جو مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی پر چھایا رہا۔مولانا ابوالکلام آزادان اہم شخصیات میں سے تھے،جنہوںنے ظالم وجابر سامراج کے فولادی پنجہ سے آزادی ہند دلانے میںسر گرم حصہ لیا،انہوں نے اپنے ہر اخبار کوانگریز حکومت کے خلاف لکھنے اور اس کو ملک سے نکالنے کی سعی وکوشش کے لیے وقف کردیا تھا۔ان کے بااثرکلمات خشک اور سوکھی گھانس میں شعلہ کی طرح تھے،جن کی آگ بہت کم مدت میں ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی تھی۔مولانا آزاد کو اپنے اس سیاسی موقف کی وجہ سے سخت ترین آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا،باربار قیدو بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں،طویل مدت تک جیل میں رہنا پڑا،مالی جرمانے برداشت کرنے پڑے،لیکن مولانا آزاد اپنے موقف پرقائم رہے۔جو لوگ انگریز حکومت کی طرف مائل تھے مولاناآزاد انتہائی سخت لہجہ میں ان پر تنقید کرتے تھے،سر سید احمد خان کی جماعت جس کا مرکز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تھا اس کے ساتھ مولانا آزادکی زبر دست قلمی جنگ رہی،مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ’’ان مسلمانوںکی قیادت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جماعت کے ہاتھ میں تھی اور اس جماعت کے ارکان خودکو سر سید احمد خان کے متبعین میںسمجھتے تھے اور ان کی سیاست پر یقین رکھتے تھے،ان لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ تاج برطانیہ سے دوستی وتعلق رکھا جائے اور وطنی تحریکات سے دور رہا جائے۔لیکن جب’’الہلال‘‘نے اپنی جدید دعوت کاآغاز کیا تو ان حضرات کو اپنی لیڈری خطرہ میں نظر آئی،اس لیے انہوں نے اس کی مخالفت شروع کردی‘‘
مولانا آزادمختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک پرچم تلے جمع ہوکربرطانوی سامراج سے ٹکر لینے کی دعوت دیتے تھے۔وہ خاص طور سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں قربت اور دوستی چاہتے تھے،ان کی کوشش تھی کہ سامراج کے خلاف سب ایک ہوجائیں۔
جرائد’’الہلال‘‘اور’’البلاغ‘‘ کے بارے میں بعض اہم شخصیات کی آراء:
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :’’حقیقت یہ ہے کہ’’الہلال‘‘اور’’البلاغ‘‘کا ایسا احسان ہے جسے بھلا یا نہیں جا سکتا،وہ یہ کہ تعلیم یافتہ طبقہ میںقرآن کریم کا ذوق پیدا کرکے اسے عام مقبولیت حاصل ہوئی، جس سے اس طبقہ کا ایمان و یقین مضبوط ہوا اورجن بلند معانی پر قرآن کریم مشتمل ہے اس کوسمجھنے کے دروازے ان پر کھلے‘‘۔ (مجلہ معارف،اکتوبر ۱۹۳۲ ء)
مفکر اسلام علامہ سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیںکہ’’ہفت روزہ‘‘’’الہلال ‘‘کاآغازہوا،جسے مولاناابوالکلام آزاد نکالتے تھے،اس میں جو مقالات لکھے جاتے وہ آگ کے قلم اوربڑی بلاغت و قوت سے لکھے جاتے تھے،جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ،اس میں یورپین صلیبی سیاست پر تنقید ہوتی تھی مسلمانوں میں سے ہزار ہا ہزاراشخاص اسکے پڑھنے کے لئے بے چین رہتے تھے‘‘۔(المسلمون فی الہند)
شعبۂ صحافت و لسانیات
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔