9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر ہمایوں احمد
1947سے قبل سات سال کا وقت جنگ آزادی کا اہم ترین دور تھا ۔ وقت کو بدلنے والے بڑے بڑے واقعات پیش آرہے تھے ، کانگریس جدوجہد آزادی کی اصل نمائندہ تنظیم تھی اور مولانا ابو الکلام آزاد ؒ 1939 سے 7 جولائی 1946 تک اس کانگریس کے منتخب صدر تھے ۔ یعنی تاریخ کے سب سے نازک موڑ پر آزادی دلانے والی ٹیم کی کارکردگی کا پورا بوجھ مولانا کے کاندھے پر تھا۔
سترہ سال کے مولانا 1905 میں ہی سیاسی طور پر حرکت میں آچکے تھے ۔ یعنی گاندھی جی کے منظر عام پر نمایاں ہونے کے بھی دس پندرہ سال قبل ، جبکہ مولانا گاندھی جی سے عمر میںانیس سال چھوٹے تھے۔ اس وقت کا وائس رائے لارڈ کرزن (Lord Curzon) بنگال کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کر چکا تھا۔ باشعور بنگال میں بے چینی کا عالم تھا ، ہندو متوسط طبقہ میں انقلابی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں ۔ انگریز کچھ مسلم افسران کو بیجا ترجیح دیکر استعمال کر رہے تھے ، جس کی وجہ سے دوسری جانب غلط اشارے جارہے تھے ۔ فرقہ وارانہ عدم اعتماد کے ماحول میں انقلابی نقل و حرکت خفیہ ہوتی تھی۔ جس کے نتیجے میں انقلابی مہم کو وہ توانائی نہیں مل پارہی تھی ، جو اس وقت درکار تھی۔ انگریزی سازش کو چوکس مولانا نے محسوس کرلیا ۔ صحیح تشخیص کے بعد صحیح نسخہ لیکر عملی میدان میں سب سے پہلے مولانا آگے آئے ۔ ایک بڑے انقلابی رہنما شری شیام سندر چکرورتی سے مولانا کی ملاقات ہوئی وہ اتنے متاثر ہوئے کہ مولانا کو اور بھی ہندو انقلابیوں سے ملوایا ۔ دو یا تین بار شری اربندو گھوش سے بھی ملے ۔ ایک انتہائی اعلیٰ خیال والے کم عمر مسلم نوجوان کو تحریک سے قریب آتا دیکھ کر ہندو انقلابیوں کو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ۔ کچھ ابتدائی مشکلوں کے بعد اپنی ذہانت اور دیانت داری کی بدولت سبھی کا اعتماد حاصل کرنے میں مولانا کامیاب ہو گئے۔ یہاں تک کہ نقل و حرکت کے اندرونی حصے تک مولانا کی رسائی ہو گئی ۔
بالآخر مولانا نے ایک انقلابی گروپ کی رکنیت حاصل کرلی ۔ ہندو انقلابیوں کے ساتھ زبردست بحث مباحثہ کے ذریعہ مولانا نے یہ سمجھایا کہ انگریز اپنی مفاد کی خاطر سازش کے تحت کچھ مسلم افسران کو استعمال کر رہے ہیں ، جبکہ عام مسلم عوام کا رجحان اور مزاج بالکل مختلف ہے ۔ ہمیں ان کے قریب جاکر ا ن کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، انقلاب سے ان کو جوڑنا ہو گا اس سے ہمیںوہ طاقت ملے گی جس کی ضرورت ہے۔
مولانا نے اعتماد سے کہا یہ کام صحیح بھی ہے ، ضروری بھی اور ممکن بھی ، اسے میں ثابت کر کے دکھائوں گا ۔ ہندوئوں کو قائل کرنے کے بعد مولانا فوراً مسلمانوں کی طرف مڑ گئے۔ عالِم سے لیکر عام مسلمان سے براہ راست مخاطب ہوئے ۔ سب کو بھروسے میں لیا اور یقین دلایا کہ انگریز ہم کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی جو بھی شکایات ہیں ، ان کو تصادم کے بجائے مفاہمت سے بہتر طور پر دور کیا جاسکتاہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف بھرپور طریقے سے ہندئووں کے ساتھ ملکر میدان میں آجانا چاہئے ۔ فرقہ وارانہ دوری کو ختم کرنے کے جو عظیم کام مولانا نے کیا ہے، پوری تاریخ میں اس کی ایک بھی نظیر نہیں ۔ حق تو یہ ہے اس معاملے میں مولانا کی سیاسی قد کی بلندی کو چھونے والی ایک بھی ہستی نہیں ،یہ اور بات ہے جو کچھ بھی سامنے آتی رہی ہے وہ محض ادھوری تاریخ کی ایک دھوندلی داستان ہے ۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا بحال کرنے کے بعد مولانا 1908 میں کلکتہ سے بیرونی ممالک کے دورے پر نکل گئے۔ اس وقت کئی مسلم ممالک میں نظام ِ وقت کے خلاف انقلاب کی لہر چل رہی تھی ۔ مسلمان سڑکوں پر تھے ۔ مصر ، ایران ، شام ، عراق ، ترکی وغیرہ میں مولانا کی دنیا کے بڑے بڑے انقلابیوں سے ملاقات ہوئی۔ ان سے براہ راست تعاّمل(Interaction) کے بعد مولانا یہ بات اور شدت سے محسوس کرنے لگے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو جنگ ِ آزادی میں پورے زور سے شامل ہونا چاہے ۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد جہاں دیدہ اور دور اندیش مولانا نے ایک اپنے طباعتی ادارہ (پریس) کی ضرورت کو محسوس کیا اور الہلال پریس قائم ہوا ۔ جون1912ء میں الہلال اخبار کا پہلا شمارہ شائع ہوا ۔ سیاسی بصیرت والے اہل علم جانتے ہیں کہ الہلال پریس کا قیام تحریک آزادی کا روشن ترین واقعہ تھا ۔ مولانا کی مقنا طیسی تحریر کا پورے ہندوستان میں برقیاتی اثر ہوا ۔ ہندو مسلمان قریب آنے لگے تو یہ بات حکومت ِ وقت کو بری لگی ۔ مولانا کی یہی خوبی انگریزوں کو کھٹکتی تھی ۔ دو سال کے اندر الہلال کی 26000 کاپی فروخت ہونے لگی ۔ یہ اعداد اردو صحافت میں اس وقت سنی بھی نہیں گئی تھی ۔ انگریزوں نے 1915 میں الہلال طباعتی ادارہ کو قرق کر لیا ۔ 5 ماہ بعد مولانا نے البلاغ کے نام سے ایک نیا پریس قائم کیا اور اسی نام سے البلاغ جریدہ (Journal) شائع ہونے لگا ۔ اس کے بعد قانو ن کی ایک اور سخت دفعہ لگا کر مولانا کو کلکتہ سے شہر بدر کرنے کا فرمان جاری کر دیا گیا۔ انگریز حکومت اس حد تک خائف تھی کہ اس زمانے میں مولانا پر پنجاب ، دہلی ، یوپی اور بمبئی میں داخلے پر پابندی عائد تھی ، ان واقعات سے اس بات کا اندازہ ہو تاہے کہ مولانا کی مقبولیت اور عوامی پکڑ کس قدر مضبوط تھی ،لہٰذا مولانا کو رانچی جلاوطن کیا گیا ۔چھ ماہ میں ہی متحرک مولانا نے رانچی میں کئی تعلیمی اور فلاحی ادارے قائم کر دیئے جو آج بھی موجود ہیں۔ انگریزوں پر طاری ہیبت اس پر بھی کم نہیں ہوئی تو رانچی میں مولانا کی جلا وطنی کو نظر بندی میں بدل دیا گیا۔
خیال رہے 1916 میں رانچی میں مولانا کی نظر بندی کے بعد ملک کے سیاسی افق پر گاندھی جی کا ستارہ جگمگانا شروع ہوا تھا۔ جبکہ اس سے قبل ہی نوجوان متحرک مولانا جدوجہد آزادی میں بلندی کے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے تھے ۔ اب یہاں بجا طور پر یہ سوال دماغ میں آتاہے کہ انگریزوں کے دل و دماغ پر مولانا کی اس قدر ہیبت کیوں طاری تھی؟ باوجود یکہ ہاتھ میں نہ کوئی ہتھیار تھا اور نہ ہی کسی تشدد یا خفیہ سرگرمی کا الزام ۔ ایسی صورت میں بڑے بڑے شہروں میں داخلے پر پابندی اس بات کا جاگتا ثبوت ہے کہ مولانا عوام کے دلوں پر حکومت کرتے تھے ۔ انقلابی سوچ ، زور قلم اور زبان کا جادو ہی سب کچھ تھا ۔ بلا شک و شبہہ مولانا نابغہ ((Genius تھے۔ یہ تاریخ کی بولتی حقیقت ہے ۔
رانچی میںنظر بندی کے وقت چمپارن کے کسان مزدور والی مہم کے سلسلے میں گاندھی جی بھی رانچی آئے تھے اور مولانا سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن حکومت نے اجازت نہیں دی۔ یکم جنوری 1920 کومولانا رہا ہوئے تو دہلی میں گاندھی جی سے ملے ۔ 20 جنوری 1920 کو دہلی کی ایک میٹنگ میں مولانا کے سامنے گاندھی جی اور لوک مانیہ تلک نے دیگر کانگریس رہنمائوں کے ساتھ خلافت تحریک کی کھل کر حمایت کرنے کا اعلان کیا ۔ 1920میں ہی گاندھی جی کے عدم تعاون تحریک کی بات آئی تو مولانا حمایت میں کھل کر آگے آئے کیونکہ ٹالسٹائے (Tolstoy) کے اس فلسفہ کو مولانا پہلے ہی پڑھ چکے تھے ۔ ستمبر 1920 میں عدم تعاون تحریک کی میٹنگ کلکتہ میں ہوئی اور مولانا فضا ہموار کرنے کی غرض سے گاندھی جی کے ساتھ ملک گیر دورے پر نکل گئے ۔ دسمبر 1920 میں گرفتاری ہوئی ۔ علی پور سنٹرل جیل میں سبھاش چندر بوس ، سی آر داس وغیرہ کے ساتھ مقید رہے ۔ سبھوں کو چھ ماہ میں رہائی ملی ۔ مگرمولانا کو 1 جنوری 1923 کو چھوڑا گیا ۔ اس بیچ گیا اجلاس میں کانگریس دو خیمے میں منقسم ہو چکی تھی ، بہت برا حال تھا ۔ رہائی کے بعد بڑی حکمت سے مولانا نے حالات کو سنبھالا۔ مولانا کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیت سے سبھی لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ موتی لال نہرو ،سی آر داس ، سردار پٹیل ، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر راجندر پرساد وغیرہ نے مکمل اتفاق رائے سے دہلی میں ستمبر 1923 کو ایک خصوصی اجلاس بلا کر مولانا کو کانگریس کا صدر منتخب کر دیا ۔ ڈاکٹر راجندر پرساد سے چار سال اور سردار پٹیل سے تیرہ سال کم عمر کے مولانا کو کانگریس کے سب سے کم عمر صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اس وقت مولانا کی عمر 35 سال تھی ۔ 1930 میں نمک تحریک کے وقت میرٹھ میں دیئے گئے ایک زبردست تقریر کے وجہ کر میرٹھ جیل میں ڈیڑھ سال کیلئے قید ہوئے ۔ 1935 کے حکومت ہندوستان قانون ( Govt of India Act – 1935)) کے تحت ریاستی خود مختاری کیلئے ہونے والے انتخاب کے وقت کانگریس ورکنگ کمیٹی پورے تائو میں اس کا بائیکاٹ کرنے جارہی تھی ۔ مولانا کی قائدانہ حکمت عملی نے پھر کام کیا ۔ ایک پر زور خطاب میں مولانا نے سمجھایا کہ انتخاب کے ذریعہ ہمیں عوام کے قریب جانے ، براہ راست مخاطب ہونے اور کام کرکے دکھانے کا موقع ملے گا ۔ مولانا کی بات مانی گئی ، 1937 میں انتخاب ہوا اور کانگریس کو اچھی کامیابی ملی ۔
جس طرح سن بیس کی دہائی میں کانگریس سوراج والے قضیہ میں تبدیلی حامی اور تبدیلی مخالف گروپ میں تقسیم ہوئی تھی اسی طرح سن تیس کی دہائی میں انڈین نیشنل کانگریس دائیں بازو اور بائیں بازو کا رجحان رکھنے والوں میں تقسیم ہو گئی تھی ۔ دونوں ہی نازک موقعوں پر مولانا ہی نے کانگریس کو متحد اور منظم رکھنے میں کلیدی کردار نبھایا تھا ۔
قبل آزادی ہو یا بعد آزادی ، تاریخ کے ہر اہم موڑ پر تاحد عمر مولانا نے اپنے قدموں کے گہرے نشان چھوڑے ہیں۔ زیادہ تر موقعوں پر ہم مولانا کو صف اول کے رہنمائوں کی رہنمائی کرتے ہوئے پاتے ہیں ۔ پتہ نہیں کس بنا پر گاندھی جی نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کے لقب سے نوازہ تھا !
بہر کیف ، 1939 میں مولانا دوسری بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے ، ان کے قبل ڈاکٹر راجندر پرساد صدر تھے، جن کی ورکنگ کمیٹی میں نہرو جی نہیں تھے۔ پنڈت نہرو کو کانگریس ورکنگ کمیٹی میں مولانا آزاد نے شامل کیا ۔ مارچ 1940 کے رام گڑھ اجلاس میں بطور صدر مولانا کا تاریخی خطاب آج بھی یاد کیاجاتاہے۔ جس پر زور انداز میں گیارہ اپریل 1942 کو سر اسٹیفرڈ کرپس ( Sir Stafford Cripps) کے اسی روز والے طویل خط کا جواب مولانا نے دیا تھا اسے پڑھ کر مولانا کی قابلیت کا اندازہ ہوتاہے۔ دستاویزی ثبوت کے طور پر آج بھی دونوں خطوط موجود ہیں ۔ ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران اگست 42 میں احمد نگر فورڈ جیل میں بطور صدر جب دوسرے رہنمائوں کے ساتھ قیدکئے گئے تو سب سے زیادہ سخت اذیت مولانا کو دی گئی۔ بیوی سخت علیل تھیں، لگاتار تشویشناک خبریں آرہی تھیں ۔ بار بار کے التجا کے بعد بھی انگریزوں نے ملنے نہیں دیا۔ ایک روز ٹیلی گرام ملا کے بیوی چل بسیں۔ تین ماہ بعد بہن کے گذر جانے کی بھی خبر جیل میں ملی ۔
بے شک ! مولانا قد آور لیڈر تھے ۔ قائدانہ صلاحیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ بڑی بڑی مشہور تاریخی میٹنگوں میں انگریزوں کے ساتھ مذاکرات مولانا اکیلے کرتے تھے ۔ 1942 کا کرپس مشن (Cripps Mission) ہو ، جون جولائی 1945 کا شملہ کانفرنس ہو ، یا پھر 1946 کا برٹش کیبنٹ مشن (British Cabinet Mission) سبھی تاریخی نشستوں میں گاندھی جی سمیت تمام ورکنگ کمیٹی کے مکمل اتفاق رائے سے مذاکرات میں اکیلے شامل ہو کر مولانا نے تنہا پورے ہندوستان کی نمائندگی کی تھی۔ پوری دنیا میں مولانا کی پہچان اور شہرت کتنی تھی وہ اس واقعہ سے پتہ چلتی ہے کہ 1942 میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر امریکہ کے صدر روز ولٹ (President Roosevelt) کا ذاتی نمائندہ ان کا خط لیکر ہندوستانی تعاون اور حمایت کے لئے مولانا کے پاس آیا تھا ۔
مگر اسے ستم ظریفی یا ملک کی بدقسمتی کہئے کہ آزادی کی یاد کا جب بھی کوئی موقع آتا ہے تو لوگ انتہائی اہم واقعات کو نظرانداز کرتے ہوئے سیدھے آزادی کے اُس پار چھلانگ لگا دیتے ہیں،آج جو کچھ بھی سامنے آتی ہے یا لائی جاتی ہے وہ ادھوری تاریخ کی ایک دھوندلی داستان ہے ۔ عام طور پر گاندھی ، نہرو اور پٹیل کا ہی نام لیاجاتا ہے ۔ حیرت کی انتہا تو تب ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پورے کھیل کا احوال بیا ن ہو گیا اور کپتان ہی چرچا سے غائب! بڑے بڑے حقائق سے بار بار چشم پوشی انجانے پن کی خاموشی نہیں بلکہ دانستہ احسان فراموشی ہے ۔
آزادی ملنے کے بعد وزیر تعلیم کے طور پر بڑی دور اندیشی سے مستقبل کو سامنے رکھ کر مولانا نے تعلیمی پالیسی کو وضع کیا۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے بڑے بڑے اداروں کے قیام کا روڈ میپ تیار کیا۔ 1951 ء میں ملک کے پہلے ہندوستانی تکنیکی ادارہ (I.I.T) کا کھڑگ پور میں سنگ بنیاد رکھا ۔ مولانا ملک کے مستقبل ساز تھے ۔ ان کی اعلیٰ ترین تعلیمی منصوبہ بندی کی بدولت ہمارے سائنسداںآج چاند ستاروں سے باتیں کر رہے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد ہی کی دین ہے کہ ملک نے سب کچھ بنا لیا، مگر افسوس! ہم اب تک وہ میزان نہیں بنا سکے جس سے مولانا کی خدمت تولی جاسکے ، اور نہ ہی وہ پیمانہ بنا جس سے ا ن کی بلندی کو ناپ سکیں ۔
رانچی:9431356786
9523069881