منوررانا ماں سے مہاجرنامہ تک

0
1101

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

 

پروفیسرعباس رضا نیر

منوررانا کا نام ذہن میں آتے ہی اس معصوم بچے کی شبیہ نگاہوں میں گھومنے لگتی ہے جس کی کل کائنات اس ی ماں ہے۔ منور نے اردو شاعری کو روایتی محبوب کے دامن سے نکال کر ماں کے مقدس آنچل سے باندھ دیا۔ ماں کو ان کی شاعری میں ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں محبت کے ایک بالکل ہی انوکھے رنگ کو متعارف کروایا ہے۔ وہ رنگ جو کبھی پھیکا نہیں پڑتا۔ وہ محبت جسے کبھی زوال نہیں آتا۔ اردو غزل میں آج تک کسی شاعر نے ماں پر اتنا نہیں لکھا جتنا منور رانا نے لکھا ہے۔ ان کی شاعری میں ماں اپنے پورے تقدس کے ساتھ نظر آتی ہے اور ماں سے منسوب شعروں میں منور اپنی پوری معصومیت اور فطری محبت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ وہ ماں کی قدموں تلے کی جنت کو حاصل کرنے کے لیے ہر دشوار گذار راستے سے گذرنے کے لیے تیار ہیں۔ محبت کا یہ جذبہ شدت اختیار کرکے جب عقیدت میں ڈھل جاتا ہے۔ تب منور کی شاعری اپنے پورے جو بن پر نظر آتی ہے۔
لبوں پہ اس کے کبھی بددعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی
حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لیے
ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لے جائیں گے
ماں کی محبت کے اس عظیم جذبے نے منور کو ایک منفرد اور انوکھا شاعر بنادیا ہے جس کی غزلوں میں زلف یار کی نہیں بلکہ ماں کے آنچل کی خوشبو ہے۔ وہ خیال یار کے سہارے نہیں جیتے بلکہ اپنی زندگی کو ما کی دعائوں کی مرہون منت مانتے ہیں۔ ماں کی ممتا، ماں کا پیار، ماں کا سپنا، ماں کا تصور اور ان کی دعائوں کی چادر ان کی شاعری کے بیشتر حصوں کو ڈھانپے نظر آتی ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس نے ان کے لاشعور پر ایسے گہرے نشان ثبت کیے جو ان کی شاعری میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ ماں کی قربانیاں ، صبرووفا اور اولاد کے لیے محبت نے منور کے ذہن پر کبھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ دئیے۔ ماں کے ایثار وخلوص نے اسے منور کے لیے اس کی عزیز ترین ہستی بنادیا۔ وہ ساری دنیا کو ماں کی محبت کے ہر نہاں اور عیاں رنگ سے واقف کرانا چاہتے ہیں:
محبت کرتے جائو بس یہی سچی محبت ہے
محبت ماں کو بھی مکہ مدینہ مان لیتی ہے
ذرا سی بات ہے لیکن ہوا کو کون سمجھائے
دئیے سے میری ماں میرے لیے کاجل بناتی ہے
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کرہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ منور کی شاعری صرف ماں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان کی شاعری کے بہت سے ابعاد وجہات ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ان موضوعات کا احاطہ کیا جو اردو شاعری میں اس سے قبل اتنی اہمیت کے حامل نہیں تھے لیکن منور رانا نے اپنی خلاقیت سے ان موضوعات کو ایسی وسعت بخشی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ وہیں دوسری طرف منور نے غزل کے روایتی موضوعات کو بھی ایسی نئی ندرت کے ساتھ پیش کیا کہ وہ بالکل ہی مختلف شان کے حامل ہوگئے۔
منور اپنی شاعری میں براہ راست عوام سے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ ان سانحوں کی بات کرتے ہیں جو بہت سے انسانوں کی زندگیوں میں بیک وقت رونما ہوچکے ہیں۔ وہ صرف اپنے غم میں نہیں ڈوبے رہتے بلکہ پوری انسانی برادری کی تکلیف کو محبوس کرکے انہیں اپنے شعروں میں ڈھالتے ہیں۔
تقسیم ہندکے المیے نے جہاں سیاسی اور تہذیبی سطح پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے وہیں انسانی سطح پر اس نے کتنے ہی خاندانوں کو اجڑنے اور دربدر ہونے پر مجبور کردیا۔ اس پر بھی ستم یہ کہ اس کاری زخم پر رونے کی اجازت بھی انہیں ہی تھی جو ہجرت کرکے وہاں چلے گئے تھے۔۔۔۔خوف سا خوف تھا۔۔۔۔۔۔درد سا درد تھا۔ یہاں رہ جانے والوں کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ وطن سے محبت کے صلے میں بھی انہیں ملامت اور نفرت ہی ملی۔ منور لکھتے ہیں:
’’کھل کر رونے کا اختیار بھی جاتا رہا کہ ہر آنسو پر فرقہ پرستی اپنی مہر لگانے کو تیار رہتی۔ خوف اتنا غالب تھا کہ لوگ میت پر بھی اس لیے نہیں روتے تھے کہ کہیں انہیں پاکستان جانے والوں کا رشتے دار نہ سمجھ لیاجائے۔‘‘’’مہاجرنامہ‘‘ تقسیم ہند کے حادثے سے متاثر ہونے والے انہیں مجبور اور بے کس انسانوں کی منظوم داستان ہے جنہوں نے ہجرت کا کرب سہاہے۔۔۔۔ مسلسل پانچ سو اشعار پر مشتمل اس طویل غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل داستان ہے۔ حالانکہ خود شاعر نے ہجرت کا درد نہیں سہا ہے لیکن اپنے بچپن یں انہوں نے تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی بربادیوں کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے۔ سیکڑوں خاندانوں کا اجڑنا۔۔۔خونی رشتوں کا بچھڑنا۔۔۔۔۔۔ سہمی ہوئی آنکھوں میں بس جانے والا خوف۔۔۔۔۔۔سیاست کی دھوپ چھائوں غرض یہ کہ ہر احساس کو لفظوں کی صورت میں پیش کردیا ہے۔
’’مہاجر نامہ‘‘ ایک فرد واحد کی داستان نہیں ہے بلکہ ایک پوری جمعیت پر گذرے المیے کی روداد خونچکاں ہے۔ اس میں نہ صرف یہ کہ تاریخ بھی موجود ہے بلکہ اس دور کا جیتا جاگتا معاشرہ بھی نظر آتا ہے۔ اس نسل کو جو ازیتیں جھیلنی پڑیں اس کا درد وکرب تو ملتا ہی ہے ساتھ ہی اس حادثے کے بعد ذہنوں پر مرتب ہونے والے گہرے اثرات کی بھی بخوبی عکاسی ملتی ہے۔ہجرت کرنے کے بعد جو لوگ وہاں چلے گئے وہ بظاہر دنیا والوں کی نظروں میں محفوظ ہوگئے لیکن اس ہجرت کے نتیجے میں ان کی ذہنی کیفیت Nostalgicسی ہوگئی جس سے رہائی پانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ وہ جیسے ایک درد مسلسل کا شکار ہوکر رہ گئے۔ اپنی زمینیں، اپنی مٹی، اپنا وطن، اپنا کوچہ، اپنے درودیوار، اپنے لوگ، اپنے کھیت کھلیان، اپنی خوشبوئیں، اپنی فضائیں، ایک دم سے یوں چھوڑ کر چلے آنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک نئے دیس کو اپنانے کی جتنی بھی کوشش کی جائے اپنی مٹی کی خوشبو کہیں نہ کہیں دامن سے لپٹی ہی رہ جاتی ہے۔ وقت کی گہماگہمی میں یادیں بھلے ہی دھندلی پڑجائیں لیکن جب کبھی ان لوگوں کے سامنے ہجرت کا تذکرہ کیجئے تو جیسے زخموں سے لہوٹپکنے لگتا ہو اور بقول رانا:
ہم خود ادھڑنے لگتے ہیں ترپائی کی طرح
منوررانا نے سرحد کے اس پار چلے جانے والوں کے جذبات کی ترجمانی جس دردمندی سے کی ہے معلوم ہوتا ہے جیسے وہ خود اس کرب سے گذرے ہوں۔ اس مہاجر نامے کا ہر ایک شعر جیسے وہاں چلے جانے والوں کے دل کی آواز ہے۔ جو باتیں، جو اذیتیں، جو تکلیفیں وہ مہاجر لوگ اپنے دلوں میں چھپا کر دنیا والوں کی نظروں میں مضبوط بنے رہے اور اندر ہی اندر گھٹتے رہے، سسکتے رہے، روتے رہے انہیں منوررانا نے مہاجر نامے کی شکل میں گویا مجسم کردیا۔ یہ داستان ہے ان بدقسمت لوگوں کی جن سے ان کی شناخت چھین لی گئی۔ یہ حادثہ اتنا شدید تھا کہ ان کی قوت گویائی جیسے سلب ہوکر رہ گئی۔ وہ کراچی گئے تو لوگوں نے انہیں قبول نہیں کیا۔ اندرون سندھ جاکر خود کو سندھی کہنا چاہا تو سندھیوں نے مذاق بناڈالا، خود کو مہاجر ہی قبول کرلینا چاہا تو لوگوں نے طعنوں کی بوچھار کردی، اور پاکستانی شناخت پانے کی خواہش کی تو قدم قدم پر انہیں یاد دلایا گیا کہ ان کی جڑیں ہندوستان میں ہیں۔ وہ جنہوں نے اس قطعہ زمین کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیا وہ اپنی شنات تک سے محروم ہوکر رہ گئی۔ پاکستان ے محبت میں اپنا گھر بار رشتے ناطے، عزت وناموس، جان ومال یہاں تک کہ اپنی پہچان تک کھودینے کے بعد بھی وہ صرف مہاجر ہی رہ گئے۔ بے نام مہاجر۔
انہیں شکستہ دل اور شکستہ دامن مہاجروں کی ترجمانی جب منور رانا نے کی تو گویا اس منظوم داستان کا ہر شعر ایک نشتر بن گیا جس نے دلوں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ لوگ خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوگئے۔ عظیم ملک ہندوستان کی تقسیم اور رتقسیم کے بعد ہجرت کے المیے کو منور رانا نے طویل غزل کی ہیئت میں پیش کیا ہے۔ عموماً ایسے کسی بڑے موضوع کو اردو اور فارسی شعرا نے مثنوی اور انگریزی شعرا نے طویل نظم کی شکل میں نظم کیا ہے۔ ویسے تو اس طرح کی واقعہ نگاری کے لیے اردو کی نثری داستانوں کا کوئی جواب نہیں۔ لیکن منور رانا کی شاعرانہ ہمت وحوصلے کو ہی نہیں بلکہ ان کی فنی مہارت کو بھی سلام ہے کہ انہوںنے ایسے عظیم موضوع کے لیے پہلی بار اس غزل کا سہارا لیا جس میں دومصرعے میں بات مکمل کرلی جاتی ہے۔ منور رانا کے ’’مہاجر نامہ‘‘ کاکمال یہ ہے کہ اگر الگ الگ ایک ایک شعر پڑھاجائے تو ہر شعر اس طویل واقعے کے کسی ایک وقوع کو بیان کرتی ہوئی ایک مکمل اکائی معلوم ہوتا ہے اور سارا ’’مہاجر نامہ‘‘ ایک ساتھ پڑھا جائے تو غزل مسلسل کا لطف آتا ہے۔ اردو شاعری میں بہرحال یہ منور رانا کا منفرد اور اچھوتا تجربہ ہے۔ کتاب ’’مہاجر نامہ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پرمنور رانا کا دیباچہ بھی قابل توجہ ہے۔ تقسیم اور ہجرت کے تلخ حقائق کو سمیٹے ہوئے یہ دیباچہ منور رانا کی نثری شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔ وہیں ’’مہاجر نامہ‘‘ کے بہت سے اشعار بھی ایسے ہیں جن میں شاعرانہ چاشنی کے ساتھ نثر کی مٹھاس کا بھی لطف آتا ہے۔
’’مہاجر نامہ‘‘ کی تخلیق میں منور راناکا کمال یہ ہے کہ انہوںنے ہجرت کے کرب کو محض کسی داستان کے بیانیے کی طرح سے بیان نہیں کردیا ہے بلکہ اس تقسیم اور ہجرت کے سیاسی اسباب ووجوہات کو نہایت ہی بے باکی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ بین السطور بحیثیت راوی وہ کہتے جاتے ہیں اس تقسیم اورہجرت سے سرحد کے دونوں طرف کے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں تھی یہ تو بعض سیاسی رہنمائوں کے ہوسِ اقتدار کی دین ہے۔ جس کا فائدہ انگریز حکمرانوں نے دکھایا اور جس کی سزا بھولے بھالے عوام کو جھیلنی پڑی۔ زمینوں کے ساتھ دلوں کا بھی بٹوارا ہوا۔ محبتوں کے رشتوں میں نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوگئیں۔ ستیہ اور اہنسا کی دھرتی بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوگئی۔ نتیجے میں ملک کی ایک بڑی آبادی کو ہجرت بالجبر کے عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔
کوئی بھی مہاجر ہجرت کرتے وقت ہجرت کے انجام کی شکل میں ملنے والی شام غریبان سے بے خبر ہوتا ہے۔ اسے تو ایسا لگتا ہے کہ نئی دنیا کے نئے سویرے اسے آواز دے رہے ہیں۔ اس وقت وہ یہ بات بھی شدت سے محسوس نہیں کرپاتا کہ دعائے سفر پڑھتے وقت اس کے بازوئوں پر امام ضامن باندھنے والوں جنازوں میں بھی شرکت کرنا اب اس کے اختیار میں نہیں رہ جائے گا۔ وہ تو خواجہ حیدر علی آتش کے مصرعوں کی انگلیاں تھام کر سارے عزیزوں کو خدا حافظ کرنے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔ وہ تو بس اپنی رو میں گنگناتا جاتا ہے:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ہے
ہزار ہاشجر سایہ دار راہ میں ہے
مگر انجام کار پرائے دیس میں جاکر وہ دیکھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں نے تو ہمارے آنے کی خبر سنتے ہی سارے شجر سایہ دار کاٹ دئیے ہیں۔ نتیجے میں منوررانا کے لہجے میں اپنی گفتگو اس طرح شروع کرتا ہے۔ پانچ سو اشعار پر مشتمل رانا کی موضوعاتی غزل ’’مہاجرنامہ‘‘ کا مطلع ہے:
مہاجرہیں مگرہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
اس شعر میں گزرے وقت کے سبھی ستم پوشیدہ ہیں۔ مطلع کاپہلا لفظ ہی ’’مہاجر‘‘ ہے۔ لفظ مہاجر سننا ان لوگوں کے لیے کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا رد عمل بڑے حزن انگیز لہجے میں ظاہر کیا ہے۔ اور یہ لفظ ’’مہاجر‘‘ سہنے کے بعد جس بے سروسامانی کا عالم ہوتا ہے اس کی تصویر کشی کرتے ہوئے منور کہتے ہیں:
کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں
ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں آنکھیں کھولنے والے لوگوں کے لیے اپنے وطن کی مٹی اور اس کی خوشبو کو بھلانا کتنا مشکل ہوسکتا ہے یہ بات ایک سچا ہندوستانی ہی سمجھ سکتا ہے۔ تقسیم کے بعد جو لوگ یہاں سے وہاں گئے وہ دم آخر تک اپنا ماضی فراموش نہ کرسکے۔ ان کا پیارا بچپن جو ہندوستان کی گلیوں میں گزرا تھا جہاں سرسوں کے کھیت لہلہاتے تھے، املی، جامن اور شہتوت کے پیڑوں میں جھولے ڈالے جاتے تھے۔ صبح کی اذان کے ساتھ مندروں میں گھنٹیاں بجتی تھیں جن کی آواز اب تک ان کے کانوں میں گونجتی ہے۔ کہیں گھاٹ، کہیں چوپال، کہیں اردو، کہیں ہندی، ہندومسلم کی وہ محبت والفت وہ یاد کرتے اور پچھتاتے رہے۔ سرحد کے اس پار وہ لٹے ہوئے لوگ جنہوں نے ایک قوم اور ایک ملت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا وہ آج تک مہاجر کے لقب کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور جب ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھتے ہیں تو بیتے وقت کی سنہری یادیں انہیں بے چین کردیتی ہیں۔
خدا جانے یہ ہجرت تھی کہ ہجرت کا تماشا تھا
اجالے کی تمنا میں اجالا چھوڑ آئے ہیں
تیمم کے لیے مٹی بھلا کس منھ سے ڈھونڈیں ہم
کہ ہم شفاف گنگا کا کنارا چھوڑ آئے ہیں
منور کہتے ہیں کہ:
’’ جو لوگ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان گئے وہ بھی اذیت میںمبتلا رہے اور جو ہندوستان میں رہ گئے ان پر بھی غموں کے پہاڑ ٹوٹتے رہے لیکن دونوں کی نوعیت میں فرق ہے۔ منور رانا کے الفاظ میں ہجرت کرنے والوں کو ہجرت کا غم منانے کی اجازت تھی لہٰذا وہ اپنے پچھتاوے، غلط فیصلے یا قسمت کی خرابی پر رو بھی سکتے تھے اور ماتم بھی کرسکتے تھے لیکن اس کے برعکس ہندوستانی مسلمان تقسیم کی شرمندگی سے اتنا ٹوٹ چکے تھے کہ اپنے خاندان کے زیادہ تر لوگوں کے پاکستان چلے جانے کے بعد وہ اپنے گھروںمیں ایسا قید ہوئے کہ پھر وہاں سے چار کاندھوں پر سوار ہوکر ہی نکلے۔‘‘
لیکن اہل سیاست کو اس سے کیا لینا دینا؟ انہوں نے اپنے اقتدار کے لیے نہ جانے کتنی گودوں کو اجاڑ دیا، کتنی ہی مانگوں کو سونا کردیا اور کتنے ہی گھروں کو ویران کردیا۔ ایک ہی ملک کے باشندوں کے درمیان تقسیم کے نام پر سرحدیں حائل ہوگئیں۔ پھر ہجرت کے عفریت نے اپنی تباہ کاریاں شروع کیں تو لوگوں کو بے رحمی سے سرحدوں کے اس پار ڈھکیل دیا۔منور رانا کی چشم احساس نے ان اندوہناک مناظر کو پوری دردمندی کے ساتھ دیکھا اور اپنے اشعار میں جذب کرلیا۔ وہ غیر منقسم ہندوستان کو ایک خوبصورت شعر تصور کرتے ہیں۔ ایک شاعر کے لیے یہ تصور کس قدر فطری ہے ، وہ ایک مہاجر کی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مہاجر اس لیے ہم ہیں کہ اک مصرعے کی صورت میں
یہاں آتے ہوئے ہم ایک مصرعہ چھوڑ آئے ہیں
ظاہر ہے اب ہر شخص ٹکڑوںمیں تقسیم اور لہو میں غرق شعر نما ہندوستان کی بربادیوں کا ماتم کرنے پر مجبور ہے۔پاکستان میں ہر مہاجر یہی محسوس کررہا ہے کہ جیسے اس کا بچھڑا ہوا ہندوستان اس کو بلارہا ہے۔
کسی آہٹ پہ بھی فوراً پلٹ کر دیکھنا گھر کو
درودیوار کو آواز دیتا چھوڑآئے ہیں
اور جب بچھڑنے والوں کو گھر کے درودیوار یاد آتے ہیں تو گھر والوں کی یادیں بھی ستاتی ہیں، کھیل کود میں گزرا ہوا بچپن بھی یاد آتا ہے۔ اب اسی نفسیات چھوٹے بڑے ہر شے کو تلاش کرتی ہے:
بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں
ابھی تک رنگ سارے یاد ہیں اپنی پتنگوں کے
جنہیں ہم پیڑ کی شاخوں میں الجھا چھوڑ آئے ہیں
چنانچہ جہاں ملک کی تقسیم اور لوگوں کی ہجرت کے نتیجے میں خون کے پاکیزہ رشتے ٹوٹ گئے وہیں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان پنپنے والے محبت اور وضع داری کے رشتوں کا بھی خون خرابہ ہوگیا۔ ایسے میں ایک مہاجر کو ساون بھادوں کی رم جھم میں ہنستے کھیلتے ہندوستان کی یاد میں خون کے آنسو رلانے لگتی ہیں۔
منور رانا اس کرب کو اس طرح اجاگر کرتے ہیں:
عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں
مہاجر کو ایک طرف غیروں کا کلچر یاد آتا ہے تو دوسری طرف انہیں گہوارہ علم وادب لکھنؤ کے ادارے اور مذہبی تقریبات کی بھی بہت یاد آتی ہے۔
محرم کی سبیلیں مرثیے اور آگ پر ماتم
نہ جانے لکھنؤ میں اور کیا کیا چھوڑ آئے ہیں
کبھی وہ رائے بریلی میں علی میاں کا تکیہ یاد کرتا ہے اور کبھی لکھنؤ یونیورسٹی والی گومتی کا کنارا:
جہاں کے عالموں سے ساری دنیا درس لیتی ہے
وہ تکیہ چھٹ گیا ہم سے وہ ندوہ چھوڑ آئے ہیں
پھر ہندوستان سے بچھڑنے والے کف افسوس ملتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آخر تقسیم کا مقصد کیا تھا اور ہمیں ملا کیا؟
تو کیا تقسیم ہی بنیاد پاکستان ٹھہری تھی؟
ہم اک ٹکڑے کی خاطر ملک سارا چھوڑآئے ہیں
وہ جنگ آزادی کے لیے اپنی قربانیوں کو یاد کرکے کہتا ہے:
ہمارا خون بھی شامل تھا آزادی کی جنگوں میں
ہم اپنے خون سے لکھا نوشتہ چھوڑ آئے ہیں
مسلمانوں کے لیے ان کے خون سے لکھا آزادی کا وہ نوشتہ ہی ان کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا جسے چھوڑ کر وہ پاکستان چلے گئے۔ جس طرح ان کی قربانیوں پر پردہ ڈالنے والوں کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ہندوستان چھوڑنے کی وجہ سے ان پر مختلف تہمتیں لگیں تو پاکستان میں رہ کر وہ مہاجر کہلائے اور ہمیشہ سوتیلے سلوک کا شکار ہوئے۔ ان کے دلوں کے زخم آج بھی فریاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سیاست ہے، رعونت ہے، عداوت ہے، بغاوت ہے
وبائیں ساتھ لائے ہیں مسیحا چھوڑ آئے ہیں
جب مہاجرین پاکستان جاکر وہاں سیاست کے مختلف پاٹوں کے درمیان پھنسے تو اپنے تلخ تجربات کی بنیاد پر دنیا کی دوسری قوموں کو ترک وطن نہ کرنے کا مشہور بھی دیتے ہیں:
کسی بھی حال میں اپنے وطن کو چھوڑ مت دینا
ہمارا حال دیکھو ہم گھر اپنا چھوڑ آئے ہیں
احساس جرم انہیں یہ اعتراف کرنے پر مجبور کرتا ہے:
ہمیں تاریخ بھی اک خانہ مجرم میں رکھے گی
گلے مسجد سے ملتا اک شوالہ چھوڑآئے ہیں
مہاجر نامہ میں جو وصف ہمیں سب سے زیادہ وضاحت اور اپنے پورے شباب پر ملتا ہے وہ ہے جذبات نگاری۔ اس غزل مسلسل کا ہر شعر جذبات نگاری کا مرقع ہے۔ حالات کے جبر کے نتیجے میں ہونے والی منتقلی کے شدید اثرات۔۔۔۔۔سب کچھ لٹاکر بھی کچھ نہ ملنے کا احساس نارسائی۔۔۔۔۔اپنے خونی رشتوں کو کھونے کا وہ کرب جس نے ہزاروں انسانوں کو توڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔۔وہ شدت ضبط جب آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے لہوٹپک پڑے۔ منوررانا نے ان سبھی جذبات کی اتنی حساس اور حزنیہ تصویر کشی کی ہے کہ ذہن میں و سارے درد انگیز منظر نازہ ہوجاتے ہیں۔ آنکھیں بے اختیار اشکبار ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔ آپ بیتی سناتے سناتے اکثر جگہوں پر ان کا لہجہ مزاحمتی اور احتجاجی ہوجاتا ہے، دبادبا سا معصوم احتجاج۔۔۔۔۔جس میں ایک فریاد سی چھپی ہوتی ہے۔
بہت روئی تھی ہم کو یاد کرکے بابری مسجد
جسے فرقہ پرستوں میں اکیلا چھوڑآئے ہیں
ہمارا خون بھی شامل ہے آزادی کی جنگوں میں
ہم اپنے خون سے لکھا نوشتہ چھوڑ آئے ہیں
بہت چپ چپ سے رہتے ہیں شکایت بھی نہیں کرتے
کہ اے خاک وطن ہم ساتھ تیرا چھوڑ آئے ہیں
اور ان سارے جذبات پر حاوی ہے احساس ندامت۔۔۔۔۔۔شرمندگی۔۔۔۔پچھتاوا۔ دکھ سا دکھ ہے کہ اب کف افسوس ملتے ہیں۔۔۔۔۔یہ ناسور تو اب ساری زندگی ستائے گا۔۔۔۔۔۔۔سب کچھ کھودیا۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہ پایا ۔۔۔۔۔۔ خالی دل ۔۔۔۔۔۔ خالی ہاتھ۔ کس سے کہیں ۔۔۔۔۔۔ سارے قصور تو اپنے ہی کھاتے میں نکلتے ہیں۔ اب سی لیے ۔۔۔۔۔۔ آنکھیں خشک کرلیں ۔۔۔۔۔۔ دل ویران کرلیے ۔۔۔۔۔۔صبروضبط کی دبیز چادر میں سارے احساسات چھپالیے۔ لیکن منور نے ایک دھاگا ادھیڑا اور پوری ترپائی کھل گئی جیسے:
یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شاید ہماری تھی
کہ ہم بستر پہ اک ہڈی کا ڈھانچہ چھوڑ آئے ہیں
ہمیں روتے ہوئے وہ لوگ اب بھی یاد آتے ہیں
جنہیں ہم بے سبب اور بے ارادہ چھوڑ آئے ہیں
دنیا بڑے بڑے حادثات اور سانحات سے بھری پڑی ہے لیکن جیسا المیہ ان مہاجروں نے برداشت کیا ہے وہ تاریخ کے سینے پر آنسوئوں اور لہو سے لکھا ہے۔ پاکستان سے محبت کی سزا ان کی تیسری نسل آج تک بھگت رہی ہے۔ اسی داستان غم کو منور نے لفظی تصویروں کے ذریعے جب بیان کیا تو پڑھنے والوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ دکھ، حیرت، رحم، خوف، احتجاج اور صرف کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا تو چھلک کر مہاجر نامہ کی شکل میں شکوہ بن کر سامنے آگیا۔ اور اب سوائے اظہار تاسف کے اور بچا ہی کیا ہے:
ہم اپنی بے بسی پر اب کف افسوس ملتے ہیں
کہ خواجہ آپ کا بھی آستانہ چھوڑ آئے ہیں
منور کی یہ طویل داستان فنی اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس غزل کے ہر شعر میں منور نے ’’چھوڑ آئے ہیں‘‘ ردیف کا حیرت انگیز طور پر استعمال کیا ہے۔ قافیے کا بھی اہتمام حیرت انگیز ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں قافیہ پیمائی کرنا بھی آسان نہیں۔ قافیہ ردیف کے دست وگریباں ہے۔منوررانا کا ذخیرۂ الفاظ اور ہر لفظ کے پیچھے آباد جہاں معنیٰ اپنے قاری کو یقینا حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
منور رانا نے مہاجر نامہ میں ’’کبوتر‘‘ پرندے کا استعارہ بھی بارہا استعمال کیا ہے۔ کبوتر کا ذکر وہ بڑی معنی خیز سادگی سے کرتے ہیں۔ منوررانا کے ’’یہاں کبوتر‘‘ کے مختلف معنوی التزام کے ساتھ ایک رعایت یہ بھی ہے کہ ’’سید الطیور‘‘ کہا گیا ہے۔ اور لفظ ’’سید‘‘ سنتے ہی مظلومیت کی ایک پوری کائنات ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ شعر دیکھئے:
کبوتر اپنے سارھ چھوڑ کر ہم یوں چلے آئے
کہ جیسے سیدوں کو بھوکا پیاسا چھوڑ آئے ہیں
مہاجر نامہ میں منور نے نہایت سادہ اور دل آویززبان کا استعمال کیا ہے۔ نہ مشکل قوافی، نہ بھاری الفاظ، نہ رموز وعلائم کی بھرمار ۔۔۔۔۔۔عام روز مرہ میں بولے جانے والے سیدھے سادے الفاظ اور سہل ممتنع کے سے انداز بیان کے ذریعے منور نے اس طویل غزل میں حیرت انگیز طور پر مسلسل قائم رکھا ہے۔ ہندوستان کے تقریباً ہر شہر اور ہر بستی کا ذکر اور وہاں کی مخصوص چیزوں کے بیان کا منورنے خاص خیال رکھاہے۔ مہاجر نامہ میں ہندوستان کی بالخصوص گائوں دیہات کی فضا واضح طور پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ برگد کے پیڑ، تالاب اور گھاٹ، مٹی کے چولہے، چھپر، چھتے، باغ، بغیے، جیسے الفاظ کے ذریعے منور ایک پردرد تاثر قائم کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔
مہاجر نامہ ہندوستان کی رنگا رنگ تہذیب کا خوبصورت نمونہ ہے۔یہ تصویروں کاایک ایسا نگار خانہ ہے جہاں لفظوں کے ذریعے تصویرکشی کی گئی ہے۔ انہوں نے اشعار کے ذریعے ایسی بولتی تصویریں پیش کی ہیں جو رنگوں کی محتاج نہیں ہیں۔ شہر لکھنؤ کی عزداری، علی گڑھ کی دانش گاہ، دہلی کا لال قلعہ، بھوپال کا تالاب، الہ آباد کا سنگم، ممبئی کا سمندر، جے پور کی چیزیں اور اس کے علاوہ تمام شہروں کی ایسی جیتی جاگتی عکاسی کی ہے کہ آنکھوں کے سامنے غیر منقسم ہندوستان کی تصویر کھنچ جاتی ہے اور زبان کلچے نہاری ربڑی، امرود، لیچی اور بتاشوں کا ذائقہ محسوس کرنے لگتی ہے۔ ان کی امیجری مہاجر نامے میں اپنے مکمل عروج پر نظر آتی ہے۔
غرض یہ کہ مہاجر نامہ اردو ادب میں طویل نظموں کی روایت میں خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہ صرف ایک جذباتی داستان نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی حقیقت اور اجڑی ہوئی تہذیب کا منظرنامہ ہے۔یہ ہزاروں تباہ شدہ روحوں کا نوحہ ہے اور ان نادر ونایاب تصویروں کا البم ہے جو قت کی چکاچوند میں دھندلی ہوتی جارہی ہیں۔ منور نے جیسے انہیں مقدس سمجھ کر ہمیشہ کے لیے اپنے شعروں میں محفوظ کرلینا چاہا ہو کہ جب کبھی کوئی ہجرت کا مارا ٹوٹے دل کا مہاجر اپنے ماضی کے سنہرے ہندوستان کو دیکھنا چاہے گا تو وہ مہاجر نامے کے جیتے جاگتے لفظوں میں پورا منظر دیکھ لے گا۔ اور پھر بے ساختہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا۔
گئے وقتوں کی البم دیکھنے بیٹھے تو یاد آیا
ہم اک چہرے میں اپنا ناک نقشہ چھوڑ آئے ہیں
سیاست کے بنے اک جال میں ہم پھنس گئے آخر
محبت سے بنایاگھر کا نقشہ چھوڑ آئے ہیں
منوررانا کو اس حقیقت کا شدت سے احساس ہے کہ اگر ماضی میں ہندوستان جیسے قدیم اور عظیم ملک کی تقسیم نہیں ہوئی ہوتی توآج دنیا کے باقی مشرقی ممالک پر بھی مغرب کی ایسی اجارہ داری نہ ہوتی۔ اور ہماری وہ تہذیب جن کی بنیادہی تصوف اور بھکتی پر بھی اس مادیت کا ایسا حملہ نہیں ہوتا۔
’’مہاجرنامہ ‘‘ منوررانا کی جس قدر کامیاب شعری تخلیق ہے اسی قدر دلکش اور دیدہ زیب اس کی پیش کش بھی ہے۔ پانچ سو اشعار کی یہ ایک غزل ایک سوتیس صفحات پر شائع کی گئی ہے۔ ہجرت کے درد انگیز مناظر کو خیالی تصویروں کے ذریعے بھی پیش کیا گیا ہے۔ سرورق بھی موضوع کا حق ادا کرتا ہے اور پشت پر نوشاد مومن کی عبارت بھی۔ یقینا مہاجر نامہ منور رانا کا شعری شاہکار ہے۔
(صدرشعبۂ اردو لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here