مشفق و مہربان شفاعت علی صدیقی

0
315

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

اویس سنبھلی

ماضی قریب میں ہماری زبان وادب کی کئی اہم ترین شخصیات دنیا سے اٹھ گئیں۔قدرت کا قانون بھی یہی ہے کہ جو آیا ہے وہ جائے گا بھی مگر یہ بھی فطرت کا ہی ایک عمل ہے کہ جانے والے کا دکھ بھی ہوتا ہے۔ کل شفاعت صاحب (دادا)کے انتقال کی خبر سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں فوراً ان اپنے ایک ساتھی محمد نورعین کے ساتھ الماس باغ، ہردوئی روڈپرواقع ان کے گھر کے لئے نکل پڑا۔گھر پہنچ کردیکھا تو محترم احمد ابراہیم علوی صاحب وہاں پہلے سے موجود تھے، ان سے ملاقات کی اس کے بعد شفاعت صاحب کے صاحبزادگان سے تعزیت کی اور پھر شفاعت صاحب کو آخری بار جی بھر کر دیکھا۔کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہم لوگ واپس لوٹ آئے۔شفاعت صاحب ، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی مرحوم کے تعلق سے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور میں نے بھی ہمیشہ انھیں اس رشتہ کی وجہ سے دادا کہہ کر ہی پکارا۔یکم اگست۲۰۱۸ء کی شام ۴؍بج کر ۱۵ منٹ پر شفاعت صاحب نے آخری سانس لی اور ۲؍اگست کی صبح گیارہ بجے عیش باغ قبرستان میں اہل علم و دانش نیز ان کے خاندان کے لوگوں نے شفاعت علی صدیقی کو ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی ، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کے قریب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سپرخاک کردیا۔ اللہ تعالیٰ آگے کے مراحل آسان فرمائے اور شفاعت علی صدیقی مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ اوران کے صاحبزادگان اطہر اقبال، اختر اقبال اورمظفر اقبال نیز تمام اہل خانہ کو صبر عطا فرمائے۔ آمین
شفاعت صاحب لکھنؤ کی جانی پہچانی شخصیت تھے اور اسی کے ساتھ جن لوگوں نے بھی انھیں قریب سے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا تھے۔ شفاعت صاحب بے حدسیدھے سادے ، ملنسار ، خوش اخلاق ، سادہ کلام تھے۔ ان کی شرافتِ مزاج ، خلوص ندامت اور جذبے کی پاکیزگی کا ہر جاننے والا گواہی دے سکتا ہے۔وہ ہنسی مذاق تو بہت کم کرتے تھے لیکن ایک خاص طرح کی متانت اور سنجیدگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ بہت نرمی اور اپنائیت کے لہجہ میں بات کرتے تھے۔لکھنؤ کے پرانے لوگوں (خاص کر جن کا تعلق اردو ادب سے تھا) کا ذکر بڑے احترام سے کرتے تھے۔وہ ہمیشہ دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف اور اپنے چھوٹوں پر شفقت کی نظر رکھتے تھے۔شفاعت صاحب نے بہت کام کیا ، انھیں وقت کی قدر تھی۔ شاید ان کے اس عمل کے نتیجے میں اللہ پاک نے ان کو اپنی خصوصی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا تھا جس کا اثر ان کے حسن سلوک اور جذبۂ خلوص و خدمت سے ظاہر ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ شفاعت علی صدیقی کے انتقال کا سانحہ اردو والوں کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے ۔ شفاعت صاحب اپنی ذات میں ایک درسگاہ تھے، ایک انجمن تھے ۔ قدرت نے اعلیٰ ادبی و تنظیمی صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔لکھنؤ کا آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن ایک زمانے میں بڑا ممتاز رہا ہے اس میں جو لوگ کام کرتے تھے وہ بڑی صلاحیتوں والے تھے ، انھیں میں ایک نام شفاعت علی صدیقی کا تھا، انھوں نے لکھنؤ ریڈیو کے ذریعہ باذوق سامعین اور افراد کے جو پروگرام پیش کئے انھیں کسی زمانے میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں اس کے ذریعہ عوامی دلچسپی کو ہی پیش نظر نہیں رکھا بلکہ اس سے عوامی معلومات میں اضافہ بھی کیا۔شفاعت صاحب کے کئی پروگرام مثلاً اُتّرائن (پہاڑوں سے متعلق) ’پروگرام برائے اطفال ‘’یہ بستیاں ہماری(شخصیات پر)‘ بولتی تحریریں (کلاسیکی ادب پر) لکھنؤ کے محلے ، گلی گلی آباد تھی جن سے ،بہت پسند کئے گئے۔آل انڈیا ریڈیو(لکھنؤ) کے حوالے سے شفاعت صاحب کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بزرگ صحافی احمدابراہیم علوی لکھتے ہیں:
’اردو پروگرام‘ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کی خصوصیت سمجھے جاتے تھے جنہیں شفاعت علی صدیقی پیش کرتے تھے۔ انہوں نے کم و بیش پچیس (۲۵)بر س تک خدمات انجام دیں شفاعت صاحب ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ ان کے پیش کردہ پروگرام اردو زبان میں پیش کئے جانے والے سب سے معیاری اور مفید رہیں وہ خصوصیت سے کوشاں رہتے تھے کہ لکھنؤ سے پیش کئے جانے والے اردو پروگرام درست اردو میں ہوں، تلفظ صحیح ہو نیز پُر از معلومات بھی ہوں۔شفاعت صاحب نے معیار اور اعتبار کو برقرار رکھنے میں کبھی کوتاہی نہ کی ان کا پیش کیا جانے والا پروگرام ’شام غربیاں‘ ایک ایسا پروگرام تھا جس کو پوری دنیا میں بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔ یہ پروگرام پیش کرنا اس لئے مشکل تھا کہ یہ بہت بڑے ہجوم میں اندھیرے میں راست پیش کیا جاتا تھا اس میں بڑی احتیاط اور احترام سے واقعات کربلا کو پیش کیا جاتا تھا تو کربلا کی بڑی سچی منظر کشی بھی ہوتی تھی اس پروگرام کو ہمیشہ بہت اشتیاق سے سنا گیا جس سے ریڈیو کی اہمیت اور شہرت بڑھتی تھی ۔ شفاعت صاحب کے بعد پھر کوئی بھی ان کی طرح ایسا پروگرام نہ پیش کر سکا جن لوگوں نے ان کے پیش کردہ پروگرام سنے وہ آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔اودھ کے قصبات کے سلسلہ میں ’یہ بستیاں ہماریاں‘ پروگرام بڑا اہم رہا ہے۔ اودھ کے قصبات کی خصوصیت اور اہمیت سے لوگوں کو بخوبی واقف کرانے کے لئے بھی شفاعت صاحب نے بڑا اچھا سلسلہ شروع کیا جس کو ہمیشہ پسند کیا گیا۔ شفاعت صاحب نے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے اردو کے جو پروگرام پیش کئے اس کے لئے انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا۔ اپنی مدت خدمت مکمل کرنے کے بعد بھی ریڈیو ذمہ داران نے شفاعت صاحب کو وابستہ رکھنا چاہا مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ سرخروئی سے سبکدوش ہوکر گھر بیٹھ رہے۔ (بحوالہ شفاعت علی صدیقی’’مجموعی خدمات کی ایک جھلک‘‘ صفحہ ۳)
ریڈیوکی خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد حیات اللہ انصاری صاحب نے شفاعت علی صدیقی کو قومی آواز کے ادبی ضمیمہ کا ایڈیٹر مقرر کر دیا، یہاں بھی شفاعت صاحب نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور قومی آواز کی ادبی میگزین کو نئی بلندی عطا کی۔ماہنامہ فروغ اردو نے جگر مرادآبادی نمبر اور سعادت علی صدیقی نمبر شائع کئے تو اس کے لئے شفاعت صاحب کی خدمات حاصل کیں۔ جگر مرادآبادی کے انتقال کے بعد ان کی شخصیت اور شاعری پر شائع ہونے والا یہ پہلا نمبرتھا جو تقریباً ۶۲۰ صفحات پر مشتمل تھا۔ رئیس المتغزلین جگرمرادآبادی کو زندگی ہی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اردو شاعری کی تاریخ میں اس کی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں۔ جگر صاحب کے انتقال پرپورے ملک میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ان کا سوگ پورے ملک میں جس طرح منایا گیا اس سے عوام میں ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ماہنامہ فروغ اردو کے جگر مرادآبادی نمبر کی ترتیب کاکام شفاعت صاحب نے نہ صرف بحسن و خوبی انجام دیا بلکہ ’’داغ جگر‘‘ کے عنوان سے اس پر ایک اداریہ بھی قلم بند کیا۔ اس اداریہ کے یہ اقتباسات بطور نثری نمونہ پیش خدمت ہے:
’’۹؍ستمبر ۱۹۶۰ء کو نسیم سحر کے بے درد جھونکوں نے ہماری شاعری کی وہ شمع گل کردی جو ایک دورِ رفتہ اور صحبت نشاط کی یادگار تھی نیک سیرتی انسان دوستی اور اصول پرستی کے مجسمے علی سکندر جگرؔ مراد آبادی ۷۰ سال کی عمر میں اپنے پیرو مرشد کے وطن گونڈہ میں وفات پا گئے۔ جگرؔ کی وفات کے ساتھ نہ صرف شاعری کے ایک پورے دور کا خاتمہ ہو گیا بلکہ شرافت، غم گساری اور رفاقت کا دور بھی ختم ہو گیا اور ساتھ ہی غزل کا حسن، اس کی دلکشی و رعنائی۔ اس کی محبوبیت اور انفرادیت بھی ختم ہو گئی۔جگرؔ قدیم دبستانِ شاعری سے وابستہ تھے لیکن جدید تقاضوں سے کبھی بے خبر نہیں رہے۔ انہوں نے قدیم و جدید میں جو خوشگوار اور دلکش توازن قائم کیا وہ اردو غزل کے آبرو ہے۔ ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیت خیالات کی پاکیزگی اور انداز بیان کی لطافت ہے۔ اسی دل آویز پیرایہ کی وجہ سے ان کے معمولی سے معمولی خیالات بھی دلکش بن جاتے ہیں۔
جگرؔ نے اپنے احساسات کو آب و رنگِ شاعری میں اس طرح سموکر پیش کیاہے کہ دل و نظر ان میں جذب ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ان کے موضوعات سخن محض درد جہر اور لذتِ وصال ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے حیات و کائنات کے وسیع موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے اور کبھی شعریت کا دامن نہیں چھوڑا۔ وہ ہمیشہ عمل اور سخت کوشی کے مرید رہے اور ہر انقلاب کو حیاتِ نو کا پیغام سمجھتے رہے۔ انہوں نے ایسے پر آشوب زمانے میں جبکہ ماضی کے ادب سے رشتہ توڑنے اور غزل کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ ادبی اور شعری روایات کا احترام ہی نہیں کیا بلکہ اس کی حفاظت بھی کی۔ اپنے دلنشیں و پر اثر ترنم اور پاکیزہ و تغزل سے یہ ثابت کردیا کہ قدیم شعری اور ادبی روایات سے ہی صحت مند اور تعمیری ادب کی تخلیق ہو سکتی ہے۔‘‘ ماہنامہ فروغ اردو(جگر نمبر) ۱۹۶۱ء
سعادت علی صدیقی ، شفاعت صاحب کے بڑے چہیتے بھتیجے تھے ۔ اکلوتی بیٹی شاہین کے انتقال کے بعد سعادت صاحب کی وفات نے شفاعت صاحب کو توڑ کررکھ دیا۔سعادت صاحب کے انتقال پر ماہنامہ فروغ اردو نے ایک نمبر شائع کیا۔ اس نمبر میں ایک مختصر اداریہ شفاعت علی صدیقی صاحب نے لکھا تھا، یہ پہلی تحریر تھی جو میں نے شفاعت صاحب کی پڑھی تھی۔اس کا عنوان تھا ’’سعادت کی وفات‘‘۔درد میں ڈوبی ہوئی انگلیاں جب قلم ہاتھ میں لیتی ہیں تو ایسے جملے نکلتے ہیں جنھیں پڑھ کر چیخ نکل جائے۔آپ بھی پڑھئے اور ان کے درد کو محسوس کیجئے اور ان کے صبر کی داد دیجئے:
۲۸؍جنوری ۱۹۸۷ء کو میری اکلوتی بیٹی کا انتقال ہوا تھا۔ سات سال گذر جانے کے باوجود اس حادثہ کا غم تازہ تھا اور زخم ہرا۔ سعادت کی موجودگی اس زخم کے لئے مرہم کا کام کرتی تھی لیکن مشیّت کے معاملات میں انسان کتنا مجبور ہے کہ میں اور برادرِ مکرم ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی بیٹھے ہی رہ گئے اور موت ہمارے بازو کی قوت، ہماری آنکھوں کے نور،لائق اور باکمال فرزند کو اٹھا لے گئی۔مرنا برحق ہے، جوپیدا ہوا ہے اسے ایک نہ ایک روز تو مرنا ہی ہے مگر سعادت کی وفات ، فرمانبرداری، منکسرالمزاجی، سعادت مندی او رخوش اخلاقی کا مرثیہ ہے۔ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی ر حمت و مصلحت پر یقین نہ ہوتا اور اللہ صبر و برداشت کی طاقت نہ عطا فرماتا تو اتنا بڑا حادثہ جھیل جانا ہم لوگوں کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ (اداریہ ’’سعادت علی صدیقی نمبر‘‘ ماہنامہ فروغ اردو ،۱۹۹۴ء)
شفاعت صاحب کی ان تحریروں کے مطالعہ سے بخوبی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جو صلاحیتیں عطا کی تھیں ان میں ایک صلاحیت اچھی نثر لکھنا بھی تھا۔یہ الگ بات کہ انہو ں نے اس کی طرف باقاعدہ توجہ نہیں دی ۔
چراغ علم و ادب جو لکھنؤ کی آبرو ہوا کرتے تھے ، بجھتے جارہے ہیں۔ لکھنؤ خالی ہوتا جارہا ہے۔ شفاعت صاحب کے چلے جانے سے علم و ادب کا ایک چراغ اور بجھ گیا اب پچاس برس پہلے کے لکھنؤ کے بارے میں بتانے والے بس انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here