9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عادل نصیر
ایک تنگ بد بو دار گلی کے آخر میں ٹین سے بنی جھونپڑی سے حسب معمول وہ تلاش معاش کی خاطر نکل گیا۔ گلی سے گزرنے کے دوران سر پیر بچاتے ہوئے جب وہ شاہراہ پر پہنچا تو حیران و پریشان چاروں سمت دیکھنے لگا۔ ہر سو سناٹا تھا۔ مصروف شاہراہ پر آج جیسے سکتہ طاری ہوگیا تھا۔ وہ شش و پنج میں مبتلا ہو گیا ۔
“لگتا ہے قیامت آگئی ہے یا بھوت پریت نے شہر والوں کو محصور کر رکھا ہے، کہاں ہیں سب ” وہ حیرانگی میں یہی سوچتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔
آگے بڑھتے ہر قدم کے ساتھ اسکے ذہن میں نئے نئے خیالات پنپتے رہے۔ یک لخت بچپن میں اماں سے سنی بھوت کہانیاں اسے یاد آنے لگیں۔ شاید شہر پر بھوتوں کا سایہ پڑ گیا ہے ۔ یا شہر کے بڑے بڑے محل خانوں میں رہنے والے صاحبان نے آج اپنے آرام کیلئے چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ یا پھر پچھلی بار کی طرح کسی کا خون ہوگیا ہو ۔
وہ یہی باتیں سوچتے سوچتے آگے بڑھ رہا تھا کہ سامنے سے پولیس کی ایک گاڑی اعلان کرتی ہوئی آئی ۔ وہ بے فکر اپنی ہی دھن میں آگے بڑھ رہا تھا ۔ پولیس کی گاڑی اسکے سامنے رک گئی اور ایک اہلکار نے نیچے اترتے ہی تنبیہ کیا :
” اے بڑھے ۔۔ کدھر کو چلا ۔۔سنا نہیں، لاک ڈاون کا اعلان ہوا ہے ۔۔۔اکیس دن کا لاک ڈاون ۔۔ چپ چاپ گھر چلا جا ۔۔اور اب اکیس دن کے بعد ہی گھر سے نکلنا ۔۔ چل نکل”
وہ پیچھے مڑا اور گھر کی جانب چلنے لگا لیکن، گھر کی طرف بڑھتے ہر قدم کے ساتھ اسکے اضطراب اور فکر کی کیفیت نفسیاتی الجھاؤ پیدا کر رہی تھی ۔
“یہ لاک ڈا ۔۔ ون کیا ہے ؟ ”
“اکیس دن ۔۔؟ ”
“بچوں کو کیا کھلاوں گا؟”
اسی تشویش میں خود کلامی کرتے وہ اپنی جھونپڑی کے دروازے پر پہنچ گیا۔ بیوی بچے ابر آلود آسمان کو دیکھتے ہی اندر سمٹے ہوے بیٹھے تھے، اور وہ___ پژمردہ و مضطرب حالت میں کبھی اٹھتا اور کبھی بیٹھ جاتا۔ دن پر گلی سے کوئی انسان بھی باہر نہیں آیا اور رات بھی اسی سناٹے میں گزر جانے کی فکر میں وہ تمام قوتیں ہار کر اندر چلا گیا۔ بچے تو آدھے پیٹ سو گئے مگر وہ رات بھر کروٹیں بدل بدل کر اپنے مقدر کی بےرخی کا سبب جاننے لگا۔
“قدرت نے یہ وبائی بیماری کس کیلئے نازل کی ہے ۔ محل خانوں اور ایوانوں میں سرزد ہوئے گناہوں کا کفارہ ہم جیسے مفلس کیسے ادا کر سکتے ہیں ۔ محلوں میں تو آج بھی پیالے چھلکتے ہونگے ، دن پر ٹی ۔ وی اسکرین پر ہم مفلسوں کا حال دیکھ کر تو آج بھی افسوس کیا جاتا ہوگا ، نئے نئے پکوان کھائے جارہے ہونگے، چراغاں ہو رہا ہوگا ۔ مگر۔۔۔ مگر یہ جھونپڑیاں ہی بھوک کی سیاہی اور پریشانی کے اندھیرے میں گرفتار کیوں رہیں۔ سرکار راحت رسانی کے اعلانات کر رہی ہو گی پچھلے سیلاب کے دوران بھی جو کیے تھے۔ لیکن بچے آج بھی بلک کر جان دیں گے ۔ مذہب کے پجاری امداد کے دعوے کر رہے ہونگے اور لوگ انکی تعظیم____ اسی بیچ اسکی آنکھ لگی۔۔۔
اگلی صبح بھی رحمان دروازے پر آکر بیٹھ گیا اور سربزانو سوچتا رہا۔ لمحے بعد پولیس کے کچھ اہلکار اسے ڈھونڈتے ہوئے آئے اور اسے پکڑ کر لے گئے ۔ اپنا جرم دریافت کرنے پر اسے معلوم ہوا کہ کسی نے اسکی شکایت کی ہے کہ وہ صبح سے بیماری کے سبب سر پکڑے بیٹھا تھا ۔ اسی لئے احتیاط کے طور پر اسے چند دن سرکاری اسپتال میں گزارنے ہونگے۔ یہ سنتے ہی اسکے ہاتھ پاوں کانپنے لگے __اسی اثنا میں اسے ایک تنہا کمرے میں بند کیا گیا۔
اس کے اگلے ہی روز ایک ٹیم نے پوری گلی کے ساتھ اس جھونپڑی کی صفائ کی اور دوا کا بھی چھڑکاو کیا۔ آخر میں وہ لوگ جھونپڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے پر ایک بڑا پوسٹر چسپاں کرکے چلے گئے جس پر واضح حروف میں لکھا تھا ۔۔۔۔ *لاک ڈاون*
ہندوارہ کشمیر