غزل
محمد ارشد طالب لکھنوی
گر وہ میری جانب سے بدگماں نہیں ہوتا
فاصلہ بھی رشتوں کے درمیاں نہیں ہوتا
یہ سبق زمانے کو یاد پھر کرانا ہے
خیر کا عمل کوئی رائگاں نہیں ہوتا
دردو غم کی بارش میں ہم نہا گئے ہوتے
ماں کی شفقتوں کا گر سائباں نہیں ہوتا
ان کے نور کی پھیلی گر ضیا نہیں ہوتی
یہ جہاں قیامت تک ضو فشاں نہیں ہوتا
پوچھئے شبیں ان کی کس طرح گذرتی ہیں
پاس جن غریبوں کے آشیاں نہیں ہوتا
زندگی ہماری بھی کتنی پر سکوں ہوتی
خواہشوں کا گر دل میں کارواں نہیں ہوتا
جس طرح درندوں نے اک کلی کو مسلا ہے
وہ زبان سے اپنی بس بیاں نہیں ہوتا
صبر وضبط کا دامن جب سے ہم نے تھاما ہے
’’اب ہمارے چہرے سے غم عیاں نہیں ہوتا‘‘
منزلوں کو پانے کی جستجوکہاں ہوتی
حوصلہ ترا طالب گر جواں نہیں ہوتا