سر عظیم دار پر مگر ابھی بلند ہے :عالم نقوی کا مرتبہ و مقام

0
235

محمد مجاہد سید ۔

ہندو اساطیر میں ملتا ہے کہ مہارشی ددھیچ کے بیٹے پپلاد کو جب آپ ی ماں سے معلوم ہوا کہ ورتا سر راکشس کو ددھیچ کی ہڈیوں سے بنائے گئے وجر سے مار کر اندر نے سورگ پر قبضہ کیا تھا تو اسے بہت غصہ آیا ۔شنکر کی گھور تپسیا کر کے اس نے انہیں خوش کیا ۔جب شنکر نے اسے وردان دینے کو کہا تو پپلاد نے ان سے ان کی تیسری آنکھ کھولنے کی گزارش کی ۔شنکر نے کہا کہ نہ صرف دیوتا بلکہ کائنات کی ہر شے میری تیسری آنکھ کھلنے پر بھسم ہو جائے گی ۔جب پپلاد کائنات کو بھسم کروانے پر بضد رہا تو شنکر نے پپلاد کو اس درون میں اپنے جلال کا عکس دیکھنے کو کہا ۔پپلاد نے محسوس کیا کہ اس کا وجود جل کر راکھ ہوا جا رہا ہے۔اس نے شنکر سے جلال کو جمال میں بدلنے کی ونتی کی تو شنکر نے اسے نصیحت کی کہ مہارشی ددھیچ نے کائنات کو شیطانی عناصرِ سے بچانےکے لیے اپنی قربانی دی تھی ۔جب کہ تم انتقام کی آگ میں جل کر نہ صرف دیوتاؤں کو بلکہ پوری کائنات کو فنا کر دینا چاہتے ہو۔سمجھ رکھو کہ منتقم شخص خود اپنی ذات کو فنا کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔عالم نقوی اس رزم گاہ خیر و شر میں منتقم شخصیت نہ ہو کر ایثار کے پتلے ہیں ۔۔یہ اس وجہ سے کہ ان کے لیے مثالی شخصیت امام حسین علیہ السلام ہیں۔یزید نہیں۔۔۔۔عالم نقوی نے اپنی اولاد کو جناب اکبر و قاسم کے نمونے دکھائے ہیں جہاں راہ فنا راہ بقا ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔درج بالا اقتباس کی روشنی میری خامہ فرسائی نہیں میرا دلی احساس ہے ۔۔اسی روشنی میں میں نے عالم صاحب کی معرفت حاصل کی اور ان کے ضمیر کی تختی کے ابجد سے کافی حد تک آگاہی بھی ۔۔۔۔۔۔عالم نقوی کی صحافتی زندگی ہر لحظہ کوفہ و کربلا میں رہی ہے ۔لیکن وہ اس دوران جلال ربانی و جمال سبحانی کے پرتو نور یزدانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمیشہ قریب رہے ۔اس جلال و جمال کی جھلک ان کی تحریر کو زندگی سے لبریز رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔صحافت لمحاتی ادب ہے جو عجلت میں تخلیق کیا جاتاہے۔۔۔عالم نقوی کے ہاں جمیل مہدی کی رستا خیز کے باوجود ۔۔دوام قیام اور امید کی چمک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جدلیاتی مادیت خدا دشمنی انسانیت دشمنی حیاتیاتی نظام کی دشمن سرمایہ دار شیطانی تہذیب پر ان کی ضرب کلیمی ۔مؤقت نہیں ۔بلکہ سعی ہاجرہ و اسمعیل کے مماثل ہے ۔۔۔۔حضرات ابراہیم و ہاجرہ و اسمعیل قیام و دوام کے لیے طریق ذبح عظیم کی عظیم ترین علامت ہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔زم زم کے آب نقی میں دھلا عالم نقوی کا قلب مصفی دین حنیف کی زندگی بخش شعاؤں کو منعکس کر کے نار نمرود کو گلزار ابراہیم بنا کر کڑوی سچائیوں کو جہد مسلسل سے گوارا بنانے کا پیغام دیتا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ایک نظم عالم نقوی کی نذر
تغیرات اساس ہیں تمدنوں کے واسطے
تحیرات راہ میں ملیں گے تجھ کو دیدہ ور
پکارتے ہیں سنگ رہ بڑھائے جا قدم مگر
نہ رک کہیں ۔نہ دم ہی لے ۔کہ زندگی ہے بس
سفر
تمام روئے ارض اب تلک ہوا لہو لہو
تقدس شعاع شمس بھی ہوا ہے داغ داغ
سیاہیوں کے کارواں انہیں بھی ساتھ لے گئے
جو ظلمتوں کے حق میں کل کہے گئے تھے شب چراغ
دفینے وہ خیال کے جو جان سے عزیز تھے
تمدنوں کی جنگ میں وہ لٹ گئے ۔وہ مٹ گئے
کچل گئے ہیں خواب کچھ ۔سسک رہی ہے روح پھر
دراز قد جو تھے کبھی وہ نیم جسم ہو گئے
سر عظیم دار پر مگر ابھی بلند ہے
حقیقتوں کا تلخ زہر اب بھی قند قند ہے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here