9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
پروفیسر صغیر افراہیم
یک جہتی اور مفاہمت کی ایک بڑی مثال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ سیدوالا گُہر کے اِس ادارے کی تاریخ کے اوراق کو پلٹیے تو ہر صفحہ تہذیبی رشتوں کے مشترکہ احساس سے مزین ہے۔ مدرسۃ العلوم اور ایم۔اے۔او۔ کالج کا منصوبہ ہو یا علوم وفنون کے استحکام کامعاملہ، اِس کا بیج ۲۴؍مئی ۱۸۷۵ء کو بودیا گیا تھا۔ اِس کشتِ ویران کی بنجر زمین کو ہموار کرنے کا سلسلہ پانچ سال قبل ۲۴؍دسمبر ۱۸۷۰ء سے شروع ہوگیاتھا اور اِس پورے تحریکی عمل میں بغیر کسی تخصیص وتمیز کے ہر باشعور شخص شامل ہوتا گیا، نتیجتاً ۱۹۲۰ء میں بڑے تزک واحتشام کے ساتھ کالج نے یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی اور روزِ اول سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پیغام محبت ومروّت اور تصور انسانیت وشرافت فروغ پاتا گیا اور بحمدہٖ یہ ادارہ انسانی جبر و استحصال کے خلاف مورچہ قائم کرنے والا ملک کا ایک اہم تعلیمی اور تربیتی ادارہ بن گیا۔ کچی بارک میں مل بیٹھ کر دُکھ سُکھ بانٹتے ہوئے گفتگو کرنا، ملکی مفادات خواہ مادی ہوں یا اخلاقی ان پر مدلل مکالمہ کرنا اور مثبت رُجحانات کی تردیج واشاعت اِس دانش گاہ کی ترجیحات میں شامل ہیں اور اسے بڑے سلیقہ سے نئی نسل کو ورثے میں منتقل کیا گیاہے۔
یہ ادارہ زبان وادب کو فروغ دینے کا مرکز ہی نہیں مشرق ومغرب کے علوم کا حسین امتزاج بھی ہے نیز جدید تصورات اور صحت مند ہندی رسم ورواج کے مشترکہ رشتوں سے بھی ہم آمیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر علیگ برادری نے اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس کے تمام طلبہ،اساتذہ اور اُن کے نمائندوں کا جو ایجنڈا رہا ہے وہ سب کی فلاح وبہبود اور بہتری سے منسلک رہا ہے۔ ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ بہتر تعلیم وتربیت حاصل ہو اور روشن مستقبل اوربہتر سہولتوں سے آراستہ زندگی گزرے، یہی کمیاب شے ہر علیگ کو وطن دوستی اور قومی یکجہتی کی طرف مائل کرتی ہے، جس میں خودداری، اپنی شناخت اور جذبۂ اخوت ، جسم اور روح کی طرح تحلیل ہوگئے ہیں۔ دراصل یہی جذبۂ انسانیت، قومیت اور حب الوطنی کی بنیاد ہے جو افتراق میں اتحاد کو جنم دیتاہے۔ مختلف رنگ ونسل، ذات ،برادری کو ایک مضبوط رشتہ میں باندھتا ہے۔ اِسی علیگ تصوّرِ محبت نے بغیر کسی تخصیص وتمیز کے ہر بھید بھاؤ کو کم کیا ہے۔ باہمی یگانگت اور سبقِ انسانیت کا صحت مند تصور پیدا کیا ہے۔ مثال کے طور پر روز اول سے سرسید کے اِس ادارے میں پروان چڑھنے والے افراد خواہ وہ کسی درجے، طبقے کے ہوں، انھیں ان کے مذہب ومسلک سے نہیں ’’علیگ ہیں ہم‘‘ کے مضبوط رشتہ سے پہچانا گیا ہے۔ یہ رشتہ، اخوت ویکجہتی کو جنم دیتا ہے۔ سرسید ہوں یا رفقائے سرسید، سلطان جہاں بیگم ہوں یا رشید جہاں ، مولانا ظفر علی خاں ہوں یا مولانا حسرت موہانی یا علی برادران ہوں اِن سب نے اپنی نگارشات اور اپنے خطاب میں زور دیا کہ عقائد، زبان وادب اور تہذیب وتمدن کے تکثیری معاشرے میں ممکن حد تک محبت ویگانگت کا رنگ پیدا کیا جائے اور عوام میں یہ احساس شدت کے ساتھ اُجاگر کیا جائے کہ ہم ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی ہونا کسی خاص ذات برادری کانام نہیں ہے اور نہ اس ملک پر کسی خاص فرقہ یا تنظیم کا مخصوص حق ہے، بلکہ اس کا استحقاق سب کے لیے یکساں طور پر ہے ۔ تصور قومیت کا یہ اصول بیداری جمہور کی اساس ہے۔ اس نکتے کو باشندگانِ ہند کو ہرپَل ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اُس سے کوئی بھی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے ملکی مفاد اور انسانی وقار مجروح ہو۔ مادرِ درس گاہ کی تقریباً سو سالہ تاریخ نہ صرف اپنے اِس عہد وپیماں پر کاربند رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کو فروغ دینے میں کوشاں نظر آتی ہے، ہاں اِدھر پچھلے کچھ برسوں سے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغین کو پریشان کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور قرب وجوار کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سمجھ دار افراد بھی چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں، جس سے زہریلی فضا پر قابو پانے کے بجائے اُس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورتِ حال جتنی اے۔ایم۔یو۔ کے لیے تشویشناک ہے اُتنی ہی ملک وملت کے لیے بھی سمِ قاتل ہے۔
سرسید اور رفقائے سرسید نے محسوس کرلیا تھا کہ نوآبادیاتی نظام کے ذریعہ ہماری آزادی کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے اور مشترکہ تہذیب کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر نفرت وتعصب کو ہوادی جارہی ہے اور بنیادی حقوق کو سلب کیاجا رہا ہے۔ ان بزرگوں نے اس مرکز ومحور پر خصوصی توجہ دی، یکسوئی اور دل جمعی سے کام کیا، بعد میں اِسی احساس حریت نے ملک کو آزادی سے ہمکنار کیا۔ آزادئ ہند کے بعد ہم نے ہر سمت ترقی کی ہے مگر نہ جانے کیوں مفاہمت اور درگزر کی پالیسی سے اجتناب برتا گیا ہے۔ اتحاد و اتفاق کی جانب سے چشم پوشی اختیار کی گئی ہے۔ اِس عظیم ملک میں تعصب اور تنگ نظری کو کیوں کر فروغ مل رہا ہے۔ معترضین کی نکتہ چینیوں میں شدت کیوں بڑھتی جارہی ہے۔ پُرامن ماحول کو پراگندہ کیوں بنایا جارہا ہے۔ کم سن ذہنوں میں تنفر وانتشار کازہر کیوں گھولاجارہا ہے۔ اِس طرح کے ان گنت سوالات حیرت واستعجاب اور رنج ومحن میں مبتلا کرتے ہیں اور غوروفکر کی جانب آمادہ کرتے ہیں۔ ان پُر خطر حالات میں شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ سرسید کی لبرل، سیکولر اور سائنسی طرزِ فکر کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور اسے مزید فروغ دینے کے لیے وابستگانِ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پھر سے مثبت اور پائیدار لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا، اور اِن مضطرب اور پریشان کن حالات میں صبروتحمل اور دوراندیشی کاعملی ثبوت بھی دینا ہوگا۔ وسیع تناظر میں دیکھیں تو بلاشبہ ہم ترقی کی منزلیں طے کررہے ہیں مگر ان روشن راہوں پر بدگمانی، تعصب اور نفرت کے جو سیاہ دھبّے تیزی سے منڈلارہے ہیں اُن پر قابو پالیاجائے تو نئی نسل بے خوف وخطر ترقی کی منزلوں پر گامزن ہوسکے گی۔
دانش ورانِ علی گڑھ نے ہمیشہ عقل واستدلال کے ساتھ محبت ومروّت اور درگزر سے کام لیا ہے۔ اِس کے نونہال کبھی بھی فتنہ پروری میں ملوث نہیں ہوئے ہیں کیوں کہ یہ بانیِ درس گاہ کا شیوہ نہیں رہا ہے۔ لیکن دُور قریب بیٹھے ہوئے ہم وطنوں میں سے چند شرپسند ذہن ایسے ہی ہیں جو کٹ حجتی اور غیر مہذب گفتگو سے ماحول کو گرمانے اور نئی نسل کو اُکسانے پر کمربستہ رہتے ہیں اور اب کبھی کبھی وہ انگشت نمائی کرتے ہوئے تمام حدیں پار کررہے ہیں،جو ہماری ملکی روایات کے سراسر خلاف ہے۔
اِس اشتعال زدہ ماحول میں علیگ برادران کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ ملک کے بہی خواہوں کی نظر، ہمارے ہر فعل وعمل پر رہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اور بھی عزم و حوصلہ اورہوش مندی سے کام لینا ہوگا۔ اپنوں اور غیروں، دونوں کے روبرو وہ مثبت اور موثر مثال پیش کرنا ہوگی جو علیگ تہذیب کے نام سے مشہور ومعروف ہے۔ محبت واخوت کا یہ کارگر نسخہ دلوں کو جوڑنے اور مساوات کو فروغ دینے میں معاون رہا ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں یہ مشکل کام ہے مگر اسی میں ہم سب کی کامیابی اور کامرانی پوشیدہ ہے۔
آج جب کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اشتعال انگیز بیانات دیے جارہے ہیں۔ تاریخی اور تہذیبی اثاثوں کو تنازعوں میں منتقل کیاجارہا ہے۔ رہن سہن، رسم ورواج اور تیج تہوار ہی نہیں چرند وپرند بلکہ تصاویر کو بھی شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، اس سچویشن میں صاف ستھرے ذہنوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہمیشہ منفی اثرات کو رد کیا ہے اور مثبت زاویوں کو تقویت پہنچائی ہے۔ اس نے ہمیشہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے، اور ہر مقابلہ میں کامیاب رہی ہے۔
ممکن ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت ہمارے پاس وسائل کم ہوں مگر نیت صاف اور حوصلے بلند ہیں۔ اس لیے ڈھیروں رُکاوٹوں کے باوجود ہم ترقی اور فلاح وبہبود کی راہ پر گامزن ہیں۔ لہٰذا علیگ برادری کو ہی کوئی مبسوط اور موثر لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔
ملک کے امن وامان کا منظر نامہ بظاہر مثبت ہے لیکن بباطن جو اضطرابی کیفیت ذہنی تناؤ کا سبب بن رہی ہے اُس کا سدباب ضروری ہے۔ مٹھی بھر شرپسند عناصر کی بدولت ملک میں پروان چڑھنے والے تعصب، تنگ نظری اور فرقہ پرستی کے زہریلے نشتروں نے حسنِ اخلاق، حسن سلوک، خدمت خلق، پاسداری اور رواداری جیسی بیش قیمت ہندی اقدار کو کم قیمت کردیا ہے۔ جب کہ ہندوستان کی بنیادی پہچان یہی ہے۔ ان شاء اللہ علی گڑھ برادری کے توسط سے ہمارے ہم وطن بھائی بہن باہمی افہام وتفہیم کو بحال کرنے میں ہرممکن مدد کریں گے اور ہندوستان کو جنت نشاں کے مثل بنائیں گے۔ اکثریت جانتی ہے کہ محبت اور اخوت کی بنیاد باہمی اعتماد پر ہوتی ہے اور جب اس میں شگاف ہو تو خلوص ضائع ہونے لگتا ہے۔ خدا کرے ایسا کبھی نہیں ہو۔ سید والا گُہر کا یہی وہ ادارہ ہے جو انتشار و افتراق کی نشان دہی کرتا رہا ہے اور ہمیں ہماری ذمہ داریوں کا بھی احساس دلاتا رہا ہے اور آنے والے خطرات سے نبرد آزما ہونے کی تدابیر بھی بتاتا رہا ہے۔ بلاشبہ بزرگوں کی دلی دُعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ سرسید کے خوابوں کا یہ مسکن اپنے نونہالوں کی اس طرح تربیت کرتا رہا ہے کہ وہ ہر آن دوسروں کے کام آسکیں اور ہندوستان کی ترقی میں ہر لحظہ کمربستہ رہیں ۔ علی گڑھ کے ہی ایک فرزند اقبال سہیل نے ۱۹۳۶ء میں اپنی نظم ’’نوائے وطن‘‘ میں کہا تھا:
زندگی کا راز یہ ہے، اے عزیزانِ وطن!
جان جائے پر نہ جائے، حُرمتِ شانِ وطن
علم ودانش میں یگانہ ہے ابھی اپنا دیار
رشکِ فارابیؔ ہے ہر طفلِ دبستانِ وطن
صغیر افراہیم
سابق صدر شعبہ اردو،
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ
qq