9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
پرویز شکوہ
ممتاز و معروف شاعر عبد الحسین صاحب کی شخصیت مختلف صفات کی حامل ہے۔ وہ شاعر بھی ہیں ،صحافی بھی،نقاد بھی اور مفکر بھی۔ ان کی شاعری میں نئی زندگی کی مادی اور روحانی کشمکش ملتی ہے۔ اعظمی ؔان کا تخلص ہے۔ان کا ادبی نام حسین اعظمیؔ ہے۔ ویسے گھر میں اور رشتہ داروں میں منیر عالم پکارے جاتے تھے۔ حسین اعظمی ؔزندگی بھر صحافی رہے۔ اس لئے وہ ایک باخبر آدمی تھے۔ یہ باخبری ان کی شاعری میں بھی جگہ جگہ ملتی ہے۔نمونۂ کلام ہدیہ قارئین ہے جن اشعار نے مجھے بے حد متاثر کیاہے:-
مصلحت کہتی ہے قاتل کو مسیحا لکھو
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا قصیدہ لکھو
دل بضد ہے کہ صداقت کا نہ دامن چھوڑو
رات کو رات ،اندھیرے کواندھیرا لکھو
سوچتا ہوں کہ قلم توڑ دوں کچھ بھی نہ لکھوں
اور قلم کا ہے تقاضے پہ تقاضا لکھو
جھوٹ سچ لکھنے سے بہتر ہے یہی اعظمیؔ اب
مرثیہ اہلِ قلم اور قلم کا لکھو
حسین اعظمیؔ گولہ گنج ،لکھنؤمیں ستمبر1924ء میں پیدا ہوئے انہوں نے ہندوستان کے علمی اور تہذیبی مرکز لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔
یہی وجہ ہے کہ حسین اعظمیؔ کی شاعری پر جوش ؔکا گہرا اثر ملتاہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ فیض سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ کیا جا سکتاہے۔ ؎
اب فیضؔ ایسا شاعرِ بیدار کون ہے
صحرا میں تھا وہ ایک مہکتا ہوا گلاب
حسین اعظمیؔ کی شاعری محض جذباتی شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و شعور کی شاعری ہے جو قارئین کو دعوت فکر دیتی ہے۔ ان کی شاعری انسانیت کا پیغام دیتی ہے ؎
انسان دوستی نہ ہو جس دل میں اعظمیؔ
محبوبِ کبریا کے وہ درکا گدا نہیں
بقول پروفیسر سحر انصاری :-
’’حسین اعظمیؔ معروف شاعر اور کہنہ مشق صحافی کی حیثیت سے ایک ایسے جہاد میں شامل ہیں جس کا مقصد ظلمت کو شکست دینا اور روشنی کو انسان کا مقصد بناناہے وہ نا مساعد حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتے۔حسین اعظمیؔ کا نام جواں ہے۔‘‘
ان کا ایک اور شعر ہدیہ قارئین ہے۔
تجھ کو بٹھا کے آنکھوں میں آنکھوں کو موند لوں
پھر میں کسی کو دیکھ سکوں‘نہ تجھے کوئی
حسین اعظمی ؔکی والدہ کا نام سیدہ مختار بیگم تھا جو مقبرۂ جناب عالیہ ،گولہ گنج لکھنؤ کی رہنے والی تھیں۔ و ہ ایک نیک دل مذہبی اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ اس مضمون میں اس بات کا ذکر بہت ضروری نہیں تاہم ازراہ تذکرہ اس کی طرف اشارہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ’سیدہ مختار بیگم راقم کی دادی محترمہ سیدہ شاندار بیگم مرحومہ شان ؔکی بڑی بہن تھیں۔(سیدہ شاندار بیگم نے مذہبی شاعری کو اپنی نجات کا ذریعہ بنایا تھا،ان کے نوحوں کا مجموعہ’’ بیاض شان‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔لیکن یہ مجموعہ ان کے ان کے سب نوحوں کا احاطہ نہیں کرتااس میں چند نوحے ہی شامل اشاعت ہیں جبکہ سیدہ شاندار بیگم نے پانچ سو سے زائد نوحے سپرد قلم کیے تھے۔)
نوحوں کا یہ مجموعہ حسین اعظمیؔ نے ہی مرتب کیا تھا۔ حسین اعظمیؔ کے والد کا نام مرزا محمد عابد تھا جو عربی وفارسی کے منتہی تھے وہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ سے صدر الافاضل کی سند لینے کے بعد یہیں مدرس مقرر ہوئے تھے جن کا انتقال29جولائی 1929ء کو 38سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔اس وقت حسین اعظمی ؔ کی عمر6سال تھی۔
لکھنؤ سے پاکستان ہجر ت کے وقت حسین اعظیؔ کی عمر23سال تھی۔ ویسے تو وہ 18سال کی عمر ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔
حسین اعظمیؔ نے اپنا ادبی سفر تن تنہا طے کیا۔ انہوں نے مطالعے اور ذوق کو ہی اپنا رہنما بنایا۔ لکھنؤ سے کراچی ہجرت کے وقت ایک قلم ہی ان کے ساتھ تھا۔
حسین اعظمیؔ نے بی ۔اے، دبیر کامل(فارسی) عالم(عربی)کی سندیں لکھنؤ یونیورسٹی سے امتیازی طور پر حاصل کی تھیں۔ انہوں نے مولوی کی سند الہ آباد یونیورسٹی سے لی۔
انہوں نے روزنامہ نوائے وقت لاہور،روزنامہ امروز لاہورو کراچی، روزنامہ جنگ کراچی،روزنامہ انجام کراچی اور روزنامہ امن کراچی میں ہفت روزہ لیل و نہار کراچی میں مختلف اوقات میں بطور سب ایڈیٹر ،شفٹ انچارج ، فیچر رائٹر ، اسسٹنٹ ایڈیٹر ، میگزین ایڈیٹر و غیرہ کی خدمات انجام دیں۔
صحافت ، شاعری،تصنیف و تالیف ان کی زندگی کے مشاغل بنے رہے۔ ان کی تصانیف میں متاعِ لب (غزلوں اور نظموں کا مجموعہ)، کشور قلم(مسدس)، مشعل حق(مسدس) حرفِ حق(مسدس ) اور دریچے(مصنف کی یادداشتیں) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حسین اعظمی کی نظم ’’کشورِ سخن لکھنؤ‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:-
یہ نظم1982ء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق طلباء کی انجمن(کراچی)کے مشاعرے میں پڑھی گئی تھی۔ جو ممتاز دانشور اور مشرقی پاکستان کے سابق گورنر سید ہاشم رضا کی زیر صدارت آرٹ کونسل میں منعقد ہوا تھا۔
کشورِسُخن لکھنؤ
وہ کشورِ حَسیں جسے کہتے ہیں لکھنؤ
وہ جنّتِ نگاہ مری جانِ آرزو
اِک نوعروس پھولوںسے جیسے سَجی ہوئی
نَس نَس میں جس کے عطر کی خوشبو بَسی ہوئی
کہتی ہے اس کی زُلفوں کو دُنیا اَودھ کی شام
سائے میں جن کے صبحِ بنارس کا اہتمام
کرتے ہیں مہر و ماہ طَواف اُس کاصبح وشام
یہ آسماں بھی کرتاہے جُھک کر اُسے سَلام
اِس کشورِ حَسیں کو نہ بُھولوں گا عمر بھر
مجھ پر رہی ہے لُطف و کرم کی سَدا نظر
اُس نے مُجھے بتائے ہیں اسرار زندگی
اُس نے مُجھے سکھائے ہیں آداب بندگی
تھی اُس کی بات بات میں اِک شانِ دلبری
سیکھی ہے میں نے اُس سے رہ ورسمِ عاشقی
اس نے مجھے شعورِ محبّت عطا کیا
فُرقت نے اُس کی مجھ کو غزل خَواں بنا دیا
اُس کی زباں کا لطف ابھی تک دَہن میں ہے
اُس کے بیاں کی چاشنی میرے سخن میں ہے
یہ طنطنہ جو آج مرِی فکر و فن میں ہے
یہ بانکپن عزیزو جو میرے سخن میں ہے
بے خوف حق نوائی کا مجھ میں یہ حوصلہ
سب کچھ ُاسی کا فیض ہے میری بساط کیا
مدّت ہوئی ہے اُس سے کنارہ کئے ہوئے
آغوش اُس کی واہے ابھی تک مرِے لیے
حسین اعظمیؔ سے راقم کی آخری ملاقات کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر27دسمبر1991میں ہوئی تھی۔22مارچ 1997ء کو جب ان کے انتقال کی خبر سنی تو یکایک ان ہی کا مندرجہ ذیل شعر ذہن میں گھومنے لگا۔ ہم ان کے اس شعر پر مضمون ختم کرتے ہیں۔
اب ہمارا ذکر ہے کوچہ بہ کوچہ ،اعظمی!
اٹھ گئے محفل سے ہم،باتیں ہماری رہ گئیں
رابطہ:7505299219