تبصرہ: پروفیسر شاہ عبدالسلام: شخصیت اور علمی نقوش

0
365
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|
ڈاکٹر مجاہدالاسلام
کتاب کا نام:پروفیسر شاہ عبدالسلام: شخصیت اور علمی نقوش
مرتب:ڈاکٹر شاہ محمد فائز
قیمت:290 روپے
ملنے کا پتہ:ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی
فی الوقت میرے پیش نظر ڈاکٹر شاہ محمد فائز کی مرتب کردہ کتاب ’’پروفیسرشاہ عبد السلام شخصیت اور علمی نقوش‘‘ ہے۔ مجھے بڑی خوشی
ہے کہ پروفیسرشاہ عبد السلام مرحوم کو شاہ محمد فائز کی شکل میں ایسا لائق و فائق سپوت ملا جن کو شاہ صاحب کے علمی ،ادبی اور تحقیقی کارناموں کو متذکرہ کتاب کی شکل میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ پروفیسرشاہ عبد السلام مرحوم کی شخصیت یا ان کا کارنامہ کچھ ایسا نہیں ہے جس پر اس ناچیز کو خامہ فرسائی کی ضرورت ہو۔یہاں پر ان کے بارے میںمولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی کا یہ اقتباس درج کر دینا کافی ہے:
’’پروفیسر شاہ عبدالسلام فاروقی صاحب کی علمی زندگی اس قدر وسیع اور پھیلی ہوئی ہے کہ ان کو دیکھ کر تاریخ کے اولوالعزم علماء و مصنفین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور اس یقین میں پختگی پیدا ہوجاتی ہے کہ عزم راسخ کے سامنے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں اور سمندر کا پانی خشک ہو سکتا ہے‘‘۔(کتاب ھذٰا صفحہ54)
ہم پروفیسر شاہ عبد السلام مرحوم کے علمی ادبی کارناموں کو اس طرح سے تقسیم کر سکتے ہیں۔
شاہ صاحب نے بہ حیثیت مصنف دو کتابیں تصنیف کی ہیں، اس میں ایک’’ دبستان آتش‘‘ ہے جو اصل میں ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ۔دوسری کتاب ’’اسلام کا اتہاس‘‘ ہے جو ہندی میں ہے۔اسی طرح ایک کتاب ’’کلاسیکل اردو پوئٹری نقش دل پذیر‘‘ ہے جس کی تصنیف انہوں نے پروفیسر عبد الرحمٰن بارکر کے ساتھ مل کر کی ہے۔9کتا بیں ایسی ہیںجن میں ان کی حیثیت مترجم ، مرتب ومدون کی ہے۔ ایک میں وہ شریک مترجم و مرتب ہیں، اسی طرح دو کتابوںکے وہ صرف مرتب و مدون ہیں، 6 کتابیں ایسی ہیں جس کے وہ صرف مر تب ہیں ۔
اس فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ شاہ صاحب کا خاص میدان تحقیق و تدوین یا پھرترجمہ یا ترتیب ہے۔
تحقیق و تدوین کے بارے میں احسن فاروقی کا خیال ہے :
’’تحقیق ایک قسم کی منشی گیری ہے ۔اس کے لئے وہ خصوصیات کافی ہیں جو کسی معمولی ذہن کے انسان میں ہوں۔اس میں جدت طبع اور قوت اختراع کی ضرورت نہیں ،محض ایک کام سے لگ جانا ہے اور ٹکے بندھے طریقے پر ایک لکیر پر چلتے رہنا ہے پھر اس میں جس قسم کی محنت درکار ہے ۔ اس کواعلا ذہن اور اعلا تخیل رکھنے والا انسان کبھی بھی قبول نہ کرے گا۔تحقیق کے لئے مغز سگاں کی ضرورت ہے جبکہ تنقید کے لئے مغز شہاں درکار ہے (فن تنقید اور اردو تنقید نگاری:نور الحسن نقوی ۔ایجوکیشنل بک ہائوس ،علی گڑھ ۔سن 2013۔ص 129)
ظاہر ہے کہ احسن فاروقی کے اس خیال سے کلی طور پر اتفا ق کی گنجائش نہیں ہے۔
ہم سبھی جانتے ہیں کتابیں علم و حکمت خزانہ ہوتی ہیں اور جہاں وہ ا نسانی اذہان کو روشن و تابندہ کرتی ہیں وہیں وہ اپنے وقت کی تہذیب و ثقافت کی نمائندہ بھی ہوتی ہیں، جس طرح نئی کتابوں کی تصنیف و تالیف کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتاہے اسی طرح پرانی کتابوں کی تدوین و تہذیب اور آنے والی نسلوں تک من وعن اس کی منتقلی بھی ایک اہم فریضہ ہے۔ پرانی کتابوں کی تدوین وتہذیب کی اہمیت ان ملکوں کے لئے اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں جہاں پر ایک تہذیب دوسری تہذیب کا گلا گھونٹ کر اپنے رنگ کوجما نے کی کوشش کررہی ہو۔
خود سر سید احمد خان جن کو غدر کے بعد مسلم نشأۃ ثانیہ کا ہیرو ماناجا تا ہے ان کی حیات و کارنامہ سے کون نہیں واقف ہوگا؟۔ان کے علمی کارناموں میںجو چیزیں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں وہ ان کی مرتب کردہ کتابیں ہی ہیں ،اور وہ پھرچاہے’ جام جم‘ ہویا آثار الصنادید ، سلسلتہ الملوک ہو یا تصحیح آئین اکبری ۔تصحیح تاریخ فیروز شاہی ہو یاتصحیح تزک جہانگیری۔
مرتب نے زیر نظرکتا ب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔پہلے حصے میں ’شخصیت اور سوانح ‘کے تحت22 مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ جس میںمولاناسعید الرحمٰن اعظمی ندوی کا مضمون:پروفیسر شاہ عبد السلام بحری آبادی :کچھ باتیں۔ پروفیسر سالم قدوائی کا مضمون : پروفیسر شاہ عبد السلام:علم دوست انسان۔ آزر می دخت کا مضمون :نام نیک رفتگاں ضائع مکن ڈاکٹر سید احسن الظفر کا مضمون :پروفیسر شاہ عبد السلام کچھ یادیں اور کچھ تصویریں۔ پروفیسراقتدار محمد خان کا مضمون :سفیر علم واد ب پروفیسر شاہ عبد السلام ڈاکٹر صہیب عالم کا مضمون :پروفیسر شاہ عبد السلام :ایک ہمہ جہت شخصیت،خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر سید احسن الظفر کا مضمو ن اس لئے اہم ہے کہ اس میں انہوں نے شاہ صاحب کے علمی،ادبی و سماجی کار ناموں پروشنی ڈالی ہے اس میں خاص طور سے امیر الدولہ پبلک لائبریری سے وابستگی کے دوران انہوں نے جو کارنامے انجام دیے جن میں قلمی نسخوں کی اشاعت وغیرہ شامل ہے۔ ان کا خاص طور سے ذکر کیاہے۔ اسی طرح پروفیسر سالم قدوائی کا مضمون اس لئے خاصے کی چیز ہے کہ اس میں انہوں نے شاہ صاحب کے علمی و تحقیقی کارناموں پر روشنی ڈالی ہے ،اسی کے ساتھ اس مضمون میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شاہ صاحب کو انتظامی امور سے بھی بڑی دلچسپی تھی اس سلسلے انہوں نے ان کی کئی ذمہ داریوں کا ذکر بھی کیا ہے۔پروفیسر اقتدارمحمد خا ن نے اپنے مضمون میں شاہ صاحب کے امریکہ،کناڈا،سعودی عرب ،برطانیہ و فرانس کے سفروں کا ذکر کیا ہے جو علمی اعتبار سے کافی اہم اور نصیحت آمیز ہے اسی طرح انہوں نے اپنے اس متذکرہ مضمون میںرضا لائبریری میں’افسر بہ کار خاص‘ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے شاہ صاحب نے جومشہور دانشوروں اور ادیبوں کے لکچرز وسیمینار وغیرہ کا اہتمام کیا تھا اس کا بھی ذکر کیا ہے۔
دوسرا باب ’علمی نقوش‘ کے تحت ہے اس باب میں11مضامین شامل ہیں۔ شمس الرحمٰنفاروقی کامضمون :زہر عشق یا Poison of love ۔ڈاکٹر تابش مہدی کا مضمون :شاہ عبد السلام فاروقی بحری آبادی ۔ پروفیسر مشیر حسین صدیقی کا مضمون :پروفیسر شاہ عبد السلام اپنی تحریروں کے آئینے میں۔ ڈاکٹر عبدالقدوس۔انچارج مانو لکھنئو کیمپس کا مضمون :تحفتہ الاحباب فی البیان الانساب : ایک مطالعہ۔ ڈاکٹر محمد اکرم کا مضمون’مکتوبات شاہ ولی اللہ دہلوی۔ڈاکٹر عمیر منظر کا مضمون۔دبستان آتش: ایک مطالعہ۔ ڈاکٹر سرفراز احمد خان کا مضمون: داکٹر شاہ عبد السلام کے کچھ فارسی تراجم ۔۔۔۔۔ایک مطالعہ۔ بڑے ہی اہم ہیں ۔
ڈاکٹرعبدالقدوس نے اپنے متذکرہ مضمون میں بتا یا ہے کہ اصل میں یہ کتاب خانوادۂ فرنگی محل کی علمی،ادبی و سیاسی خدمات کی ایک مفصل و مبسوط تاریخ ہے جو فارسی زبان میں تھی ،شاہ صاحب کارنامہ یہ کہ انہوں نے پہلی مرتبہ اس کا اردو میںترجمہ کرکے اردو دنیا کو اس سے متعارف کرایا ۔
ڈاکٹر محمد اکرم کا یہ مضمون اس لئے اہم ہے کہ اس میں موصوف نے پروفیسر شاہ عبدالسلام صاحب کی دریافت وتحقیق کی کھل کر داد دی ہے۔ متذکرہ کتاب شاہ صاحب کے آبائی ذخیرہ کتب کا ایک نادر مخطوطہ ہے ، جو دوچار صفحات کے علاوہ پورے کاپورا عربی زبان میں ہے۔ یہ مجموعہ شاہ ولی اللہ دہلوی،ان کے فرزندوں، دوستوں،شاگردوں کے خطوط پر مشتمل ہے۔
داکٹر عمیر منظر نے اپنے مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ شاہ صاحب وہ پہلے محقق ہیں جنہوں نے اپنی اس متذکرہ کتاب میںآتش کے کئی گم نام شاگردوں کی خدمات کا ذکر کیا ہے،اسی طرح شاہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں اشعار کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ آتش و شاگردان آتش کی شاعری دبستان دہلی و دبستان لکھنئو کی شاعری کا بہترین امتزاج ہے۔
اسی طرح اس باب میں ڈاکٹر سرفراز احمد خان کا مضمون بھی بڑا اہم ہے۔پروفیسر شاہ عبدالسلام صاحب مرحوم نے با ذوق قارئین کے لئے سمیر چند کی فارسی بالمیکی رامائن کا جوہندی میں ترجمہ پیش کیا ہے اس پر بڑے ہی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا کہ شاہ صاحب کا یہ علمی وادبی کارنامہ بڑا ہی پروقیع و پر مغز ہے ۔
باب سوم میں’ منتخب تحریریں‘ کے تحت خود شاہ صاحب کی تین تحریریں شامل ہیںجس میں کچھ نظمیں ہیں اور کچھ نثر۔
اس کتاب کا آخری حصہ باب چہارم ’تصویروں کی زبانی‘ ہے۔ اس حصے میں کئی نامور ہستیوں کی تصاویر شامل کی گئی ہیں جن میں خود شاہ صاحب بھی جلوہ افروزہیں۔
میں پروفیسر آزر می دخت کے ان جموں پر اپنی بات ختم کررہا ہوں:
’’ہر ملک،قوم اور تہذیب کے لئے اس کی تاریخ کا حفظ اور نگہ داری ضروری ہے ۔جو قوم جتنی زیادہ بیدار ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ اس کو اپنی اس مخصوص وراثت کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے وہ اس کو محفوظ رکھنے کی تا حد امکان کوشش کرتی ہے ۔میرا عقیدہ ہے کہ اپنی قدیم تاریخ کے ماخذ و منابع کو زندہ رکھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے ۔شاہ صاحب کی بصیرت نے ان کو اس اہم فرض کو ادا کرنے طرف راغب کیا ۔ان کے متعدد تحقیقی و تدوینی کام تاریخ سے متعلق ہیں‘‘ ۔(کتاب ھذا۔ ص89 )مجھ امید ہی نہیں بلکہ یقین واثق ہے کہ ’شاہ‘ شناسی میں ڈاکٹر فائز کی اس کتاب کو خشت اول کی حیثیت حاصل ہوگی۔
اسسٹنٹ پروفیسر(اردو)مانو لکھنؤکیمپس ،لکھنؤ(انڈیا)
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here