بیقرار دل

0
194

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

رمانہ تبسم

زندگی میں لوگ ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں لیکن زندگی کے سفر میں کچھ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو ہمیشہ کے لئے زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ ان کی مسحور کن شخصیت دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے ۔ ایسا ہی ایک نام میری زندگی میں ہوا کے جھونکے کی طرح آیا ۔۔۔۔۔اور ایک آواز۔ ۔ایک نغمہ۔۔ ۔ایک گیت بن کر وہ میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ ۔ اور میری زندگی کو قوس قزاح کے رنگ سے بھر دیا ۔۔ ۔ اس کے قدموں کی آہٹ آج بھی محسوس کرتی ہوں۔ آج بھی اس کی یاد ایک سائے کی طرح میرے دل کو چھو کو نکل جاتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی محبت کا نقش اب میرے دل سے مٹ جائے ۔ ۔ لیکن ۔۔ میں اپنی اس کوشش میں ناکامیاب آج تک ہوں۔ آج بھی جس قدر اسے بھولنے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔ اس قدر اس کی یاد میرے دل میں چٹکیاں لیتی ہیں۔ ۔۔اور ۔۔آج پھر اس کی کمی کا احساس مجھے شدت سے ہو رہا تھا۔۔۔ آج ۔۔ میرا دل پھر اس کے لئے بے قرار ہو رہا تھا۔ اور میرے ذہن میں ایک فلم سی چل رہی تھی۔
آج بھی مجھے یاد ہے ایرپورٹ سے گھر آتے وقت میری کار راستہ میں خراب ہو گئی تھی۔ میرے انکار کرنے کے باوجود اس نے مجھے لفٹ دی تھی ۔ اس روز جلدی میں اس کا نام بھی نہیں پوچھ سکی اور نہ اس کا شکریہ ادا کر کسی ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ اس ایک ملاقات نے میری زندگی بدل دی تھی۔
اس کے بعد ہماری دوسری ملاقات بھی ایرپورٹ پر ہوئی ۔ میری نگاہوں نے اسے ایک ہی نظر میں پہچان لیا۔پنک ٹی شرٹ اور بلو جنس آنکھوں پر سن گلاس لگائے وہ موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ بکھرے بکھرے بال اس کی پیشانی کا بوسہ لے رہے تھے۔ اس وقت میری نگاہیںاس کے دلنشی سراپا پر جا کر جم گئی اور جیسے ہی اس کی نظریںمجھ پر پڑی ایک خوبصورت ہنسی اس کے لبوں پر تھڑک اٹھی۔شاید وہ بھی مجھے دیکھ کر پہچان گیا تھا۔
’’آپ۔۔۔۔ ۔! ‘‘ اس نے زیر لب کہا۔
’’جی میں۔۔۔۔۔! اسے دیکھ کر میرے لبوں پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’آپ وہی ہیں نہ۔۔۔۔۔‘‘اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں ۔۔۔۔۔ میں وہی ہوں۔جس کو آپ نے اس روز لفٹ دی تھی۔۔۔۔۔ لیکن آج میں آپ سے لفٹ نہیں لوں گی۔میں نے زیر لب کہا تو وہ مسکرا پڑا۔
’’لگتا ہے۔۔۔۔۔ آج ہم دونوں کی منزل ایک ہے۔ ‘‘
’’شاید۔۔۔۔۔!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
لیکن آپ کی جانکاری کے لئے بتا دوں کہ موسم خراب ہونے کی وجہ کر فلیٹ دو گھنٹہ لیٹ ہے۔ ‘‘
’’کیا ۔۔۔۔ ۔ ؟ دو گھنٹہ لیٹ۔۔۔۔ ۔! ‘‘
’’جی ہاں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو آئیے کافی پیتے ہیں۔‘‘ اور ہم دونوں کے قدم کافی ہائوس کی طرف بڑھ گئے۔
’’میرا نام میزاب ہے۔اسٹریلیا کے موناس یونیورسیٹی سے پی۔ایچ۔ڈی مکمل کیا ہے اور فیلو شپ کے لئے جا رہا ہوں۔‘‘اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔
’’آپ۔۔۔۔۔!‘‘
’’ملائکہ پال۔۔۔۔۔!‘‘
’’ملائکہ ۔ ۔ پال۔۔ ۔ ‘‘ اس نے نام دہراتے ہوئے کہا۔
’’یس۔۔ ۔ ملائکہ پال ۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
آپ کا نام ہندو اور مسلم دونوں سے ملتا ہے۔ آپ کے نام سے لوگوں کو کافی دھوکہ ہوتا ہوگا۔‘‘
’’جی ہاں ۔۔۔۔۔ ملائکہ سے سب لوگ سمجھتے ہیں کہ میں مسلم ہوں ۔۔ لیکن ملائکہ پال سن کر سب لوگ چونک جاتے ہیں اور دونوں کے ہو نٹوں پر ایک ہلکی سی ہسنی پھیل گئی ۔
’’میں نے بھی اسی سال موناش یونیورسیٹی میں کمپیوٹر سائنس میں ایڈمیشن لیا ہے۔‘‘
’’ اچھا۔۔۔۔۔ تب تو ہم دونوں کی ملاقات روز ہوگی۔ اس کے بعد آپ کا کیا ارادہ ہے اسٹریلیا میں ہی سٹل ہونا ہے یا اپنے ملک لوٹنا ہے۔ ‘‘ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ مجھے اپنے دیس لوٹنا ہے۔۔۔۔۔ اور اپنے ملک کے لئے کام کرنا ہے۔‘‘
’’ آپ۔۔۔۔۔!‘‘
’’ میں بھی آپ ہی کی راہ پر چلوں گا ۔‘‘اس نے زیر لب کہا۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ ہوائی جہاز کے اڑان بھرنے کے ساتھ ہی ہم دونوں کے دل میں محبت نے اپنی پہلی دستک دی اور اس دستک کو ہم دونوں نے محسوس کیا ۔۔۔۔۔ اور محبت کی اس دستک نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے کافی قریب لا کر کھڑا کر دیا تھا۔۔۔۔۔ اتنا قریب۔۔۔۔۔ جہاں سے ایک رشتے کی شروعات ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اور اس رشتہ کو ایک نیا نام دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے کافی جذباتی نظر آنے لگے۔۔۔۔۔ اوراس سے ملنے کے بعد مذہب اسلام کے بارے میں جاننے کی مجھے دیرانہ خواہش ہوئی اورمیں جب بھی اس سے ملتی۔۔۔۔۔ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے متعلق خیالات کا اظہار کرتا۔۔۔۔۔ اور میں اس کی باتوں کو قطع کلام کرتے ہوئے کہتی۔
’’میزاب۔۔۔۔۔! اسلام مذہب تلوار کی۔ ۔۔۔ زور پر پھیلا ہے۔‘‘ وہ حیران ہو کر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ سے دباتے ہوئے کہتا۔
’’ نہیں ملائکہ ۔۔۔۔۔! اسلام مذہب تلوار کی زور پر نہیں پھیلا۔۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔۔ اپنی محبت و خلوص سے آگے بڑھا ہے اور جانتی ہو مذہب اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف عبادت کا مجموعہ نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ یہ معاشرت اور تمدن کے لئے بہترین راہِ عمل ہے اور جانتی ہو ملائکہ مسلمان خدائے واحد کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔‘‘
اس کے ان سب باتوں کا میرے دل پر اتنا اثر ہو ا کہ میں مذہب اسلام کی شیدائی ہوتی چلی گئی۔ان سب باتوں کا علم جب گھر والوں کو ہوا تو ان کی آنکھوں میں نفرت کی چنگاری سلگ اٹھی۔
’’ ملائکہ ۔۔۔۔۔ ! میں نے تمہیں اعلیٰ تعلیم کے اسٹریلیا اسی دن کے لئے بھیجا تھا۔۔۔۔۔کہ تم یہاں اکیلے میں اپنی من مانی کرو۔‘‘ اب تم یہاں نہیں رہوگی ۔۔۔۔۔ اور نہ آج کے بعد اس مسلم لڑکے سے ملوگی ۔‘‘ پاپا نے ایک زور دار تھپڑ لگاتے ہوئے گرج دار آواز میں کہا۔
’’ پاپا ۔۔۔۔۔! میں اس اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔۔ میں اس سے بے انتہا پیار کرتی ہوں۔‘‘
’’پیار۔۔۔۔۔ یہ پیار نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ محبت کی شکل میں۔۔۔۔۔ ’’لو اور جہاد‘‘ہے۔ وہ تم سے مذہب تبدیل کرانا چاہتا ہے۔۔ اور۔۔ اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔‘‘
’’نہیں پاپا۔ ۔! وہ ایسا نہیں ہے ،وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔‘‘
وہ تم سے پیار کا ناٹک کر رہا ہے تاکہ تم سے مذہب تبدیل کرا سکے۔‘‘انہوں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’ پاپا ۔۔۔۔۔ !مذہب اسلام سبھی مذہب سے پاک مذہب ہے۔اس لئے اس کے ساتھ شادی کر کے میں بھی۔۔۔۔۔ مسلمان۔۔۔۔۔ ہونا چاہتی ہوں ۔‘‘آنسو بھری ہوئی آواز میں بولی۔
’’دوبارہ اپنی زبان پر۔۔۔۔۔ یہ بات کبھی نہ لانا ۔‘‘ پاپا نے ایک زور دار تھپڑ لگاتے ہوئے کہا۔ اگر اس کو تم سے اتنی ہی محبت ہے تو جا کر اس سے کہہ دو کہ وہ اپنا اسلام مذہب چھوڑ کر ہندو مذہب قبول کر لے۔ تب میں تمہارا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں گا۔۔۔۔۔ورنہ۔۔۔۔۔ اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ انہوں نے سلگتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ان کی باتیں سن کر اندر سے کانپ گئی۔
ان سب باتوں کا علم جب میزاب کو ہوا تو وہ میرے لئے مضطرب ہو گیا۔
’’میزاب میں اسلام مذہب قبول کر لوں گی ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ میرے پاپا تمہاری جان کے دشمن بن جائیں گے۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک بڑے لیڈرہیں اور ان کی پہنچ بہت دور تک ہے۔‘‘ سسکتے ہوئے اس کے شانے پر سر رکھ کر کہا۔میری زبان سے یہ سب باتیں سن کر وہ مضطرب ہو گیا اور درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔اس وقت غروب ہوتے سورج کے شعوں کی لالی درختوں کے پتوں کی جھرمٹ سے نکل کر سیدھااس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔جس سے اس کا چہرہ بالکل زرد نظر آ رہا تھا۔میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ ملائکہ! سیاست ہمیشہ نفرت پھیلاتی ہے ۔ اور۔۔ دو پیار کرنے والے محبت ۔۔۔۔۔ تم میرا ساتھ اگر دو تو ہم دونوں اس زمانے سے دور ایک الگ دنیا بسا ئیں گے۔اس کی بات سن کر میرا دل تڑپ اٹھا۔
’’میزاب I don’t love you but the love youپاپا نے کہا ہے کہ تم اپنا مذہب چھوڑ کر۔۔۔۔۔ ہندو مذہب اپنا لو گے تو وہ ہم دونوں کے رشتے کے لئے راضی ہو جائیں گے۔‘‘’’ہرگز نہیں۔۔۔۔۔ میں اپنی محبت کو ۔۔۔۔۔ اپنے مذہب کے نام پر قربان کر دوں گا ۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ اپنے مذہب اسلام سے منہ کبھی نہیں موڑوں گااور میرا ہاتھ زور سے جھٹکتے ہوئے کہا ۔
ملائکہ! جب تمہیں اپنے گھر والوں سے اتنا ہی ڈر تھا۔۔۔۔۔ تو میری طرف محبت کا پہلا قدم کیوں بڑھایا۔۔۔۔۔ وہیں رک جاتی۔اس نے مایوس کن لہجہ میں کہا۔اس کے منہ سے اتنے سخت جملے سن کر میں بالکل سہم گئی ۔
’’ملائکہ۔۔۔۔۔!‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
میں نے بے تاب نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ملائکہ! اس غروب ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ آج ہماری محبت کا چیپٹر بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ ۔۔ اور ۔۔ اس کا گواہ ۔۔۔۔۔ آج یہ غروب ہوتا سورج ہے۔۔ ۔ لیکن ۔ ۔۔ فرق صرف اتنا رہے گا کہ یہ غروب ہوتا سورج کل پھر اپنے آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوگا۔ ‘‘ وہ کھڑا بول رہا تھا ۔ اور میں بھی اپنے دل کا سارا غبار آنسوئوں کی صورت میں لئے کھڑی خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی۔۔۔۔۔ اور میرے ساتھ وہاں کھڑے درخت بھی اس کی آواز سن کر بالکل ساکت وسامت کھڑے تھے۔ ہوا بھی ایکدم سے خاموش ہو گئی تھی۔ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اس وقت میری آواز بالکل بیٹھ گئی اور سراپا حیرت بن کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھا کر جا رہا تھا۔ اب سورج پوری طرح غروب ہو چکا تھا۔۔ رات کے سائے میں اس کا وجود بھی مٹتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ اس کی محبت کا نقش میرے دل میں آج بھی ہے ۔ بے چینی کے علم میںاسے ادھر سے ادھر تلاش کرنے لگتی ہوں۔ اس کے قدموں کی آہٹ آج بھی محسوس کرتی ہوں ۔۔ اور ۔ ۔ اس کی یاد میرے دل کو ایک سائے کی طرح چھو کر نکل جاتی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here