محمد صادق جمیل تیمی
اردوزبان ہندستان کی سرزمین سے نکلی ہوئی وہ واحد زبان ہے جو ہماری قدیم تاریخ اورتہذیب وتمدن کی یاددلاتی ہے۔ اردوہماری گنگا جمنی تہذیب کی بین دلیل بھی ہے ۔اردونے اپنی شیرینی ،چاشنی و مٹھاس اور اثر پذیری سے ایک دنیا کو اسیر کیا ۔ابتدا ہی سے اس کی زلف و کاکل کو سنوارنے کے لیے مخلص و بے لوث خادم ملتے رہے ہیں ۔غالب جیسے ساغر و مینا سے کھیلنے والے ، اقبال جیسے شاہیں کا سبق پڑھانے والے اور حالی جیسے اسلام کی تعلیمات اور اس کے عقائد کو بنام ’’مد و جزر و اسلام ،،دنیا کے سامنے پیش کرنے والے شعرا بھی ان کے حصے میں آئے ۔قبل اس کے کہ میں اپنی بات کو آگے طول دوں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی ابتدا و ارتقا اور اس کے ہندستان کے دیگر ریاستوں میں اس کی صورتحال چند سطور میں پیش کردوں تاکہ کچھ حد تک موضوع کا استیعاب ہوسکے ۔
اردوزبان ایک تعارف
ہندستان میں مسلمان فاتحین کے عربی وفارسی او رہندستان کی آریائی زبانوں کے معاشقے اور باہمی اتصال سے ایک نئی زبان کی کونپل پھوٹی جسے اردوسے موسوم کیا گیا ۔ ابتدا میں ایسے ہی الفاظ کا ذخیرہ فراہم ہوا جن سے تجارتی ضرورتو ںکی تکمیل او رمذہبی مقاصد کا حل ہوسکے ، پھر رفتہ رفتہ نوزائدہ زبان نے ملفوظات کے دائرے کو پارکرکے آگے بڑھنا شروع کیا ۔ صوفیاے کرام او ربزرگان دین کی محنتوں کے طفیل عوام سے براہ راست رابطہ قائم کیا، تاہم ابتدا میں اس کا ارتقائی سفر کافی دھیما رہا ۔ جب یہ فورٹ ولیم کالج کے سایہ میں پناہ لیتی ہے تو اس کے قدم کی لڑکھڑا ہٹ کسی حد تک دور ہوتی ہے ۔ لیکن اسی وقت تقسیم ہند کا حوصلہ شکن او رپرسوز سانحہ پیش آتا ہے ، تو ملک کے بکھرے ہوے شیرازے او عوام کی آہوں او رآنسوؤں کو اپنے دامن میںجذب کرتی ہے ۔ اور ایک کسک کے ساتھ مستقبل کی طرف گامزن ہوتی ہے ( سرسید کی نثری خدمات : ۱۹۔۲۰)
اس طرح اس کا ارتقائی سفر ہنوز جاری ہے ۔ اردو زبان نے اب تک جتنے منازل طے کی ہے یا جتنی کروٹیں بدلی ہے ۔ یہ امرپاے ثبوت کو پہنچ چکا ہے ۔ اردو کی ابتدائی نشوونما عارفوں کے تکیوں اور صوفیوں کی خانقاہوں میں ہوئی بہ لسانی وتاریخی صداقت تسلیم کی جاچکی ہے کہ اکثر وبیشتر صوفیائے کرام کا مرکز ومسکن ’’ دکن ‘‘ رہا ہے ۔ چنانچہ سرزمین دکن کی اردوپروری سے انکار ناممکن ہے ۔
ہندستان کی دیگر ریاستوں میں اردو کی صورت حال
ہماری آزادی کو ستر سال ہوگئے ان ستر سالوں میں بظاہر ہماری اردوزبان کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو زبان کی بنیاد کمزور ہونے کی وجہ سے یہ چمک دمک عارضی ہے صورت حال یہ ہے کہ اتر پردیش ، دہلی ، مدھ پردیش ، ہریانہ، راجستھان میں اردو کی ابتدائی او رثانوی اسکول یا تو نہیں ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں جنوبی ہند میں عام طو رپر حالات بہت بہتر ہیں جیسے آندھرا پردیش یعنی اہل دکن وغیرہ ( اردو تحریک : ۸۷) ۔ علاء الدین کے دور میں تصنیف وتالیف کا عمل شروع ہوا او رآج تک جاری ہے او رگورنمنٹ کی طرف سے کئی بڑی یونیور سٹیاں قائم کی گئیں جیسے عثمانیہ یونیورسٹی ، مولانا آزاد اردو نیشنل یونیور سٹی وغیرہ ۔ او رہندستان میںموجود مدارس اسلامیہ کاشروع ہی سے اردو کی آبیاری وزلفوکاکل کو سنوارنے پر بہت بڑا کردار رہاہے ۔
اردو کے فروغ میں بہار کے ادبا کا کردار
اردو کے فروغ میں بہار کے ادبا وشعرا کا کرداربھی دیگر ریاستوں کی طرح ناقابل فراموش ہے اردو شعر وادب میں دہلی اور لکھنو کا ذکر کرنا او ران کی تعریف پر گفتگو کرنا آج کل لوگوں کیی کچھ اصولی سی بات بن گئی ہے ۔ حالاں کہ یہ ذرا جھگڑے کی بات ہے ، کیوں کہ ان دونوں کا تعلق کچھ امتیاز انہ قسم کا ہے اور اس سلسلے میں جو کچھ کیا جاتاہے وہ چشمک سے خالی نہیں ہوتا ۔ لیکن اس حریفانہ کشمکش میں غریب بہار ضرو ر پس گیا او رلوگ اسے بالکل بھلا بیٹھے ۔ حالاں کہ بہار کے ادباء وشعراء نے دہلی ولکھنو او ردکن وغیرہ کے ادبا ء کے شانہ بشانہ شعر وادب میں اپنا لوہا منوایا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) سید محمد حسنین : اردو ادبیات کی مشہور صنف انشائیہ جس کے عظیم ومعروف ماہرو بارع سید محمد حسنین ہیں جنہوںنے اس صنف کو آگے بڑھانے میں سخت آبلہ پائی کی ہے اور اس کے لیے کئی کتابیں تالیف کی ہیں ،انہوں نے خاکے بھی لکھے اور تنقیدی مضامین بھی ڈش ہوگا۔ انہوں نے مگدھ یونیورسٹی سے ایک رسالہ (مشام ) کے نام سے نکالا جس میں اردو کو انشائیہ کے نام سے متعارف کرانے کا اہم کام کیا ۔ ( درخشاں : ۹؍ ۶) ۔
(۲) شاد عظیم آبادی : آپ کے علمی کمالات او راعلی ادبی خدمات کے صلہ میں برٹش گورنمنٹ نے آپ کو ۱۸۸۹ء میں خان بہادر کے خطاب سے نوزا۔ شاد کا شمار اردو کے ممتاز ترین شعراء میں ہوتا ہے ، ان کی شاعرانہ عظمت کو ثابت کرنے کے لیے صرف اتنا کافی ہوگا کہ کلیم الدین احمد جیسے ناقد نے اردوشاعری کی تثلیث میں میر اورغالب کے ساتھ شاد کو شامل کیاہے مختصر یہ کہ اگر شہر عظیم آبادکو شاعری کا ایک دبستان تسلیم کرلیا جائے تواس دبستان کے سب سے بلند قامت شاعر شاد عظیم آبادی ہی ہوسکتے ہیں ،( درخشاں : ۹؍۱۵۳)۔ علاوہ ازیں سہیل عظیم آبادی ،کلیم الدین احمد ،شکیلہ اختر ،کیف عظیم آبادی ، ڈاکٹر محمد حسن نگار عظیم ، عبد المغنی، شبنم کمالی، پروفیسر وہاب اشرفی او رالیاس احمد گدی ایسے اردو ادب کے خوشہ چین وجیالے ہیں جن کی خدمات کو اردو ادب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ،ان کے کارہائے نمایاں آب وزر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔
بہار میں اردو زبان : ایک تجزیہ
اردو کے وجود سے پہلے بہار میں مگدھی زبان رائج تھی بعد کو جب مسلمان صوفیا یہاں آگئے جن کی زبان فارسی تھی تو انہوں نے یہیں کی پراکرت میں کچھ تغیر وتبدل کرکے اسے وعظ ونصیحت کا ذریعہ بنایا ، جب افغانوں کی حکومت کازمانہ آیا تو اس کے صوبہ دار چوں کہ فارسی جانتے تھے اس لیے قد رتاََ وفطر تاََمگدھی زبان میں فارسی کے الفاظ او رزیادہ شامل کرتے گئے او رمگدھی زبان نے ایک نیا روپ اختیار کیا ۔ اس لیے یہ کہنا کہ بہار میں خود کوئی زبان الگ سے پیدا نہیں ہوئی یہ درست بات نہیں ہے ، کیوں کہ اردو کے جو ابتدائی نمونے ہمیں بہار سے ملتے ہیں وہ دکن کی اردو سے مختلف ہیں اور نسبتاََ زیادہ صاف بھی ہے۔ بہر حال جہاں تک بہار کی اردو کی بات ہے وہ یقینا بہار کی پیدا وار ہے ، دہلی سے مستعار نہیں ہے یہ بات صحیح ہے کہ دہلی اور عظیم آباد کے شعرا وادبا کا ربطہ وتعلق بہت گہراتھا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ بہار میں کوئی دبستان شعروجود ہی میں نہیں آیا یا یہ کہ وہ صرف دبستان دہلی ہی کی دوسری صورت تھی ، اگر یہ صحیح ہے کہ بیدل عظیم آبادی نے بھی اردو میں شاعری کی تو اس کامعنی یہ ہے کہ دسویں صدی ہجری ختم ہونے سے پہلے بہارمیں اردو شاعری جنم لے چکی تھی کیوں کہ میر تقی میر جو اردو شاعری کے ابولآباء سمجھے جاتے تھے ، عظیم آباد کے شاعر میر جعفر کے شاگرد تھے ،( اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ : ۲۲۲) ۔
ان تمام باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان ہماری اپنی وراثت ہے کسی سے نقل شدہ نہیں ۔لیکن اسی بہار میں جس کو دبستان عظیم آباد کے نام سے جانا جاتا تھا آج اسی بہار میں اردو رسوا ہے ۔ اردو بولنے والے رسوا ہیں جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد میں اترپردیش کے بعد دوسرا نمبر آتاتھا ۱۹۴۱ء کے مردم شمار ی کے مطابق چالیس لاکھ سے اوپر اس کی تعداد تھی۔یہی وجہ ہے کہ بہار کے بارے میں معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی نے لکھا تھا کہ’’ اردو کے لیے بہار میں سب سے زیادہ سعی او رجد وجہد کی جارہی ہے،، (ماہنامہ اردو دنیا،جولائی ۲۰۰۸ء)
سرزمین بہار اردو کے لیے ’’دبستان عظیم آباد ،،کے نام سے جانا جاتا تھا ۔یہاں اردو پھلی پھولی، جس بہارمیں کلکتہ کے بعد دوسرا اخبار ،’’ اخبار پٹنہ‘‘ ، کے نام سے ارد و میں نکلا لیکن آج اسی بہار میں کوئی قابل تعریف اقدام اردو کے لیے نہیں کیا جارہا ہے۔ مرکز کی طرف سے کوئی معتبر اردو یونیور سٹی نہیں جس میں جرنلسٹ کی تعلیم دی جائے گی جس کے ذریعہ ہمارے بہار کی اردو ترقی کرے جس سے ہند کی اردو ترقی کرے ، کتنے مسلم ہیں جو ٹی وی یا نیوز چینل پراینکرہیں ۔ اگر آپ اینکر کی شرح نکالیں توآپ کو معلوم ہوگا کہ ۳یا۴ اینکر س ملیں گےبس۔ اگر آج کوئی معتبر ادارہ مرکز کی طرف سے ہوتا تویہ نوبت نہ آتی او ر معتبر ادارہ اس لیے بھی کیوں کہ بہار کے ہندومسلم میں اتحاد بھی نہیں ہے اس لیے کہ ہندو فرقہ پرست طاقتوں نے صرف یہ سمجھ رکھا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ جب کہ یہ نقطہ نظر بالکل حقانیت کے خلاف ہے کیوں کہ دوسری ریاست میں ایسے بڑے بڑے غیر مسلم ادبا ہیں جس سے چشم پوشی ممکن نہیں جیسے گوپی چند ، نارنگ ، پنڈت آنند، گلزارزتشی دہلوی، کشمیری لال ذاکر ،رتن سنگھ وغیرہ نظرآجاتے ہیں ۔ جسے پوری اردو دنیا جانتی ہے او ر پورے ہندستان کے لوگ جانتے ہیں ان کے علاوہ اردو کے بڑے ادبا درجنوں تعداد میں ہیں ۔
ا س کے برعکس ہمارے حالات بھی کچھ صحیح نہیں ہیں کیوں کہ ہمار ا نظریہ یہ ہونا چاہئے تھاکہ ہم خود سے اردو کتابیں شائع کرکے اور اپنے علاوہ غیرو ںکے سامنے پیش کرتے غیروں کو رغبت دلاتے اردو کی چاشنی ، مٹھاس کو بتا تے ، بول کر سناتے اور اردو کی خوبصورتی کو اجا گر کرتے ۔لیکن ایسا نہیں کرتے ہم اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم سے دور رکھتے ہیں اور خود بھی ارد و سے کوسوں دور ہیں ایسے میں ہماری زبان کو دوسرے لو گ کیسے پڑھنا چاہیں گے ؟
سرکاری وغیر سرکاری سطح پر اردو
بہار میں اردوکو تودوسری سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی ، ’’مگرتمہیں یادہوکہ نہ ہو ہمیں تو یاد ہے ذرا ذرا ‘‘ بہار میں تقریبا تیس سالوں کی پے درپے کوششوں کے تین مرحلہ میں ۳۹ اضلاع کو سات مقاصد کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا جن میں سے چند یہ ہیں۔
(۱) اردومیں عرضیوں او ردرخواستوں کی وصولی او راس کا جواب ۔
(۲) اردو میں تحریر شدہ دستاویزات کا رجسٹری آفس کے ذریعہ قبول کیا جانا وغیرہ ۔
لیکن سرکاری سطح پر اردو تعلیم کو یقینی بنانے کی بات نہیں کی گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک پرائمری سے یونیورسٹی تک کا براحال ہے ، ۳۰؍ جولائی ۲۰۰۹ء کو اردو کو عملی نفاذ کے لیے ڈاکٹر تنویر حسن نے حکومت کو اردو کی طرف توجہ دلائی۔اس کے بعد ۷؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو ایک جامع رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جس میں یہ تھا کہ دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردوکو جو حقوق ملنے چاہئے تھے وہ اب تک نہیں مل سکے ۔ اس نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا او ر اس بات سے انکار نہیں کیا کہ حکومت نے اردو کے لیے کئی قابل قدر اقدام کیے لیکن اسے یقینی نہیں بنا یا ۔ اسی رپورٹ کے مطابق راج بھاشا کے اردو مترجم کے ۳۱۴منطور شدہ عہدو ں میں ۶۰ نائب مترجم کے ۴۴۹ میں۸ ٹائپسٹ کے ۴۷۱ میں ۱۳۴عہدے خالی پڑے ہیںکل ملاکر ۲۷۵ عہدے خالی ہیں اس کے علاوہ اور بھی ہیں ۔ ( ڈاکٹر تنویر حسن کی رپورٹ : ۳۰؍ جولائی ۲۰۰۹ء ) ؎
جاؤ ں توکہاں جاؤں توہی بتا اے دل
دنیا بڑی ہے مشکل دنیا بڑی ہے مشکل
ہمارے پاس بہار اردو اکادمی او رانجمن ترقی ا ردو کے دوبڑے ادارے ہیں جس کو حکومت کی طرف گرانٹ ملتے ہیں ۹۔۲۰۰۸ء میں اردو اکادمی کو ایک مشت ایک کروڑ روپئے ملے لیکن ادارہ اس کو خرچ نہ کرسکی جس کی وجہ سے رقم کم کردی گئی ۔ انجمن ترقی ’’ اردوبہار کو بھی حکومت سے چار لاکھ کے گرانٹ کی ایک خاطرخواہ رقم ملتی تھی او راب ۸ لاکھ سے زائد رقم ملتی ہے لیکن یہ ادارہ صرف اورصرف سکریٹری کا ذاتی ادارہ بن کر رہ گیاہے ؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
یہ حالت ہے سرکاری اداروں کی جس کی وجہ سے خاص طور سے اردو رسوا ہے ۔ جس کے ذمہ دار سرکار کے ساتھ اعلی افسران بھی شامل ہیں ؎
ہم کو دعائیں دو تمہیں قاتل بنا دیا
دوسری طرف غیر سرکاری یعنی مدارس اسلامیہ ہیں او راس میں پڑھنے والے طلبہ اور ان کے معلمین نے کچھ حد تک اردو کو رسوا ہونے سے بچا رکھا ہے اور ارد و کے صحیح طریقہ کی آبیاری کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ اور غیر سرکاری ادارہ سے پڑھ کر نکلنے والے دوسری بڑی یونیور سٹی میں جاکر اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ او رصحافت وکتابت کا کام کرکے اردو کو رسوا ہونے سے بچانے میں مصور کی طرح کا م کرتے ہیں جس طرح ایک تصویر بنانے والا پتھر پر نقش کرتے اس کوکاٹ چھانٹ کرخوبصورت بناتے ہیں اسی طرح ہمارے اردو صحافی ہیں ۔ یقینا ہمیںاس پر ناز ہے لیکن کچھ غیر سرکاری اداروںکی حالت بدل رہی ہے حکومت کی دخل اندازی کی وجہ سے ۔ پر ہمیں ہمت نہیں ہارنا چاہئے ہمیںڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے اور تاکہ اپنی طاقت منوا سکیں ۔
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
بس ایک نگاہ پہ ٹھہراہے فیصلہ دل کا
٭٭٭٭٭٭٭