ایک گھنٹہ بھی اہل بیت ؑ کے فضائل بیان کرنا محال ہے؟

0
398

سات محرم کربلا انسان سازی کی درسگاہ

اہل بیت ؑ کے فضائل اتنے ہیں کہ سمندر کا سارا پانی روشنائی بن جائے اور سبھی درختوں کی لکڑی قلم تو بھی اہل بیت ؑ کے فضائل نہیں لکھے جاسکتے۔ یہ کہنے والے تمام ذاکر جب منبر پر جاتے ہیں تو ایک گھنٹہ بھی اہل بیت ؑ کے فضائل بیان نہیںکرپاتے اور اِدھر اُدھر کی باتیںکرکے اپنا ایک گھنٹہ پورا کرلیتے ہیں۔ اس کی دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں یا تو اہل بیت ؑ کے فضائل کے سلسلے میں ان کا دعویٰ غلط ہے یا وہ جاہل مطلق ہیں جو اہل بیت ؑ کے فضائل سے اتنے بھی آشنا نہیںکہ ایک گھنٹہ اپنے بیان میں فضائل اہل بیتؑ بیان کر سکیں۔ اسی لئے شاید وہ کبھی ایک آنکھ دباتے ہیںاور کبھی دوسری آنکھ، اور پھر کہتے ہیں کہ میں کچھ کہہ گیا، حالانکہ انہوں نے کیا کہا یہ وہ خود بھی نہیںجانتے بس سمجھنے والے اپنے اپنے حساب سے جو سمجھ سکتے ہیں بیچارے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ سمجھدار افراد تو ایسی تقریروں سے دور ہی رہتے ہیں۔
آج سات محرم ہے آج نہ صرف امام حسن ؑکے شہزادے جناب قاسم ؑ کی شہادت کا ذکر ہوتا ہے بلکہ آج کے ہی دن سے خیموں میں پانی کے ختم ہونے کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ جیساکہ میں مسلسل اپنی کم علمی کے باوجود آپ کی خدمت میںعرض کرنے کی کوشش کرتارہا ہوں کہ کربلا ہمارے لئے ایک درسگاہ ہے، یہاںقدم قدم پراور بولاگئے ایک ایک فقرے میں ہمارے لئے بہت سی عبرتیں پوشیدہ ہیں۔
حضرت قاسم ؑ کا وہ فقرہ کہ ’’موت شہد سے زیادہ شیریں ہے‘‘ موت کے خوف کو ختم کردیتی ہے آپ سنتے ہیں جب امام حسین ؑ نے اس 13 برس کے بچے سے ایک مقام پر پوچھا کہ بیٹا تمہارے نزدیک موت کیسی ہے تو جناب قاسم ؑ نے بے ساختہ جواب دیا کہ ’’ شہد سے زیادہ شیریں‘‘ میدانِ کربلا میں 13 برس کے بچے کے اس فقرے نے موت سے خوف زدہ کردینے والے مفہوم کو بدل دیا اور اسے حضرت قاسم ؑ نے ثابت بھی کیا۔ جب حضرت قاسم ؑ امام حسین ؑ کے پاس کئی بار جنگ کی اجازت لینے آئے لیکن ہر بار یہ کہہ کر امام حسین ؑ نے منع کردیا کہ تم تو ہمارے بھائی کی نشانی ہو۔ ایسے میں وہ بیحد غمگین اپنے خیمے میںبیٹھے تھے کہ اچانک یاد آیا کہ بابا حسن ؑ نے دنیا سے جاتے وقت میرے بازو پر ایک تعویذ باندھا تھا اور کہا تھا کہ جب سب سے مشکل وقت آئے تو اس تعویذ کو کھول لینا۔ اس بچے کے لئے سب سے مشکل وقت یہ تھا کہ اسے اجازت نہیں مل رہی ہے کہ وہ جنگ میں جائے اور اپنی جان اسلام کی بقاء کیلئے قربان کردے، فوراً تعویذ کھولا دیکھا اس میں بابا حسن کی اپنے بھائی حسین ؑ سے وصیت تھی کہ دیکھو میں تو میدانِ کربلا میں نہ ہوئوں گا لیکن میرا فرزند قاسم ؑ میری نیابت کرے گا اسے جنگ کی اجازت دے دینا۔ میدانِ کربلا میں 13 سال کے بچے نے موت کا فلسفہ کچھ یوں سمجھا دیا کہ قیامت تک اس کی دوسری مثال تلاشنے پر بھی نہ ملے گی۔
ایک بات اور دست ِ ادب جوڑ کر اپنے تمام ذاکرین سے عرض کرنی ہے کہ کربلا نام ہی مصائب کا ہے جسے کربلا سے معرفت ہے اسے کربلا پوری بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس کا تصور ہی آنکھوں میں آنسو لانے کیلئے کافی ہے۔ ایسے میں اگر حضرت قاسم ؑ کی شادی کا ذکر نہ بھی ہوتو بھی کربلا کے مصائب کہیں سے کم نہ ہوں گے کیونکہ بغیر کسی معتبر حوالے کے کسی کا عقد کسی کے ساتھ کرا دینا، رشتوں کی بے حرمتی ہے ایسے میں اگر شادی ہوئی اور ذکر نہ ہو تو کربلا کے مصائب پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر نہیں ہوئی تو بے وجہ رشتے پامال ہوں گے، ویسے تمام علماء ہم سے بہت بہتر جانتے ہیں ان کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہونا چاہئے۔
کسی کے لئے زندگی میں سب سے قیمتی شے اگر کوئی ہے تووہ پانی ہے انسان ہر شے کے بغیر رہ سکتاہے لیکن پانی کے بغیر نہیں۔ یزید کی فوج نے بھی یہی سوچا کہ اگر پانی بند کردیا جائے تو امام حسین ؑ ٹوٹ جائیں گے لیکن کربلا نے قیامت تک ہمیں درس دے دیا کہ مشکل سے مشکل وقت میں مقصد اگر عظیم ہو تو کوئی مجبور نہیں کرسکتا بس اس کے لئے کربلا والوں سے درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here