ایک دیدہ ور شاعرو مترجم انورجلالپوری

0
389

یہ تو سب جانتے ہیں کہ انور جلال پوری نے دنیا بھر میں مشاعرے میں نظامت کے ذریعے اپنا الگ مقام بنایا ۔وہ نہ صرف مشہور و معروف ناظم، ہر دلعزیز شاعر، اسکالر، ادیب تھے بلکہ مشاعروں میں اپنی نظامت اور اپنی شاعری کی بناء پر انہوں نے ہمیشہ اپنے منفرد انداز میں سننے والوں کو متاثر کیا۔ 06 جولائی 1947 ء کو امبیڈکرنگر کے قصبے جلال پور میں انور جلال پوری کی ولادت ہوئی ۔ان کے والد حافظ محمد ہارون دنیاوی اعتبار سے غریب مگر دل کے بیحد رئیس تھے، ان کا بچپن غربت مگر شرافت کے راستوں سے ہوکر آگے بڑھا۔ وہ جس قصبہ جلال پور کے رہنے والے تھے وہاں کی جتنی بھی دانشور، علمی اور ادبی شخصیات تھیں وہ ان کے والد کے ہم عصروں میں تھیں اس لئے ان کے دروازے پر ہمیشہ ایک محفل سجی رہتی تھی انہوں نے بچپن سے ہی اپنے بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کو فخر سمجھا جس کے نتیجے میں انہوں نے اُن بزرگوں سے بہت کم عمری میںوہ سب کچھ سیکھ لیا جسے سیکھنے کے لئے ایک عمر ِدراز درکار ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گریجویشن گورکھ پور یونیورسٹی سے،انگریزی میں ایم اے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اور پھر اردو میں ایم اے اودھ یونیورسٹی فیض آباد سے کیا۔ ان کے شاید خون میں ہی سبھی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کی جستجو پائی جاتی تھی شاید اسی لئے انہوں نے بی اے میں انگریزی لٹریچر، عربی لٹریچر اور اُردو لٹریچر ایک ساتھ پڑھا اُن کے اسی ذوق اور شوق نے آگے چل کر گیتا جیسی کتابوں کو پڑھنے پر مجبور کیا۔ انور جلال پوری نے اپنی شاعری کو الفاظ کی جادوگری سے دور رکھا اور ہمیشہ سماج کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی۔ ہمارے سماج میں نئی نسل کیلئے بھی ان کی شاعری ایک طرح سے درس دینے کا کام کرتی ہے۔ انہوں نے مذہب کی تجارت کرنے والوں پر بھی خوب طنز کئے، وہ کہتے تھے:
جو مذہب اوڑھ کر بازار نکلے
ہمیشہ اُن اداکاروں سے بچنا
انہوں نے مکر اور فریب کرنے والوں پر کچھ یوں طنز کیا:
اُن ہی کے گرد جھوٹوں کا ہے مجمع
جنہیں دعویٰ ہے وہ سچ بولتے ہیں
انہوں نے اپنے تجربوں کو دنیا سے کچھ یوں شیئر کیا:
عدالت تو نہیں ہاں وقت دیتا ہے سزا سب کو
یہی ہے آج تک کی زندگی میں تجربہ میرا
میں دنیا کو سمجھنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتا
برے لوگوں سے بھی رہتا ہے اکثر رابطہ میرا
ایک ناظم کا کام ہی ہوتا ہے بولنا، بس بولنا اور بولتے ہی رہنا، لیکن وہ ایسے ناظم تھے جو یہ جانتے تھے کہ بولنے میں کتنی احتیاط ضروری ہے ان کا یہ شعر اس کی تصدیق کرتا ہے۔
بس ایک لفظ منھ سے جو زائد نکل گیا
رُسوائیوں کو چھوڑکر شہرت چلی گئی
وہ ٹی وی سیرئیل سے بھی وابستہ ہوئے۔ اکبر دی گریٹ کے ڈائیلاگ اور گانے لکھے، فلم ڈیڑھ عشقیہ میں وہ خود بھی پردے پر نظر آئے۔ رشتوں کو برتنے، انہیں سلیقے سے سنوارنے کو لے کر وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔ انور جلال پوری کے قلم سے نکلی کتابیں ملک کی محبت، یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کا پیغام دیتی ہیں جس میں نہ بھولنے والی توشہ آخرت، ادب کے اکشر، اردو شاعری میں گیتانجلی، رُباعیاتِ خیام، اُردو شاعری میں گیتا اور اسی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے تیسویں پارے کا منظوم اُردو ترجمہ اُنہیں قیامت تک زندہ رکھے گا۔ ان کو زندگی میں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا پدم شری جس کی تمنا میں لوگ پوری عمر گذار دیتے ہیں وہ انھوںنے پس از مرگ حاصل کرلیا۔ آج بھی دنیا اُنہیں ان کی شاعری کے ذریعے قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کا پیغام دینے کے لئے یاد رکھے گی۔ وہ کہتے تھے:
جو بھی نفرت کی ہے دیوار گراکے دیکھو
دوستی کی بھی ذرا رسم نبھا کے دیکھو
کتنا سکھ ملتا ہے معلوم نہیں ہے تم کو
اپنے دشمن کو کلیجے سے لگاکے دیکھو
انور جلال پوری کا نام ذہن میں آتے ہی پوری اُردو دنیا سامنے آجاتی ہے، ان کی شاعری میں جو بہت بڑی بات ہے و ہی ان کی شناخت کا فکری عنصر یوں ہے کہ وہ بات کی گہرائیوں میں جاکر اس کاتجزیہ کرتے ہیں اور یہ ایک عالمانہ فکر ہے۔ اس عالمانہ فکر کو برتتے ہوئے انہوں نے اپنی شاعری اور اپنی شاعری سے ہٹ کر ہماری کلاسکی شاعری ہو یا اس کے علاوہ دوسری زبانوں کی بڑی شاعری ، اسے انہوں نے ایک حد تک اُردو میں منتقل کیا، اسے سجا سنوار کے اس قابل بنایا کہ لوگ اردو زبان کے حوالے سے اس تک پہونچ سکیں۔
اُردو شاعری اور نظامت کے حوالے سے یہ ساری باتیں کئی بار آپ نے سنی اور پڑھی ہوں گی لیکن ایک شاعر اور ایک ناظم کے علاوہ وہ ایک باوقار شخصیت کے مالک بھی تھے ۔وہ ایک انسان دوست تھے وہ ایک علم دوست تھے، وہ خود ایک چلتی پھرتی تہذیب تھے، اُردو والوں میں کتنے مقبول تھے یہ تو اُردو والے ہم سے بہتر جانتے ہیں لیکن وہ غیراُردو طبقے میں بھی اپنے الفاظ کی گرفت اُن کی ادائیگی، سامعین کے مزاج اُن کے ذوق ان کے شوق ان کی علمی لیاقت کے مطابق گفتگو کرنے کے ہنر سے پوری طرح واقف تھے۔ این بی آر ای کے آڈیٹوریم میں 05 ستمبر 2015 ء کو ٹیچرس ڈے کا ایک پروگرام امام جعفر صادقؑ کے حوالے سے ہورہا تھا جس میں لکھنؤ یونیورسٹی کے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے سبھی پروفیسر کے ساتھ شہر کے سبھی پی جی کالج کے کیمسٹری کے پروفیسر موجود تھے، ڈائس پر کئی یونیورسٹیزکے وائس چانسلر تھے ایسا مجمع خالص اُردو والوں کے جلسوں میں کم ہی نظر آتا ہے اور اگرکبھی آبھی جائے تو سرد موسم میں بھی ناظم کو پسینے آجاتے ہیں ایسے ہی پروگرام کی نظامت انور جلال پوری کررہے تھے۔ نظامت کے جوہر اُنہوں نے کیسے دکھائے اس کے یہ لئے بیان کافی ہے کہ جب پروگرام کے اختتام کااعلان ہوا تو وہ کہہ رہے تھے کہ انور جلال پوری صاحب کو ابھی اور سننے کا من ہے۔ انور صاحب کا جب کہیں کوئی پروگرام ہو تو ہم لوگوں کو ضرور بلائیے گا۔‘‘ یہ سب کے سب غیراُردو والے تھے، اُردو سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن انور جلال پوری کی علمی لیاقت اور نظامت کی جادوگری نے ان پر ایسا اثر کیا کہ وہ سب کے سب پہلی ہی بار ان کے معتقد ہوگئے۔ اُن کی انکساری ایسی جس پر دنیا رشک کرے جب وہ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین تھے، ان کے پاس لال بتی والی گاڑی تھی، منصب تھا، ایک رُتبہ تھا لیکن اس کے باوجود بس ایک دعوت پر سامعین کی صف میں آکر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ خاص بات یہ کہ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین رہتے ہوئے انہوں نے جو سب سے اہم کام کیا ،عوام یا تو اس سے انجان رہے یا اسے جان بوجھ کر نظرانداز کیا شاید اسی موقع کیلئے انہوں نے یہ شعر بھی کہا ہو:
حسد بھی ایک بیماری ہے پیارے
ہمیشہ ایسے بیماروں سے بچنا
مدرسہ بورڈ کے چیئرمین رہتے ہوئے جب انہوں نے دیکھا کہ مدرسے کے نصاب میں صرف اُردو اور عربی ہی پڑھائی جاتی ہے اور ہندی بس نام کے لئے ہے تو انہوں نے مدرسے کے نصاب میں سب سے پہلے انگریزی اور میتھ میٹکس کو شامل کرایا کیونکہ ان کی وسعت نظر اس بات سے واقف تھی کہ کمپیوٹر کی زبان انگریزی ہے اور اگر مدرسہ کے بچے انگریزی سے ہی ناواقف رہیں گے تو وہ دنیا کی رفتار میں کہیں نہ ٹھہر سکیں گے، ان کے اس کارنامے کو ہمیشہ یاد کیا جانا چاہئے۔
ایک باراور محکمہ اطلاعات کے آڈیٹوریم میں اسی 05 ستمبر 2013 ء کو ٹیچرس ڈے کے ہی پروگرام میں جہاں بس سو سواسو لوگ تھے وہاں امام جعفر صادق ؑ پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں امریکہ گیا، لندن گیا دنیا کے تمام ممالک میں گیا اور تمام اعزازات سے نوازا گیا لیکن جتنا فخر آج اس ڈائس پر امام جعفر صادق ؑ کے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے ہو رہا ہے وہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا‘‘ یہی نہیں ایک انٹرنیشنل مرثیہ کانفرنس تھی تمام مہمان باہر سے آئے تھے انور صاحب بھی ہر پروگرام کی طرح اس پروگرام میں سامعین کی صف میں موجود تھے ان سے بھی اظہار خیال کی درخواست کی گئی حلانکہ وہ اس کے لئے تیار ہو کر نہیں آئے تھے لیکن جو تقریر چند منٹ میں انہوں نے مرثیے کے عنوان سے کی اسے سن کر تمام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ اکیلا شخص کن کن عنوان پر بغیر کسی تیاری کے بول سکتا ہے انہوں نے اپنی مختصر مگر جامع تقریر میں کہا کہ ہندوستان میں جتنے سخت لوگ ہیں انہیں مرثیے ضرور پڑھنے چاہئیں، مرثیے پڑھنے سے انسان نرم دل بنتا ہے، مرثیے پڑھنے سے دور کے دردناک مناظر کو اپنی آنکھوں میں بسا لینے کی مشق ہوتی ہے۔ مرثیے کا مرکزی کردار حضرت حسین ؑ کی ذاتِ اقدس ہے، آغوشِ نبوت کا پالا ہوا شخص اُردو شاعری کی جس صنف کا مرکزی کردار ہے وہ صنف اپنے آپ مقدس ہوگئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اُردو میں جو لوگ مذہبی شاعری کرتے ہیں انہیں اہل بیت اطہارؑ کی سیرت کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے، اس لئے کہ ان کی سیرت میں علم کی بڑی دولت ہے۔ مرثیہ انہیں سمجھنے کے لئے راستہ نہیں بلکہ شاہراہ ہے۔ لوگ مرثیے کا عقیدتمندانہ مطالعہ کرکے تو دیکھیں انہیں خود محسوس ہوگا کہ زندگی کتنی بدل رہی ہے پھر ان کی سمجھ میں آئے گا کہ اردو مرثیہ انسان سازی کا شاہکار ہے۔‘‘
ایک طرف جب امام حسین ؑ اور حضرت علی ؑ کو بھی شیعوں اور سُنیوں نے بانٹ لیا تو اس غلط فہمی کو انور جلال پوری نے اپنے عمل سے ہی توڑ دیا جتنے حسین ڈے اور علی ڈے کی نظامت انور جلال پوری نے کی اتنی شاید کسی شیعہ نے بھی نہیں کی ہوگی کم از کم ہمارے پروگراموں میں تو ایسا ہی ہوا۔ تقریباً سبھی حسین ڈے، علی ڈے اور امام جعفر صادق ؑ کے پروگرام کی نظامت انور جلالپوری نے ہی کی۔ یہ ان کی بیباکی ہی کہی جائے گی کہ انہوںنے مختلف مواقع پر کہا کہ صدیوں پہلے ایک سانحہ کربلا عراق میں ہوا جہاں ایک ہی عقیدے کے ماننے والے مظلوم بھی تھے اور ظالم بھی، مگر ہندوستان کا غیرمسلم شاعر ظالم سے نفرت کرتا ہے اور مظلوم سے محبت۔ دراصل یہ معاملہ ضمیر کی آواز کا ہے اور ضمیر ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ فلاں کی شخصیت ایسا روشن چراغ ہے جسے آندھیاں بھی نہیںبجھا سکتی مگر میں کہتا ہوں کہ امام حسین ؑ ایک ایسا سورج ہیں جو قیامت سے پہلے مدھم بھی نہیں ہوسکتا۔ سیاست ہندوستان میں چاہے جتنی نفرت پھیلائے مگر اُس ہندوستان کا ایک بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا جس ہندوستان میں آنے کی حضرت حسین ؑ نے آرزو کی تھی۔
بیٹی سب کو عزیز ہوتی ہے خصوصاً باپ کو تو بہت عزیز ہوتی ہے، لیکن بیٹی اگر ایسی ہو جس پر باپ فخر کرسکے تو وہ کتنی عزیز ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ انور جلال پوری نے بھی ایک ایسی بیٹی پائی اور اس بیٹی کو وقت سے بہت پہلے اچانک کھو دیا، اس صدمہ نے انہیں توڑکر رکھ دیا، وہ اندر ہی اندر گھٹتے چلے گئے اور چالیس دن بھی پورے نہ کرسکے کہ اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا ان کی موت نے جہاں ان کے گھر والوں کو توڑ کر رکھ دیا وہیں ان کے چاہنے والوں کو ان کے حسن اخلاق کی یادوں میں زندگی بھر ان کا بدل تلاش نہ کرپانے پر مجبور کردیا۔ میرا کیا میرا تو داہنا ہاتھ ہی جیسے قلم ہوگیا، میں نے جہاں سب کی طرح اپنا شفیق اپنا بزرگ اپنا کرم فرما کھو دیا وہیں میرے پروگراموں کا ہی جیسے خاتمہ ہوگیا اُن جیسا ناظم اب ممکن نہیں جو ہر تعلیم یافتہ مجمع کو اپنے کلام سے متاثر کرلے۔ انہیں شاید اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اب یہ دنیا ان کے لئے اور نہیں شاید اسی لئے
اپنے آخری دَور کے مشاعروں میں یہ شعر وہ اکثر پڑھتے تھے:
میری بستی کے لوگوں اب نہ روکو راستہ میرا
میں سب کچھ چھوڑکر جاتا ہوں دیکھو حوصلہ میرا
میں اپنے وقت کا کوئی پیمبر تو نہیں، لیکن
میں جیسے جی رہا ہوں اس کو سمجھو معجزہ میرا
وہ ایک پل تھا جو اپنے توڑنے والوں سے بول اُٹھا
اب آئے ہو، کہاں تھے، ختم ہے جب ذائقہ میرا
اب اُن کے بعد اُن کا بدل کوئی نہیں وہ زندہ رہیں گے اپنی کتابوں میں لوگوں کے ذہنوں میں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے شاعر نے کہا ہے کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here