9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر سید محمد حسان نگرامی
سابق ڈپٹی ڈائرکٹریونانی
7071772077
تاریخ اور داستان نویسی دونوں کی حدیں بہت قریب ہیں ،واقعہ نگاری دونوں میں یکساں ملتی ہے ،یہ اور بات ہے کہ کبھی داستان گوئی میں تاریخ کے طرز پر واقعات شامل کرنا داستان گوکی مجبوری ہو جاتی ہے اسی طرح مورخ کو بھی تاریخی تسلسل اگرچہ فرضی سہی قائم رکھنے کے لئے کبھی داستان گو کا سہارا لینا پڑتا ہے ،یہ بات صرف اردو ادب کے تناظر میں نہیں دنیا کے دوسرے ادب اور زبان میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے دراصل روایت (Expression)اور تنقید (Criticism)دونوں کے اپنے اصول ہیں یہ اور بات ہے کہ لسانی ،مسلکی ،قومی اور تمدنی طرف داری (Partiallity) جو اکثر عصبیت کا شکار ہو جاتے ہیں یہ تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے اور ہوتی رہے گی اردو ادب میں اسکی بنیادی وجہ یہ رہے کہ ہمارے قدیم مورخین محنت سے تو کام لیا ہے اور اپنے طور پر ادیبوں او ر شعرا ء کے حالات جمع کرکے انھیں کتابی شکل دی ہے یہ بڑا کام تھا ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں تھا لیکن سانحہ یہ رہا کہ اکثر تاریخ نویسوں یا تذکرہ نگاروں نے عقلیت اور داریت سے زیادہ کام نہیں لیا ان میں کچھ آگے بڑھے تو لیکن انھوں نے انگریزی ادب اور فکشن کو اپنا آئیڈیل سمجھا جن کے ماہرین میں اکثر کی حقیقت پسندی شک و شبہ کی نظرسے دیکھی جاتی رہی ہے اچھا ہوتا کہ ہمارے اردو مورخین نے عرب بدوں کی فطری شاعری اور ظہور اسلام کے بعد قرآن، حدیث اور اس حوالہ سے تفسیر فقہ اور پھر عہد عباسی کے ادارہ بیت الحکمت کی ادبی اور لسانی سرگرمیوں سے بھی استفادہ کرتے جو آگے چل کر ساری دنیا میں ادبی نگارش، تنقید ،انشاء پردازی شعر وسخن کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ بن سکتا تھا ، ہم اپنے ترقی یافتہ ہونے کا کتنا بھی ڈھول پیٹیں عرب بدوں کی فصاحت لسان اور امرؤالقیس کی شاعری ، سبعہ معلقہ کے سلیس اور عام فہم اسلوب جذبات اور حسان بن ثابت کی دیوان حسان اور ایک دوسرے ادبی شہ پا رے حماسہ کا آج بھی مقابلہ نہیں کرسکتے اس حوالے سے حضرت علی ؓ کی نہح البلاغہ کا دور دور تک جواب تلاش کرنا آسان نہیں ۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ فن عروض کو سامنے رکھ کر ہم بیانیہ کی تنقید ان پیمانوں پر کرتے جنھیں مختلف زبانو ں میں شاہکار کہا جاتا ہے لیکن ہوااس کے برخلاف ظاہر ہم محمد حسین آزاد اور رام بابو سکینہ سے اس بات کی فضول توقع نہیں کرسکتے تھے کہ وہ روایت اور درایت کے اصولوں کے پابند ہوتے دراصل یہ تاریخ ادب اردو کے اولین خاکے ہیں جن میں رنگ و روغن کے ذریعہ مصوری کی ذمہ داری بعد کے ماہرین زبان و ادب پر عائد ہوتی ہے ایسا نہیں ہے کہ بعد کے دانشوران اور تنقید نگاروں نے کچھ نہیں کیا، ہم کہہ سکتے ہیں اور یہی سچائی بھی ہے کہ ان فضلاء علم و ادب نے اس خلاء کو پرکرنے کی بھر پور کوشش کی اس حوالہ سے بہت سے ناموں کے ساتھ علامہ شبلی نعمانی کی شعر العجم اورموازنہ انیس و دبیر،ابوالکلام آزاد کاالہلال اور البلاغ ،سر سید کا تہذیب الاخلاق ، حسرت ہوہانی کے انتخابات ، ڈپٹی نزیر احمد نیاز فیموری ، سجا د حیدر ہلدرو، مالک رام، جگن ناتھ آزاد، قاضی عبد الستار مسعود حسن رضوی ادیب ، یوسف حسین خان، کلیم الدین احمد کی کاوشیں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔ ان کے اعترا ف کے بغیر اردو کا تذکرہ مکمل نہیں ہوسکتا ۔بلاشبہ ان کے جیسے اور بہت سے قلمکار وں نے شاندار ادبی خدمات انجام دیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس ایک لمبی فہرست ہے جس میں مولانا عبد السلام ندوی، پروفیسر احتشام حسین ، قاضی عبد الودود، پروفیسر ملک زادہ منظور ، جناب تنویر احمد علوی، پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر عابد حسین، جناب رام لعل، خلیق انجم، ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی، خواجہ احمد فاروقی، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر عبد الباری شبنم، مرزا عسکری، عطا کاکوی، ڈاکٹر محمد یعقوب عامر، پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی ، پروفیسر عصمت ملیح آبادی، پروفیسر خان محمد عاطف، بشیر مالیر کوٹوی، پروفیسر صفدر امام قادری، پروفیسر ارتضی کریم، پروفیسر صبیحہ انور، ڈاکٹر اسلم پرویز، خواجہ عبد عبد المنتقم، پروفیسر مظفر حنفی، ڈاکٹر مظہر محمود، جناب سہیل انجم، جناب منور حسن کمال، پروفیسر آصفہ زمانی، پروفیسر عارف ایوبی، پروفیسر عباس رضانیر، جناب حقانی القاسمی، پروفیسر نثار اعظمی، محسن بلگرامی ، ڈاکٹر عبد الخالق ، وہاب اشرفی، سید عابد علی عابد، ناصر عباس نیر، قیوم خضر، ڈاکٹر احمد شمیم اور اعجاز علی ارشدجیسے اہم نام شامل ہیں۔ اس اعتراف کے ساتھ ہمیں یہ ضرور کہنا ہے کہ اردو ادب و تنقید میں روایت اور ہدایت کے اصولوں کی پابندی، میں ایک اہم سبب یہ بھی رہا کہ فارسی جو کسی زمانہ میں سرکاری زبان ہو ا کرتی تھی اس کی جگہ اردونے لی ہے اور پھر گردش ایام نے اردو کو دفتروں سے نکال دیا اور اب تو یہ دھیرے دھیرے گھروں سے نکلتی جارہی ہے ظاہر ہے جب اس ماحول میں جب ہم انگریز ی کے تسلط نے ہمیں خوردونوش لباس وضع ،تقریر و تحریر میں انگریزیت کو اپنانے کو اپنی شناخت بنانے کی ہوڑ میں لگے ہوں تو بیچاے مدرسہ کے فارغین جن میں اکثر اردو زبان و ادب کے دانشوران کی صف اول میں شامل رہے ہو وہ ہائی اسکول اور انٹر کے ساتھ کسی طرح اردو مضامین پاس کرکے اساتذہ کی تقرری کی آندھی میں بہت سی بے جا رعایتوں کے عنوان کے ذریعہ اردو اکیڈمیوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اردو اور فارسی کے شعبوں سے دور کردیا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر صرف دارالعلوم ندوۃ العماء لکھنؤ،دارالعلوم دیوبند، اور مدرسہ ناظمیہ ، سلطان المدارس لکھنؤ اور دار المصنفین، اعظم گڑھ، اور جامعہ سلفیہ بنارس، اور دانشگاہ بریلی سے اردو زبان و ادب پر جو اشاعتی کام انجام دئے جارہے ہیں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں میرا مقصد بالکل نہیں ہے کہ اردو تنقید کے حوالہ سے غیر عربی اور فارسی داں طبقہ کی تنقید معیاری نہیں تھی یااس میں لسانی برتری کی کمی تھی اس بیانیہ کا مقصد صرف اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ اصل ماخذ (Original source) تک جتنی اچھی پہونچ اور پکڑ یا رسد اور گرفت عربی فارسی کے ماہرین کی ہوسکتی ہے ظاہر ہے محض خالص اردو دانوں میں کیسے آئے گی حالانکہ بہت سے اردو داں قلمکاروں نے بھی اچھی تنقید کی مثالیں پیش کی ہیں۔
دیکھا جائے تو اس علمی سابقت میں بڑا دخل مشرقی اور مغربی علوم و افکار سے اثر پزیری(Implication)اور عمل آوری (Application)رہا ۔اس میں معاصرانہ چشمک کا عنصر بھی کارفرما رہا اور تہذیب نو اور تہذیب قدیم جسے ہم مشرقی اور مغربی تہذیب کا عنوان بھی دے سکتے ہیں کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اس علمی اور ادبی معرکہ آرائی میں بہت سے مشہور اور مستند مورخین بھی کہیں نہ کہیں مرعوب نظر آتے ہین لیکن اس صف میں بہت سے ایسے بھی نقاد ملتے ہیں جنھوں نے مغرب سے اثر تو قبول کیالیکن قدیم اصولوں سے انحراف کئے بغیر خذماصفا اور دع ماکدر کے کلیاتی ضابطہ (Basic Principle)کو سامنے رکھ کر ایک نیا اسلوب پیش کرنے میں کامیاب رہے ۔
مثال کے طور سے محمد حسین آزاد جیسے مشعور مصنف یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں ’’ نئے انداز کے خلوت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں کہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہاں صندوق کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس موجود ہے (سید محمد نواب کریم، اردو تنقید حالی سے کلیم تک تخلق کا ر پبلی کیشنز دہلی ۱۹۹۳ء ص ۶۴)
کچھ یہی تاثر خواجہ الطاف حسین حالی کے یہاں بھی ملتا ہے ’’ زمانے کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہوگیا تھا اور جھوٹے ڈھوکلے باندھنے سے شرم آنے لگی تھی ، نہ یاروں کے ابھارنے سے دل بڑھتا تھا اور نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا (تنقیدی شعور ڈاکٹر عبد القیوم اعتقاد پبلی کیشنز ہاؤس ، اردو بازار ، جامع مسجد دہلی 1972ص 182)۔اس کے باوجود حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر اردو تنقید میں نئے زاویے متعین کئے ۔
حالی کے اس اس عظیم کارنامہ کے حوالہ سے سید مشتاق حصیری کا یہ دعوی مباحثہ چاہتا ہے ۔
’’ مشرقی ادب کو نکھارنے ، سنوارنے اور پروان چڑھانے میں حالی نے جو رول اد اکیا ہے ، وہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔حالی پرمشرق سے زیادہ مغرب کا اثر تھا کیوں کہ ترجمے کے واسطے سے حالی ، افلاطون، ارسطو، دانتے ، گوئٹے، ملٹن لارڈ میکالے اور فرارئڈ وغیرہ کے خیالات سے واقف ہوئے چناچنہ 1882میں شاعری پر ایک مقدمہ لکھنے کا جذبہ ان میں موجزن ہوا‘‘ ( اردو تنقیدسہ زاویے، اردو دنیا جنوری ۲۰۱۷ئء ص 52 )
مشرقی اور مغربی دونوں سے ماخذ سے استفادہ کرنا کوئی عیب نہیں ہے ۔غلطی یا خامی تو جب ہے کہ اس سے مر عوب ہو کر اپنا انداز فکر تبدیل کرکے محض مغربی اسلوب پیش کش کو اپنا لیا جائے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ حالی کے محذوف و مقصود کی بحث اور ان کے مطالعہ کائنات ، سادگی اور اخلاق ،سادگی اور اخلاق آموزی کو بجائے حالی انفرادیت سمجھنے کے اسے نقص کے زمرہ میں شامل کیا جائے ۔
حالی کے یہاں مشرق اور مغرب کے اس خوبصورت امتزاج کے ڈاکٹر عابد حسین معترف نظر آتے ہیں ، حالی نے اس مقدمہ میں فن شعر خصوصاً اردو شاعری کا وہ دستور العمل مرتب کردیا ہے جو شعر کہنے اور پڑھنے والوں کے لئے ہمیشہ شمع ہدایت کا کام دے گا (مضامین عابد، کتابی دنیا لمیٹڈ دہلی 1947ص 77)
کچھ اس طرح کے اعتراف پر مبنی اقتباسات ہمیں مولانا عبد السلام ندوی کی شعر الہند اور کلیم الدین احمد کی کتاب اردو تنقید پر ایک نظر میں بھی پرھنے کو ملتی ہے ۔مولانا ندوی نے حالی کے مقدمہ کو فن تنقید کا بہترین نمونہ خیال کیا ہے تو کلیم الدین نے حالی کو اردو تنقید کا بانی اور بہترین نقاد قرار دیا ہے ۔ اس پس منظر میں ہمیں بہت سے تنقید نگار حالی کی تنقید کرتے نظر آتے ہیں بہر حال جن خطوط پر عہد حاضر کے نقاد وں کے حالی کو پرکھنے کا جو معیار مقرر کیا ہے وہ عصر حاضر کے تناظر میں ابھی مزید بحث ومباحثہ کا محتاج ہے ۔ خاص طور سے حالی پر تنقید اور علامہ شبلی کی تنقید توصیف و اعتراف پر مشتمل اقتباسات کو اس پس منظر میں سمجھنے کے بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے خواہ آب حیات ہو یا مقدمہ شعرو شاعری یا شعر العجم ہو یا موازنہ انیس و دمیر انھیں موجودہ بدلتے علمی معیار اور فارسی اور عربی ادبیات سے دور ہوتی نسل کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھ کر پرکھنے کی ضرورت ہے ۔
آج کا بڑا سانحہ یہ ہے کہ نہ املا کا لحاظ، نہ تلفظ درست نہ معنی آفرینی کا خیال چند بندھے ٹکے اصول اور کچھ خوبصورت متاثر کن الفاظ سے سجا کر تنقید کی پوری عمارت کھڑی کردی جاتی ہے ۔ایسی عمارت کا ہلکی تیز ہوا میں کیا انجام ہو گا ہم سب واقف ہیں اس کا واحد حل یہ ہے کہ اردو اساتذہ کی تقرری کرتے وقت علم مجلس ،زبان دانوں کی صحبت ، صحیح تلفظ اور درست املا کو ضروری امتحانات کے ساتھ لازم کیا جائے ، ورنہ استفادہ کرنے کے بجائے استفادہ حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جائے گی اورزبان و ادب کا وہی حال ہوگا جو علوم مشرقیہ کا ہوا ہے ۔طلباء کی گھٹتی تعداد کو ہم کتنا بھی روزگار سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کریں کم ہوتے معیار اور گرتی علمی صلاحیتوں کے نکتہ کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔
مشہور نقاد جناب شمس الرحمان فاروقی نے اس صورتحال کو اردو کے لئے ناموافق حالات کا پیش خیمہ بتایا ہے وہ لکھتے ہیں ’’آج ہماری زبان پر کڑا وقت پڑا ہے اور اس کی وجہ سیاسی یا سماجی نہیں بلکہ خود ہم لوگوں کی سہل نگاری اور ہم میں غور وتحقیق کی کمی ہے آج اردو پڑھنے والے کم نہیں ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے ۔اور یہ بھی غلط ہے کہ اردو پڑھے ہوئے شخص کو معاش نہیں ملتی۔ ہما را اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اچھے پڑھانے والے نہیں ہیں ۔ ہم سے ہر ایک کو جیسی بھی ہو ٹوٹی پھوٹی ڈگری حاصل کرلینے اور پھرتلاش معاش کے لئے جوڑ توڑ میں لگ جانے کی جلدی ہے ۔ آج کل ہماری یونیورسٹیوں میں جن موضوعات پر تحقیق ہو رہی ہے اور جس طرح کی تحقیق ہورہی ہے اس میں بھاری اکثریت فلاں کے حالات اور کارنامے قسم کی ہے ۔ اور ا س سے بڑھ کر اب کم حقیقت اور زندہ لوگوں کے کارناموں کے الگ الگ پہلوؤں پر تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں ۔اس سلسلہ میں فاروقی صاحب آگے لکھتے ہیں ’’کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں تحقیق کی یہ صورتحال ہمیں سنجیدگی سے درون بیٹی اور خوداحتسابی کا تقاضہ کرتی ہے لیکن مجھے خوف ہے کہ ہمارے اساتذہ اور ارباب جل و عقدان اصطلاحوں سے واقف نہیں ‘‘ (ادبی تحقیق کے تقاضے ،شمس الرحمان فاروقی ،اردو دنیا جنوری 2017،ص 15)
ہم اس بے باک تجزیہ میں صرف اتنا اور اضافہ کرکے اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ مذکورہ مباحث میں عربی اور فارسی صلاحیت والے اردودانوں کی بھی مناسب نمائندگی بحال کی جائے تاکہ کم از کم املاء اور تلفظ کی غلطیاں ہمیں روز دیکھنے اور پڑھنے کو نہ ملیں۔
ضض