کیا مودی کو کسان دشمنی راس آئے گی؟

0
218

عبدالعزیز
26 جنوری کی ٹریکٹر ریلی کے بعد حکومت نے کسان اندولن کو بدنام کرنے اور کچل دینے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن حکومت اپنے منصوبے میں ناکام و نامراد رہی۔ حکومت کا ہر منصوبہ اور ہر تدبیر الٹی ثابت ہوئی۔ کسان اندولن پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوگیا ہے۔ مغربی اتر پردیش کے بہت سے اضلاع میں اندولن مضبوط نہیں تھا لیکن 28 جنوری کی رات کو جب غازی پور سرحد پر دو ہزار سے زائد پولس کی موجودگی میں بی جے پی کے دو ایم ایل اے نند کشور گرجر اور سنیل شرما کی قیادت میں ڈیڑھ دو سو غنڈے اور بدمعاش اندولن پر بیٹھے کسانوں پر حملے کر رہے تھے ۔ نعرے بازیوں اور پتھراؤ سے کام لے رہے تھے اسی وقت کسان رہنما راکیش ٹکیت کے جذبات برانگیختہ ہوگئے اور ان کے جذبات کو جب حد سے زیادہ ٹھیس پہنچی تو جذباتی تقریر کرتے ہوئے رو پڑے۔ ان کے آنسوؤں کا گرنا تھا کہ تحریک میں نئی زندگی پیدا ہوگئی۔ چاروں طرف سے لوگ رات ہی میں غازی پور بارڈر کی طرف آنے لگے۔ اس کے بعد کھاپ پنچایت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلی مہاپنچایت ہوئی اس کے بعد پنچایت پر پنچایت یوپی اور ہریانہ کے اضلاع میں ہونے لگی جہاں ہزاروں لاکھوں لوگ جمع ہونے لگے ہیں۔ ہریانہ کی مخلوط حکومت کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے حکومت کے ہوش ٹھکانے آجانا چاہئے تھا اور عقل کے ناخن لینا چاہئے تھا مگر حکومت پاگل پن کا شکار ہوگئی ہے۔ حکومت اور کسان کے درمیان شکوک و شبہات اور نفرتوں کی جو دیوار تھی اسے گرانا چاہئے تھا مگر گرانے کے بجائے اسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے لگی۔ جہاں جہاں کسان‘ اندولن پر بیٹھے ہوئے ہیں خاص طور پر غازی پور بارڈر پر وہاں سیمنٹ اور کنکریٹ اور بالو کی مدد سے سیسہ پلائی دیوار بنائی جارہی ہے اور خار دار تار اور کیل کانٹے لگائے جارہے ہیں۔ ایسی قلعہ بندی عام طور پر ملک کی سرحدوں پر دشمن سے بچنے اور ان سے دفاع کیلئے کی جاتی ہے۔ کسانوں کو دہشت گرد، ماؤوادی، خالصتانی اور پاکستانی بتاکر پہلے ہی سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کے بعد اس میں تیزی آگئی۔کسانوں کی اندھادھند گرفتاری ہونے لگی۔ صحافی اور سیاست دانوں کے خلاف ملک دشمنی اور غدارِ وطن کے دفعات پر مشتمل ایف آئی آر درج کئے جانے لگے۔ تقریباً ایک ہفتہ سے پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس شروع ہوا۔ بجٹ پیش ہونے سے پہلے اور اس کے بعد اپوزیشن کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتا رہا کہ کسانوں کے اندولن اور کسانوں کے خلاف کالے قانون پر بحث و مباحثہ کیا جائے مگر حکومت تیار نہیں ہوئی۔ کسان اندولن سے توجہ ہٹانے کیلئے دوسرے مسائل پر راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں سوال و جواب کے سیشن شروع کئے گئے جس کے باعث اپوزیشن نے پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیا۔
گزشتہ روز (3فروری) راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے کسانوں کی تحریک کی تاریخ پیش کی کہ کس طرح مغلوں، انگریزوں کے دور میںکسانوں نے اندولن کئے اور ان میں سے کوئی بھی حکومت ان کو روک نہیں سکی بلکہ ہر حکومت کو ان کے مطالبات پورے کرنے پڑے۔ آخر میں انھوں نے راکیش ٹکیت کے باپ مہیش ٹکیت کی سربراہی میں بوٹ کلب کے کسان اندولن کا ذکر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اسی مقام پر کانگریس کسانوں کے اجتماع کا انعقاد کرنے والی تھی۔ دونوں کا دن ایک ہی تھا۔ کانگریسی حکومت نے جگہ بدل لی اور کسانوں کے اجتماع کو ہونے دیا۔غلام نبی آزادی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر وہ یہ قانون واپس لے لیتے ہیں تو ان کا سر نیچا نہیں ہوگا۔ کانگریسی لیڈر نے تاریخی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کسانوں سے جنگ آزمائی کسی بھی حکومت کو راس نہیں آتی۔ موجودہ حکومت کو بھی راس نہیں آئے گی۔ نریندر مودی اپوزیشن لیڈروں کی تقریر سنتے رہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ حالانکہ کل جماعتی کانفرنس میں انھوں نے بیان دیا تھا کہ کسان وزیر زراعت مسٹر تومر کو جب بھی فون کال سے بیٹھک بلانے کی بات کریں گے حکومت فوراً تیار ہوجائے گی۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان محض ایک فون کال کی دوری ہے۔ کسانوں نے وزیر اعظم کے اس بیان کا جو جواب دیا ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ گرفتار ہیں ان کی فوراً رہائی ہو۔ جن کے خلاف ایف آئی آر دائر کئے گئے ہیں وہ اٹھالئے جائیں۔ ان مقامات سے جہاں اندولن کاری بیٹھے ہوئے ہیں ، وہاں سے کیل کانٹے ختم کئے جائیں اور دیواریں منہدم کی جائیں۔ لال قلعہ پر جو ناخوشگوار واقعہ ہوا غیر جانبدارانہ اس کی انکوائری ہو۔ کسانوں نے اپنے بیان سے بتا دیا کہ کسان اور حکومت کے درمیان کتنی گہری کھائی پڑگئی اور کتنی دوری ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ ایک جملہ باز حکومت جملہ بازی سے مسئلہ کو حل نہیں کرسکتی جب تک وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرتی رہے گی کھائی گہری ہوتی جائے گی اور دوریاں بڑھتی جائیں گی۔ تصادم اور کشمکش کا ماحول ایسا پیدا ہوگا کہ واپسی ناممکن (No Poinat of Return) ہوجائے گی۔ گزشتہ روز کسانوں کے سب سے بڑے لیڈر راکیش ٹکیت نے ہریانہ میں مہاپنچایت کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’گدی واپسی‘ کی بھی تحریک شروع کی جاسکتی ہے۔ کسان لیڈر کی اس تنبیہ اور وارننگ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔
کسان تحریک کی عالمی سطح پر گونج: کسان تحریک قومی تحریک سے عالمی تحریک میں تبدیل ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ مشہور امریکن پاپ سنگر ریحانہ نے جس کاپورانام “Robyn Rehanna Fenty” ہے جس کے ٹوئیٹر فال اوورز 14 کروڑ سے زیادہ ہیں اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’کسان تحریک کے بارے میں ہم لوگ کیوں نہیں بات کریں جب حکومت بات نہیں کر رہی ہے‘‘۔ اس ٹوئٹ پر ماحولیاتی تبدیلی کے کارکن گریٹا تھمبر، امریکی نائب صدر کی بھانجی مینا ہیریس اور لبنانی امریکی ماڈل میاں خلیفہ نے بھی کسانوں کے حق میں ٹوئٹ کیا ہے۔ حکومت ہند کی وزارت خارجہ کے ترجمان کو بھی اپنے رد عمل کا اظہار کرنا پڑا۔ شاید مودی حکومت کو یہ احساس نہیں ہورہا ہے کہ برطانیہ میں پارلیمنٹ کے کچھ ممبران اور امریکہ کے سینیٹ کے ارکان بھی کسانوں کی تحریک کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔ آخر حکومت ہند کیا اس پوزیشن میں ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کے رد عمل کا جواب دے اور یہ کہے کہ یہ ہندستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ دنیا ایک گاؤں اور ایک محلہ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جہاں بھی ظلم و زیادتی ہوگی ہر انصاف پسند اور انسانیت دوست اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کئے بغیر نہیں رہے گا۔ جولوگ گالیوں سے مثبت رد عمل کا جواب دے رہے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس سے کسانوں کے اندولن میں کمزوری نہیں مضبوطی آئے گی اور جو لوگ دنیا کے دیگر علاقوں میں کسانوں کی تحریک کی حمایت کر رہے ہیں ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہندستان کی حکومت کو معلوم ہے کہ کشمیر کے خصوصی اختیارات سے محروم کیا گیا تھا تو حکومت اس وقت ہندستانی پارلیمنٹ کے ممبران کو کشمیر جانے نہیں دے رہی تھی، لیکن بیرون ممالک کے بہت سے ممبران پارلیمنٹ کو کشمیر بلاکر کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔ اس وقت حکومت اندرونی معاملات میں مداخلت کی بات نہیں کر رہی تھی ۔ اب جو لوگ کسان اندولن کے حق میں بات کر رہے ہیں حکومت ان کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بتا رہی ہے۔ ہمارے ہی ملک میں تسلیمہ نسرین نے جو اپنے ملک سے فرارہوکر پناہ لی ہے اکثر و بیشتر ملکی معاملات میں بیان جاری کرتی رہتی ہیں۔ ایک غیر شہری یا ایک غیر ملکی کے اس بیان کو ملکی معاملات میں مداخلت نہیں بتایا جاتا محض اس لئے کہ وہ حکومت کے حق میں بیان دیتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتی ہے۔ حکومت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ کسان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ ہندو بھائیوں کے نظریات کے مطابق ’اَن داتا‘ کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف جو پورے ملک کو اناج اور غلہ سپلائی کرتے ہیں۔ رات دن کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ایسے جفا کش اور محنتی لوگوں کو دہشت گرد یا غدارِ وطن بتانا کتنی بڑی حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے۔ اس حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کے اندر سوجھ بوجھ ہوگی۔ کسانوں کے ساتھ دشمنی نہ ملک کو راس آئے گی نہ حکومتِ وقت کو راس آئے گی۔
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here