اویسی کی جماعت کو مغربی بنگال اسمبلی الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لینا چاہئے؟

0
132

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


عبدالعزیز
جمہوریت میں ہر فرد اور جماعت کو حصہ لینے کا حق ہے لیکن جو جماعت مذہب اور ذات پات کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرتی ہے اور کسی خاص فرقے یا ذات کو اپنا نشانہ بنا تی ہے خون خرابے کے ذریعے الیکشن لڑتی ہے اسے آئینی اور اخلاقی لحاظ سے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔جمہوریت کی خرابیوں اور آئینی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا تے ہوئے بھاجپا اپنی مدر آرگنائزیشن آر ایس ایس کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہی ہے جس سے ملک خون خرابے اور ہر طرح کے بحرانی دور سے دوچار ہے۔ بی جے پی ایک زمانے تک ایک اچھوت جماعت سمجھی جاتی تھی کوئی جماعت بھی اس کے ساتھ الحاق کیلئے تیار نہیں ہوتی تھی، کانگریس کی غلط پالیسیوں اور خونریز فسادات کو روکنے میں زبردست ناکامی اور ایمرجنسی نافذ کرنے کی وجہ سے ساری سیاسی جماعتوں نے جے پرکاش نرائن کی سر براہی میں کانگریس کے خلاف محاذ آرائی کی اور بدقسمتی سے اس محاذ میں جن سنگھ جو بعد میں نام بدل کر بی جے پی ہوگئی۔ اس سے اس انسان اور مسلمان دشمن جماعت کو ایک قدم آگے بڑھنے کا موقع مل گیا، اس کے لوگوں نے نام بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ لیا۔
ایک موقع پر وی پی سنگھ کی سربراہی میں جب کانگریس ہٹانے کی تحریک شروع ہوئی تو اس وقت بھی اسے مل گیا اس کے ذریعے اسے دوبارہ ہاتھ پاؤں پھیلا نے کا موقع ہاتھ آگیا۔ پہلے اس کی تیرہ دن کی حکومت ہوئی ایک دوجماعتوں کے سوا کسی نے ساتھ نہیں دیا مگر میں بائیس جماعتوں نے اس فرقہ پرست پارٹی کا ساتھ دے دیا۔ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں حکومت بنی۔ ہندوتو کے ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کیا دستور بدلنے کیلئے نظر ثانی کمیٹی بنا دی گئی۔ بہت کچھ اسی طرح آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کرنا چاہا لیکن مخلوط حکومت ہونے کی وجہ سے کوئی ایجنڈا پورا نہیں ہوا۔میں شائیننگ انڈیا کے نام واجپئی نے الیکشن لڑا مگر کامیابی نہیں ہوئی کانگریس کی حکومت میں کرپشن اور دیگر کمزوریاں ا بھر کر سامنے آئیں جس کی وجہ سے بی جے پی نے پہلے انا ہزارے کی تحریک کے پس پردہ رہ کر کانگریس کی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا اور اپنے اندر سے ایسے شخص کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا جو میں گجرات کے اندر مسلمانوں کا قتل عام کیا جس کی وجہ سے وہ فرقہ پرستوں اور مسلمان دشمنوں میں ملک بھر میں سب سے آگے ہوگیا۔ دنیا میں بھی بدنام زمانہ ہوا۔کوئی ملک اس کو اپنے یہاں اسرائیل کے سوا ویزا دینے کیلئے تیار نہ تھا۔میںاورمیںجوکچھ ہوا، اس سے ساری دنیا واقف ہے .
اسد الدین اویسی اور ان کی جماعت :… جماعت کا نام ’مسلم مجلس اتحاد المسلمین‘ ہے؛ حالانکہ کہ حیدر آباد کے لوگ دو بھائیوں کی جماعت کہتے ہیں اور بعض ڈھائی آدمیوں کی جماعت بتا تے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے بہنوئی جماعت کے خزانچی ہیں۔ ان کو آدھا آدمی گنتے ہیں۔ ان تین اشخاص کے علاوہ کسی کی جماعت میں چلتی نہیں۔ اسد الدین اویسی کے چھوٹے بھائی اکبر الدین اویسی کی تقریر اور گفتگو توگڑیا سے ملتی جلتی ہے۔ چند ماہ پہلے اکبر الدین اویسی نے ہندو بھائیوں کو للکارا تھا کہ اگر چند گھنٹوں کیلئے فوج اور پولیس ہٹا لی جائے تو ہم مسلمان ہندوئوں کو مزہ چکھا سکتے ہیں۔ یو ٹیوب میں ان کی یہ تقریر سنی جاسکتی ہے آج بھی محفوظ ہے۔ اسد الدین اویسی نے اپنے بھائی کی تقریر کی۔ مذمت کرنے کے بجائے پہلے تو بی جے پی کے لوگوں کی گالی گلوج والی تقریر وں کا حوالہ دے کرjustify کرنا چاہا۔ جب اس سے کام نہیں چلا تو انہوں نے نیوز چینلوں پر بیٹھ کر کہا کہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے جو فیصلہ آئے گا ہمیں منظور ہوگا۔ ان کے مہاراشٹر کے ایک ایم ایل اے وارث پٹھان نے بھی اکبر الدین اویسی جیسی تقریر ممبئی میں کی جس کا حوالہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران دیا۔ بعد میں پٹھان نے معافی مانگی اور چند دنوں کے بعد ایک تقریب میں گنپتی بپا کی جے کا نعرہ بھی لگایا۔ ممبئی کے مسلمانوں کے اعتراض کرنے پر معافی بھی مانگی۔اسد الدین اویسی پڑھے لکھے آدمی ہیں بیرسٹر ہیں بحث ومباحثہ میں دلائل کے ساتھ تقریر کرتے ہیں۔ سوالوں کا جواب بھی اچھے انداز سے دینے کی کوشش کر تے ہیں مگر غیر داعیانہ طریقے سے جس سے دماغ کو تو متاثر ضرور کرتے ہیں مگر دل شاید ہی کسی کا متاثر ہو تا ہے تو تو میں میں( Toto) سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ الیکشن میں تقریر بالکل فرقہ پرستانہ قسم کی ہوتی ہے جس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچتا ہے، اسی لیے بی جے پی کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی پارٹی ہر الیکشن میں حصہ لے کجریوال تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امیت شاہ اور اسد الدین اویسی میں راز ونیاز کی باتیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ میم کو بی جے پی کی بی ٹیم بھی کہتے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی ان کو مالی تعاون بھی کرتی ہے۔ میرے خیال سے یہ سب باتیں الزام تراشی اور بہتان تراشی کے سوا کچھ نہیں لیکن یہ بات سو فیصد صحیح ہے کہ بی جے پی ان کی پارٹی کے وجود کو اپنے لیے رحمت سمجھتی ہے اور پورے طورپر کوشش کرتی ہے کہ وہ ہر الیکشن میں حصہ لیں تاکہ پولرائزیش ہو اور وہ جماعتیں جو بی جے پی کو ہرا سکتی ہیں۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہار جائیں۔ مہاراشٹر کے اسمبلی الیکشن میں میم کو دوسیٹوں پر کامیابی ملی مگر کانگریس کو پچیس سیٹوں پر ہرانے میں کامیاب ہو ئی۔ بہار میں پانچ سیٹوں پر کامیاب ہوئی مگر دس بارہ سیٹوں پر بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔
اب بنگال کا رخ کیا ہے۔ چار پانچ مہینہ الیکشن کو رہ گیا ہے۔ اویسی صاحب کا یہاں فلاح بہبود کا کیا کام ہوا ہے جس کی بنیاد پر وہ الیکشن لڑیں گے؟ صرف مسلم فرقہ پرستی کا سہارا لیں گے۔ اس سے بی جے پی کوپولرائزیش میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بنگال میں آتے ہی جھوٹ کا سہارا لیا۔ عباس صدیقی صاحب کے پورٹل کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ترنمول کانگریس بی جے پی کو نہیں عباس صدیقی صاحب روک سکیں گے؟ میرے خیال سے ابھی تک کا سب سے بڑا جھوٹ ہے اور حقیقت کے خلاف ہے پیر زادہ صاحب پنچایت تک کا الیکشن بھی نہیں لڑے ہیں۔ فرقہ پرستی سے دوچار سیٹیں میم کے نام پر جیت بھی گئے جس کا امکان ایک فیصد بھی نہیں ہے تو بی جے پی کو دوسیٹوں سے مات دے سکیں گے؟ ہاں بی جے پی کو دس پندرہ سیٹوں پر آسانی سے جتا سکیں گے، اس سے مو صو ف سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا آپ مسلمانوں کیلئے بنگال تشریف لا رہے ہیں یا سنگھ پریوار کے لئے؟
عباس صدیقی صاحب اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ نور سے بنے ہیں۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے جو زمین وآسمان میں بھی نہیں سما سکے گا۔ قرآن مجید کے بھی سرا سر خلاف ہے۔ دو سرا جھوٹ اس سے کم بڑا نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ جو ان کے جلسہ میں نہیں شریک ہوگا وہ کافر ہوجائے گا۔ یہ دونوں باتیں انہوں نے تقریر میں کہی ہیں۔ جو لوگ سننا چاہتے ہیں ویڈیو میں محفوظ ہے سن سکتے ہیں۔ ان کی آمدنی نذرانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ایک باغی مرید پر نظم کہی ہے، ملاحظہ ہو:
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن!
ہم کو تومیسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
ایک باغی مرید دل کی بڑھاس نکالتے ہوئے کہتا ہے کہ ہماری غربت کا یہ عالم ہے کہ ہمیں مٹی کا دیا بھی نصیب نہیں لیکن ہمارے چندے اور ہماری نذر نیاز سے پلنے والے پیر صاحب کے ہاں اجالے ہی اجالے ہیں ۔
Not a rushlight for us,—in our Master’s Fine windows electric lights blaze!
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
ایک سادہ لوح مرید خواہ دیہاتی ہو یا شہری مسلمان ہر جگہ کا بھولا بھالا ہوتا ہے وہ کبھی بھی ان جھوٹے پیروں کے اجلے لباس کے پیچھے چھپی پیرؤں کی چالاکیاں نہیں سمجھ پاتا وہ تو بس آنکھیں بند کرکے انکی پوجا کرتا ہے ۔
Town or village, the Muslim’s a duffer— To his Brahmins like idols he prays.
نذرانہ نہیں، سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
نام نہاد پیر اپنے مریدوں سے جو نذرانے وصول کرتے ہیں وہ گویا مہاجن بیٹھے ہیں ہیں جو بھولے بھالے مریدوں کو دونوں ہاتھوں لوٹ رہے ہیں ۔
Not mere gifts—compound interest these saints want, In each hair?shirt a usurer’s dressed,
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
یہ پیری مریدی ان کو میراث میں ملی ہے یہ وہ کوے ہیں جو عقابوں کے نشیمن سنبھالے ہوئے ہیں ۔
Who inherits his seat of authority Like a crow in the eagle’s old nest
مضمون طویل ہوتا جارہا ہے آخری بات یہ کہنا ہے کہ ایسا جھوٹ کیا مسلمانان بنگال کو راس آئے گا۔میرے خیال سے محتر م اسدالدین اویسی کی مٹی پلید ہو یا نہ ہو بنگال کے مسلمانوں کی مٹی ایسے پیر سے ضرور پلید ہو جائے گی۔ اللہ بنگال کے مسلمانوں پر رحم فرمائے اور ہر بلا سے محفوظ رکھے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here