عبدالعزیز
مسلمانوں کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ اسلام کو ترک کرچکے ہیںیا اس سے منحرف ہوگئے ہیں تو شاید بہتوں کو اتفاق نہ ہو لیکن جس بات پر اتفاق ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام سے دور ہوچکے ہیں ۔ یہ بات سب کیلئے نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریت کیلئے کہی جاسکتی ہے۔ دوری کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بہت سے لوگ تو بہت دور ہوچکے ہیں، ان کیلئے دوری کا لفظ کافی نہیں ہوسکتا ہے۔ ان کیلئے انحراف یا مخالفت کا لفظ موزوں اور مناسب ہوسکتا ہے۔ مسلمانوںکی سوسائٹی یا معاشرہ میں رہتے ہیں مگر ان کو یہ معاشرہ کاٹ کھاتا ہے، یہ اس سے برگشتہ ہیں، مجبوراً شادی بیاہ مسلمانوںمیں ہی کرتے ہیں۔ یہ خدا و رسول کو بھی مانتے ہیں مگر مسلمانوںکی سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ اس کی کئی وجہیں ہیں ۔ ایک وجہ تو یہ ہے اللہ اور رسول کی دشمنی ان کے دل میں ہوتی ہے۔ یہ کبھی کبھی خاص موقع یا مجلس میں اس کو ظاہر کرتے ہیں جہاں ان کی پذیرائی ہوتی ہے یا کم سے کم مخالفت میں شدت نہیں ہوتی۔ ایک صاحب نے ایسے لوگوں کیلئے ایک موقع پر کہاکہ مسلمانوں کے معاشرہ کی کمزوری دیکھئے کہ ایک شخص نہ خدا کو مانتاہے نہ رسول کو تسلیم کرتا ہے مگر اس سے یا اس کے خاندان میں شادی بیاہ کرنے میں اکثر مسلمان پس و پیش سے کام نہیں لیتے مگر ایک شخص خدا کو مانتا ہے مگر رسول کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتا، اس سے یا اس کے خاندان میں مسلمان ہر گز شادی بیاہ نہیں کرتا ہے۔میں نے ان سے کہاکہ آپ جو فرما رہے ہیں اس میں حقیقت ہے مگر مسلمان دو وجوہ سے ایسا کرتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں سے مسلمان سے بہت دور رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کی جڑ کھودتا ہے۔ دشمنوں کے ساتھ مل کر دشمنی کرتا ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے مگر ایک نئے نبی کو بھی مانتا ہے جسے انگریزوں نے انگریزی حکومت سے جہاد کو کالعدم کرنے کیلئے کھڑا کیا تھا۔ وہ انگریزی حکومت یا ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کا وفادار تھا اس نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے کہ ’’اس نے ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کی مدافعت اور حمایت میں اتنی کتابیں، کتابچے اور پمفلٹ لکھے ہیں کہ پچاس الماریوں میں بھی نہیں سماسکتے‘‘۔ اس کے ایک شعر کا مصرعہ ’’آئیں گے نبی کرینگے جنگوں کا التوا‘‘۔
علامہ اقبالؒ نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو 21جون 1936ء میں ایک خط میں ان کے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا۔ خط کا آخری پیرا گراف ملاحظہ ہو:
“I myself have little interest in theology, but had to dabble in it a bit in order to meet the Ahmadis on their own ground. I assure you that my Paper was written with the best of intentions for Islam and India. I have no doubt in my mind that the Ahmadis are traitors both to Islam and to India.”
میری ایک کتاب ’’قادیانی مسلمان نہیں ہیں؟‘‘ اس نکتہ کو سمجھنے میں مزید معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کے خلاف ہزاروں کتابچے اور کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان کے متعلق زبردست آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھیں ایک مسلم ریاست نے اپنی پارلیمنٹ میں ایک ماہ مسلسل بحث و مباحثہ کے بعد ایک قانون بنایا جس کی رو سے انھیں غیر مسلم قرار دیا۔ (پروفیسر غفور احمد صاحب نے جو پارلیمنٹ کے اجلاس کی بحث میں حصہ لیا تھا، ان کا ایک مضمون میری مذکورہ کتاب میں شامل ہے ، بحث کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے)۔
جو لوگ خدا اور رسول کو نہیں مانتے کسی دوسرے فلسفہ یا نظریہ اور تحریک کے حامی ہیں وہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ وہ اسلامی نظام کی جگہ اپنے نظام کو لانا چاہتے ہیں۔ وہ حکمت اور مصلحت سے کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمان ان سے زیادہ دور نہیں ہوتے۔ وہ خدمت خلق کے کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
جو لوگ مسلک پرست ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو پکا اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں مگر تعصب پسند ہوتے ہیں۔ اسلام کا تحفظ یا پھیلاؤ ان کو مطلوب نہیں ہوتا۔ یہ اپنے مسلک کے تحفظ اور فروغ کیلئے ہی کام کرتے ہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا کہ ’’مجھ سے ایک ایسی غلطی ہوئی ہے ، اللہ مجھے شاید ہی معاف فرمائے۔ وہ غلطی یہ ہے کہ میں زندگی بھر اپنے مسلک کا تحفظ کرتا رہا اسلام کا تحفظ نہیں کرسکا‘‘۔ علامہ کشمیری اتنے بڑے عالم تھے کہ علامہ اقبال جیسی شخصیت بھی اکثر وبیشتر ان سے مشورے لیا کرتی تھی۔ ان کو بھی اپنی زندگی میں ہی احساس ہوگیا تھا کہ اسلام کی حفاظت کرنی چاہئے۔ کسی خاص مسلک یا نکتہ فکر کی حفاظت نہیں کرنی چاہئے۔ مسلک پرستی در اصل تنگ نظری کی دلیل ہوا کرتی ہے۔اسلام قرآن و سنت پر مشتمل ہے۔ اس کی حفاظت اور تبلیغ اعلیٰ ظرفی اور وسیع النظری پیدا کرتی ہے۔ مسلک پرستی کی ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ وہ اہل مسلک کو باہر کی دنیا ے بے خبر رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔ حق و باطل کی کشمکش بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
دین کا محدود تصور بھی مسلمان کو دین کی اصلیت اور حقیقت سے دور رکھتا ہے۔ جب تک حق شناسی پورے طور پر پیدا نہیں ہوتی حق سامنے نہیں آتا۔ حق نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس لئے اس طرح کے لوگوں کیلئے حق کیلئے مالی اور جانی قربانی دینے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ تحقیق و تنقید حقائق تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے لیکن جب تحقیق کی عادت ختم ہوجائے اور صحتمند تنقید کی جگہ تنقیص لے لے تو پھر علم کی روشنی بھی غائب ہوجاتی ہے۔ پھر انسان اندھیرے میں بھٹکتا چلا جاتا ہے۔ جو خود اندھیرے میں بھٹک رہاہو وہ کیسے دوسروں کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کا کام کرسکتا ہے؛ جبکہ اسلام روشنی ہے اور کفر و شرک، فسق و فجور تاریکی ہے۔
لقمۂ حرام بھی انسان کو سچائی کے قریب جانے سے روکتی ہے۔ جو لوگ اکلِ حلال سے دور رہتے ہیں وہ اسلام یا حق پرستی سے بھی کوسوں دور رہتے ہیں ؎ ’پراگندہ روزی پراگندہ دل‘۔ نفس پرستی بت پرستی سے بھی خراب چیز ہے۔ اسی لئے اللہ کے رسولؐ نے ایک جہاد سے واپسی پر فرمایا کہ ’’تم جہادِ اصغر سے جہاد اکبر کی طرف واپس آچکے ہو۔ زمین میں جتنے بت پوجے جاتے ہیں ان میں سب سے بڑا بت نفس پرستی ہے‘‘۔ نفس پرستی کے خلاف جہاد کرنا جہاد اکبر ہے۔ انسان کیلئے یہ بھی آسان ہے کہ وہ پہاڑوں کی چٹانوں سے ٹکرا جائے۔ یہ بھی آسان ہے کہ جنگل کے شیروں سے پنجہ آزمائی کرے۔ یہ بھی آسان ہے کہ دریاؤں کی موجوں سے متصادم ہوجائے مگر یہ آسان نہیں کہ نفس کی ادنیٰ سی خواہش کا آسانی سے مقابلہ کرلے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068