’عائشہ ‘ کا گنہگار کون ہے؟ ہم سب ہیں- Who is the culprit of ‘Ayesha’? We are all

0
100

Who is the culprit of 'Ayesha'? We are all

 

( اختر جمال عثمانیاحمد آباد کی ایک بیٹی عائشہ کا ایک ویڈیو دو روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ۔اس ویڈیو کو رکارڈ کرنے کے بعد اسکی والدین سے بات ہوئی انکی منتوں کے باوجود اس نے سابر متی ندی میں کو د کر خود کشی کر لی ۔ ویڈیو دیکھ کر سنگدل سے سنگدل شخص بھی اپنی آنکھوں میں آنسو آنے سے روک نہیں سکتا ۔
عائشہ کی ویڈیو سے اسکی پل پل بدلتی ذہنی کیفیات اور اسکے کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔چہرہ کبھی مسکراتا ہوا لگتا ہے اور کبھی غم میں ڈوبا ہوا لگتا ہے۔ الفاظ ہیںجو ا ن مظالم کے گواہ ہیں جو ہمارے مکر کی وجہ سے صدیوں سے جاری ہیں اور صدیوں تک جاری رہیں گے۔’’ ہیلو اسلام علیکم میرا نام عائشہ عارف خان ہے میں جو کچھ بی کرنے جارہی ہوںاپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہوںاس میں کسی کا دبائو نہیں ہے اب بس کیا کہیں سمجھ لیجئے اس میں خدا کی دی زندگی اتنی ہی تھی اور مجھے اتنی زندگی بہت سکون والی ملی اور ڈیر ڈیڈ ،کب تک لڑو گے۔کیس واپس کر لیجئے عائشہ لڑائی کے لئے نہیں بنی ۔ پیار کرتے ہیں عارف سے اسے پریشان تھوڑے ہی کریں گے۔ اگر اسے آذادی چاہئے ٹھیک ہے وہ آذاد رہے۔چلو اپنی زندگی تو یہیں تک ہے میں خوش ہوں کہ میں اب اللہ سے ملوںگی انھیں کہوںگی میرے سے غلطی کہاں رہ گئی ماں باپ بہت اچھے ملے، دوست بھی بہت اچھے ملے پر شائد کہیں کمی رہ گئی مجھ میں یا شائد تقدیر میں، میں خوش ہوں سکون سے جانا چاہتی ہوں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے، اے پیاری سی ندی تو مجھے اپنے میں سما لے‘‘ خاندان والوں کے خبر دینے پر پولیس اور فائر بریگیڈ نے لاش سابر متی ندی سے بر آمد کی۔
در اصل عائشہ کی شادی 2018 میں راجستھان کے جالور کے عارف خان سے ہوئی تھی شادی کے چند روز بعد ہی اسے سسرال والوں نے جہیز کے لئے پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ایک لڑکی اپنا گھر، ماں باپ، بھائی بہن سب کو چھوڑ کر ساری امیدیں اپنے شوہر سے وابستہ کر لیتی ہے ۔ لیکن یہاں اسکے شوہر عارف خان کے لئے پیسہ مقدم تھا۔ اسنے پیسے کے لالچ میں عائشہ کو میکے لے جا کر چھوڑ دیا۔ اتنا ہی نہیں واپس لے جانے کی شرط کے طور پر ڈیڑھ لاکھ روپئے کی مانگ کی۔عائشہ کے والد سلائی کا کام کر کے کسی طرح گذر بسر کرتے ہیں کسی نہ کسی طرح انتظام کر کے مانگ پوری کر دی۔ ایک بار پیسے مل جانے کے بعد عارف اور اسکے گھر والوں کا لالچ اور بڑھ گیا ۔ کچھ عرصے کے بعد عارف دوبارہ پھر میکے پہونچا گیا۔ لیکن اب مزید پیسوں کا انتظام کرنا ان کے لئے ممکن نہ تھا۔ مجبور ہو کر انہوں نے مقدمہ دائر کر دیا۔ عارف نے بات کرنی بند کر دی ۔ان حالات سے عائشہ بہت دل برداشتہ تھی عارف سے بات کرنے پر جواب ملا ’’ جا کے کہیں مر جا اور اس کی ویڈیو بھیج دینا‘‘ اور عائشہ نے یہی کیا۔
اب خودکشی کی مذمت کی جارہی ہے اور بعد از مرگ حرام موت مرنے کے بجائے ہمت سے حالات کا سامنہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ اسے جہنمی قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ جہنم اور جنت بھیجنے کا اختیار اللہ تعلیٰ نے کسی مولوی کو نہیں بخشا ہے اس مظلوم لڑکی کو زرا اپنی بیٹی یا نہن تصور کر کے سوچیں۔ کیا تب بھی آپ اسے جہنم بھیج کر مطمئن ہو جائینگے۔ عائشہ اکیلی نہیں تھی۔بلکہ ایسی ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ہیں جو خود کشی نہیں کرتیں۔ جہنم میں زندگی گذارتی رہتی ہیں۔ اس واقعہ کے بعد بلکہ اس طرح کے ہر واقعے کے بعد جہیز کی مذمت کا سیلاب آ جاتا ہے ہر آدمی جہیز کا مخالف نظر آتا ہے دور دور تک جہیز کی قبیہ رسم کا حماییی نہیں ملتا۔ تو پھر یہ جہیز کی طلبگار مخلوق کیا خلا سے نازل ہوتی ہے۔قطعی نہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اول درجہ کے منافق ہیں ۔ بیٹے کی شادی طے کرتے ہوئے جہیز کا امکان نظر میں رکھتے ہوئے بات چیت کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ شادیوں کی بات چیت کے دوران نہایت شاطرانہ جملے جو کہ اکثر بولے جاتے ہیں ’’ ہمیں کچھ نہ چاہئے ، آپ اپنی خوشی سے جو دینا چاہیں،، یا ہمیں کچھ نہ چاذہئے لیکن باراتیوں کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ رہے۔ ان جملوں کے مخفی مطالب سمجھتے ہوئے لڑکی کے گھر والے ساری جمع پونجی کے علاوہ عزیزوں دوستوں یا بینک سے قرض لیکر ، گھر اور جائداد گروی رکھ کر یہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ لڑکیاں عائشہ جیسی بدقسمت ہوتی ہیں کہ شادی کے بعد پھر مطالبات شروع ہوجاتے ہیں۔
جب عام مسلمان عموماََ اور علماء اکرام خصوصاََ اسلام سے قبل ایام جہالت کا ذکر کرتے ہیں۔ تو عورتوں کی حالتِ زار کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ عورتوں پر کیا کیا ظلم کئے جاتے تھے۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور نہایت فخر کے ساتھ یہ دعوہ بھی کہ اسلام نے عورتوں کو کیا کیا حقوق دئے ہیں۔ اور حضورﷺ کی ایک۔ دو۔ یا تین بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی بشارت کا تذکرہ بھی۔ بلا شبہ اسلام نے عورتوں کو بہت سارے حقوق دئے ہیں۔ انکا ڈنکا بھی خوب پیٹا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے ۔ ، دیانت داری نظر نہیں آتی۔ عورتوں کو شوہر کی اطاعت اور فرمابرداری پر آمادہ رکھنے کے لئے آیاتِ قرآنی اور ہدیثِ مبارکہ کی تشریح میں زمین آسمان ایک کر دئے گئے کہ مرد وں کی بالا دستی پر سوال نہ اٹھیا جا سکے لیکن جب بات عورتوں کے حقوق کی آئی تو یہ تیزی مفقود رہی۔ واضح مثال طلاق اور خلع کی ہے۔ عیسائیوں اور اہلِ ہنود میں شادی ایک ایسا رشتہ ہے جسے کسی حالت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اسلام نے مردوں اور عورتوں کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ اگر شادی کے بعد ان میں آپس میں گذارہ کرنا نا ممکن ہو جیسے کہ نا پسندیدگی کی وجہ سے یا مزاجوں کے نا ملنے کی وجہ سے یا کسی جسمانی نقص کی وجہ سے۔ مردوں کو طلاق دینے کا حق دیا گیا جس کا وہ صدیوں سے بے دریغ استعمال کرتے آ رہے ہیں۔وہیں عورتوں کو ایسی صورت میں جب کہ ساتھ رہنا ممکن نہ ہو خلع کا اختیار دیا گیا تھا لیکن اس عمل کو بھی شوہر کی مرضی کے طابع کر کے عورت کے لئے نا ممکن بنا دیا گیا تنازعات میں گھر ی عورتوں میں سے شائد ہی کسی نے اس اختیار کے بارے میں سنا ہو۔ نتیجہ یہ ہے معمولی سی وجہ پر شوہر بیوی کو طلاق دینے کا اختیار رکھتا ہے جب کہ ہر ظلم سہتے رہنے کو مجبور عورت بنا شوہر کی مرضی کے خلع بھی نہیں پا سکتی۔ چنانچے تنازعے کی صورت میں شوہر بیوی سے تعلق بھی نہیں رکھتا، اور طلاق بھی نہیں دیتا، خود دوسری شادی کر کے نئی زندگی شروع کر دیتا ہے اور عورت کی زندگی جہنم بن کر رہ جاتی ہے۔
بارات اور جہیز مشرکانہ طرزَ عمل ہونے کے باوجود علماء نے ان کی مخالفت میں وہ شدت کبھی اختیار نہیں کی جیسی معمولی قسم کے مسلکی اختلافات کو لیکر ظاہر کرتے رہے۔ بلکہ حضرت فاطمہؑ کے جہیز کا تذکرہ بار بار کر کے جہیز جیسی قبیہ رسم کو جواز بھی فراہم کرتے رہے۔ جبکہ حضور ﷺ نے نہایت معمولی قسم کی کچھ گھریلو استعمال کی کچھ چیزیں دی تھیں ۔ یہ بھی یاد رکھا جانا چاہئے کہ حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد سے ہی حضرت علیؑ بھی حضورﷺ کی کفالت میں تھے۔ علماء اکرام کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ یہ مشئلہ سماجی ہیں۔ برصغیر میں جہا ں بہت سی مشرکانہ رسمیں مسلمانوں میں رائج ہیں وہیں شادی سے متعلق رسمیں بھی ہیں۔لیکن اب مفت کی دولت کے لالچ نے لڑکیوں کے لئے سسرال کو ایک ڈرائونا خواب بنا دیا ہے۔
٭٭ ٭
بارہ بنکی mb.9450191754,

ٓٓ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here