اہلِ تیتربٹیرکب جاگیںگے؟ آسام کے مدارس اسکولو ں میں ضم!

0
117

[email protected] 

  1. 9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هی


صوفی انیس درانی
۲۰۱۹ء میں سنگھ پریوار مشتملہ بھاجپا اپنی حکمت عملی کے تحت رام مندر کا ڈھول بجاکر کھلے عام بھارت کے غیر مسلموں کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہم ہی رام مندرتعمیر کرواسکتے ہیں۔ ہم ہی عدلیہ سے رام مندر کی تعمیر کا جواز حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ مندر کے بنانے تلک سے بھاجپا کوایسی کامیابی دلوائی جو خودانھوںنے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچی تھی پھر ۲۰۲۰ میں ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم نے کرونا کے درمیان ایودھیا میں رام مندرکی نیو رکھی ساری دنیا دیکھ کر حیران تھی کہ ایک سیکولر ملک کا وزیراعظم کس طرح مورتیوں کے سامنے ڈنڈوت کررہا ہے مندرکی بنیاد پر کس طرح باربار ماتھاٹیک رہا ہے۔ بے شک وزیراعظم کو اپنے دھرم کے مطابق پوجاپاٹ کرنے کی آزادی ہے لیکن وزیراعظم کی پوجا کے پل پل کوٹیلویژن کے ذریعے دنیا بھرمیں دکھانا قابل اعتراض ہے ایک سیکولرازم میں یقین رکھنے والے آئین کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم کا پوجاکرنے کی تشہیرکرناآئین کی توہین ہے۔
۲۰۲۰ء بھی اب رخصت ہوچکا ہے اور ایک خطرناک دور ساتھ لے کر ۲۰۲۱ بھارت میں داخل ہوچکا ہے لیکن مسلمان تمام خطرات اورہونے والے دوررس واقعات سے لاپرواہ اپنے آپ میں مست ہے ۔ بھاجپا مجموعی طورپر بھارت میں اپناایک ووٹ بنک توبناہی چکی ہے مگر اس کی کاوشیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ کس طرح سارے ملک میں ہندتوا کو اتنا فروغ مل جائے کہ تمام علاقائی جماعتیں ختم ہوجائیں اوران سب کا ووٹ بنک بھاجپا کو منتقل ہوجائے۔ اور اس طرح وہ پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا اورراجیہ سبھا میں اپنے بل بوتے پر اتنی اکثریت حاصل کرسکیں کہ بھارت کے آئین میں تبدیلی کرکے اسے سیکولر کے بجائے ہندوراشٹر بناسکیں۔ اس سمت میں اترپردیش کا الیکشن بہت اہم ہے کیونکہ وہاں سے پارلیمنٹ کے ۸۰ ممبر منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس لئے اس وقت سنگھ پریوار اوربھاجپا کی پوری توجہ اترپردیش کی طرف ہے جہاں ۲۰۲۲ء میں اسمبلی کے انتخابات ہوںگے جواس بات کا فیصلہ کریںگے کہ ۲۰۲۴ میں بھاجپا پھر برسراقتدار آئے گی یا نہیں؟ لیکن یہ بات طے ہے کہ یوپی میں ۲۰۲۲ کے اسمبلی انتخابات پرامن نہیں ہوںگے ۔ ہوا کارخ جاننے کے لئے لگ بھگ دوماہ قبل بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد کے در (اس مسجد کی پشت پر ملحق کاشی وشوناتھ قدیمی مندرہے) کاشی وشوناتھ کے عقیدت مندوں کے لئے کھولنے کی درخواست مقامی عدالت میں دی گئی تھی اورآنجہانی راجیوگاندھی جی کے بنائے ہوئے ایکٹ (۱۹۴۷ آزادی کے وقت جوبھی تاریخی عبادت گاہ تھی اس کی مذہبی نوعیت میں کسی قسم کی بھی تبدیلی نہیں کی جائے گی) کوکالعدم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ عدالت نے اس قانون کے سبب اس شرانگیزدرخواست کو مسترد کردیا۔ اب مدعیان اس فیصلہ کے خلاف اونچی عدالت میں اپیل کریںگے۔
اگرآپ ٹیلی ویژن سیریل دیکھتے ہیں توذرا غور سے دیکھیں کہ سیریلوں کے کرداراب ایک دوسرے کو رام رام بولنے کے بجائے جے شری کرشنا بولتے ہیں۔ ایک یا دوسیریلوں کی بات نہیں کررہاہوں بلکہ بیشتر میں کردارجے شری کرشنا بولتے نظر آتے ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ تین متنازعہ تاریخی عبادت گاہوں ایودھیاکی بابری مسجد،بنارس کی گیان واپی مسجد اورمتھرا کی عیدگاہ (جسے کرشن جنم بھومی کہا جاتاہے) کو لے کر ہی یہ مندرمسجد کی گندی سیاست شروع کی گئی تھی۔ بھگوان رام اورکرشنا بھگوان جیسی مقدس شخصیتوں کو سیاست کا آلۂ کار بنایا جارہاہے۔ یہ ایک خاص مقصد کے تحت ہورہاہے۔ بھگوان رام کا مندر اب توبن ہی جائے گا اوراس کا سہرا مودی اورسنگھ پریوار کے سرباندھا جاچکا ہے اب یہ اترپردیش کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ دیکھو ہم نے رام مندر بناکر ہی دم لیا۔ اوراگرہماری پشت پرکھڑے رہے توہم کرشن جنم استھان بھی بناکر ہی چھوڑیں گے۔
یہ بات مسلمان اچھی طرح سمجھ لیں کہ اترپردیش کا الیکشن جیتنے کے لئے یہ شرپسند کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں ۔ یہ الیکشن جیتنے کے لئے اور ہندوووٹ کو ہندو توا ووٹ بنانے کے لئے خون خرابے سے بھی گریز نہیں کریںگے۔ اس کی شروعات CAAسے ہوچکی ہے جس طرح مسلمانوں کو پرامن احتجاج کی سزادینے کے لئے ان کی گرفتاریاں کی گئیں جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ ان پر جرمانے عائد کئے گئے وہ سب مسلمانوں کو عاجز کرنے کے لیے تھے تاکہ وہ حکومت کے کسی بھی قدم کے خلاف اُف نہ کرسکیں۔ تازہ ترین آرڈیننس شادی کے لئے مذہب بدلنے کے لئے دباؤ ڈالنے اورزبردستی کرنے کے خلاف بل بھی فوراًہی نافذ کرنے کی اہم وجہ ماحول کو زہر آلود کرنا ہے۔ ورنہ چند ماہ بعد اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس بلاکر بھی قانون بنایاجاسکتا تھا۔ مگروقت کی کمی کے باعث انہیں عجلت ہے اس لوجہاد کا ذکر بعدمیں کروںگا پہلے ایک اوراہم بات کا تذکرہ آپ سے کرلوں۔ ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم نے اپنے سرمیں درد کرنے والے پروگرام ’’من کی بات‘‘ میں گذشتہ ہفتے سکھوں کے ان گروصاحبان کا تذکرہ کیا جو مسلم حکمرانوں کے ہاتھ جنگ آزما رہے تھے۔مغل حکمرانوں کی جنگی قوت بہت زیادہ تھی کیونکہ وہ اس وقت بھارت کے ایک بہت بڑے حصہ پر حکمراں تھے۔ سکھ فوج عوامی لحاظ سے کم ہونے کے باوجود بہت بہادری سے لڑتی رہی یہ سب ہماری بھارتی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ جسے ہمارے سکھ بھائی اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن مودی جی کا اس میں نمک مرچ لگاکر بیان کرنے کا مقصدموجودہ بہت اچھے سکھ مسلم تعلقات میں بدمزگی پیدا کرنا ہے ۔ انھوں نے متاثرہ گروصاحبان اور ان کے صاحبزادگان کا نام لے کر سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ اسی اور گذشتہ اتوار کو اترپردیش کے وزیراعلی نے یہ سب دہراتے ہوئے اترپردیش کے تعلیمی نصاب میںسکھ گروصاحبان کے صاحبزادگان کی شہادت کو شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اورصاحبزادگان کے شہیدہونے کی تاریخ ۲۷دسمبر کو ’’صاحبزادگان دیوس‘‘ کے طورپر منانے کااعلان کیا۔ تاکہ اترپردیش کے سکھوں اورمسلمانوں میں جو ایک دوسرے کے تئیں دوستی اورباہمی اتحاد تشکیل پارہاہے اسے ختم کیا جاسکے ۔
ان چالبازیوں کا تذکرہ میں نے اس لئے کیا تاکہ مسلمانوں پر اچھی طرح واضح ہوسکے کہ کہاں کہاں ان کے لئے خندقیں کھودی جارہی ہیں اگرایک خودساختہ انصاف پسند اورسب کے ساتھ کادعوی کرنے والا یوگی جی یہ بھی عوام کو بتاتے کہ گرونانک جی مہاراج کے ساتھ ہرپل رہنے والے بزرگ سیدمیاں میر مسلمان تھے ۔ توگولڈن ٹمپل کی بنیاد ان کے ہی ہاتھوںسے رکھوائی گئی تھی اوریہ بھی بتاتے کہ جب پنجاب کی سرزمین مغل فوج نے ایک گروصاحب کے لئے تنگ کردی تھی تواپنی جان اپنی عزت اورحکومت پر داؤں لگاکر مالیر کوٹلہ کے مسلم نواب نے گروصاحب کو پناہ دی تھی ۔ سکھ بھائیوں نے بھی اس شاندار روایت کی پاسداری کی جب سارا پنجاب فرقہ وارانہ فسادات میں جل رہاتھا۔ مسلمان اپنے شہروں اورگاؤں چھوڑکر بھاگ رہے تھے اس وقت مالیر کوٹلہ کی طرف کسی نے ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا۔ یہ ہے بھارت کی اصلی شان اصلی تہذیب۔ ہندتوا اسی تہذیب کو مٹانے کے لئے ہی پالا گیا ہے۔
اترپردیش حکومت الیکشن سے پہلے پہلے اترپردیش میں امن وقانون کی دھجیاں اڑا دینا چاہتی ہے ۔اس سلسلے کی شروعات غیر قانونی تبدیلی مذہب کو ممنوع قرار دینے والی اینٹی لوجہاد آرڈی نینس (عارضی حکم نامہ) سے کی ہے۔ ایک ایسا حکم نامہ جو تہذیب تمدن، سماجی زندگی انسان کی بنیادی خوشیوں کی نفی کرتاہے ۔ ایک ایسا حکم نامہ جو تہذیب وتمدن ،سماجی زندگی اورانسان کی بنیادی خوشیوں کی نفی کرتاہے۔ ایک ایسا حکم نامہ جوغیرانسانی توہے ہی مگراس آئین کے بھی خلاف ہے جس کا حلف لے کر اترپردیش مدھیہ پردیش اتراکھنڈاور مرکزی حکومت کے سربراہ مودی جی نے عہد ے کا حلف لیا تھا۔ پوری طرح غور کرنے کے بعد نہ صرف میں بلکہ کثیر تعداد میں ماہرین سماجیات دانشور ادیب عدلیہ کے سابق جج صاحبان (نچلی سطح کے جوڈیشنل افسران سے لے کر سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان حکم نامہ کو خلاف قانون اورخلاف آئین قرار دے رہے ہیں بلکہ پہلی مرتبہ ایک نئی بات ہوئی ہے جو خاصی امید افزا ہے کہ ۱۰۴سابق اعلی افسران پرمشتملہ آئی اے ایس اورآئی ایف ایس نے وزیراعلی اترپردیش کو لکھا ہے کہ یہ قانون ایک فرقے (مسلمانوں) اورعورتوں کے خلاف استعمال کیاجارہاہے۔ اس بہت ہی اہم خط میں ان افسران نے بہت سخت زبان میں اس سرکاری حکم نامہ کو واپس لینے کے لیے کہاہے جس کو ہم سب کے سمجھنے کے لئے اینٹی لوجہاد قانون کہہ سکتے ہیں۔ اس خط میں کئی مثالیں دے کر واضح کیا گیا ہے کہ کس طر ح یہ قانون بھارتی شہریوں کے لئے ظلم کا آلۂ کاربن گیا ہے ان میں ایک مثال مراد آباد سے گرفتار کی گئی غیر مسلم خاتون کی دی ہے ۔ اس عورت کے ساتھ گاؤں والوں کی مارپیٹ کے دوران پولیس خاموش تماشائی بنی رہی انجام کار اس کا حمل ضائع ہوگیا۔ اس گروپ نے جو مختلف اوقات میں ملک کے انتہائی اعلیٰ عہدوں پر ذمہ د اریاں نبھا چکا ہے ۔ پولیس کی زیادتیوں کا ذکرتے ہوئے لکھا ۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ۔ ان شرمناک ظالم کی جن کو نوجوان بھارتیوں پر ڈھایا گیا۔ ان کا مقصود صرف یہ تھا ہ وہ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری کی طرح جینا چاہتے تھے۔ اس خط پرسرخیل کے دستخط کرنے والوں میں سابق خارجہ سکریٹری شیوشنکر میمن وجاہت حبیب اللہ ٹی کے اے نائر کے سجاتا راواور وزیراعظم کے سابق سیکورٹی مشیر ۷۸ایس دولت سب نے دستخط کنندگان کی طرف سے لکھا کہ ہمارا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کہ ملک کے آئین میں دیئے گئے تحفظات کا ہم دفاع کریں۔ انہوںنے خط میں مزید لکھا کہ اترپردیش نفرت کی سیاست انتشار اور احمقانہ طرز فکر کا مرکزبن چکا ہے ۔سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ امن وقانون نافذ کرنے والی مشینری آپ کی حکومت کے عملی تعاون سے کسی ایسی سکریٹ (خفیہ) پولیس کی باقیات محسوس ہوتی ہے جوکسی بھی آمرانہ اور جابرانہ حکومت میں پائی جاتی ہے۔ یہ سب وہ نمائندہ شخصیات ہیں جو دنیا بھر کے پریس میں جگہ پاتی ہیں۔ مودی جی کو اگر ذرہ برابر بھی بھارت کی عزت اور وقار سے لگاؤ ہے توانہیں یوگی جی سے اس قانون کواپس لینے کیلئے کہیں (اگرچہ وہ کبھی ایسا نہیں کریںگے)
اس کالم کا مقصدسوئے ہوئے مسلمانوں کو جگانا اور ۲۰۲۱ء میں انھیںآنے والے مصائب سے آگاہ کرناتھا۔ جو قومیں آنے والے مصائب کے لئے خودکوتیار نہیں کرتیں وہ بالآخرغلام بن جاتی ہیں۔ آپ کے مدارس پر پابندیاں لگنی شروع ہوگئیں۔ آسام اس کی واضح مثال ہے۔ جہاں مدارس کو اسکولوں میں ضم کرنے کا حکم نامہ ہوچکا ہے۔ اترپردیش تمام مذہبی اداروں، مساجد وگردواروں، خانقاہوں اور مدارس پر سرکاری ضوابط اورکڑی نظر رکھنے والے بل پر کام کررہا ہے۔ اس میں اگر ہندومذہبی مقامات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ لیکن ہندومذہبی اداروں پر نگرانی اس قسم کی ہوگی جیسے آج ہندتوا پر کی جاتی ہے وہ سب کچھ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔اورمسلم اداروں پرنگرانی اس طرح کی جائے گی جیسے مذہبی ادارے نہ ہوںبلکہ بھارت کے دشمن ہوں۔مدارس ودیگرمذہبی اداروں کے خلاف اتنا سنگین قانون بنایا جارہا ہے ۔ مگرمدارس کے اجارہ دار، بیوپاری خاموش ہیں۔ مدارس کے فارغین خاموش ہیں۔ درگاہوں اورخانقاہوں کے کچھ بزرگوار ضرور بولے ہیں مگربہت سدویانہ انداز میں ۔ مسلمان حیران ہیں کہ اقامت دین کے ٹھیکیدارجماعت اسلامی، جمعیتیں ،مسلم پرسنل لابورڈ، امارت شریعہ ، ملی کونسل، (مشاورت تومفلوج حالت میں بستر مرگ پر لیٹی ہے اور سرکار کی امداد کا آکسیجن استعمال کرکے زندہ ہے ) کیوں سکتے کے عالم میں ہیں۔ کیا جب تمام مدارس میں تالے لگ جائیںگے تب یہ اہلِ تینتر بٹیر جاگیں گے۔ ؟
ساقی یہ خموشی بھی توکچھ غور طلب ہے
ساقی ترے مہ خوار بڑی دیر سے چپ ہیں
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here