ابراہیم نثار اعظمی
دل لگی دل کی لگی سے شروع ہوتی ہے اس لیے آج ہمارے درمیان دل کی لگی زیادہ ہوتی ہے جس کے توسط سے دل لگی پیدا ہوجاتی ہے ایک جانور کسی دوسرے جانور کو زخمی حالت میں دیکھتا ہے تو وہ جانور اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا درد اپنا درد ،گمان کرنے لگتا ہے اپنے خیمے کی خبر گیری کرتا ہے. آرام سے زندگی گزارنے کی بھر پور سعی کرتا ہے ۔کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ لیکن اگر اس کی ذات پر کوئی شکاری ،حملہ کرتا ہے ۔تو وہ جانور آپے سے باہر ہوجاتا ہے اپنے تمام جانوروں کو جمع کرکے اس شکاری کوختم کرنے کی تدبیریں کرتا ہے۔ تاکہ آ س کے جور و ظلم سے نجات حاصل کر سکے۔ بالآخر وہ سب آپس میں مشورہ کرتے ہیں اتحاد واتفاق قایم کرکے اتنی بڑی تعداد میں جمع ہو کر اس شکاری کو اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں.
حسیات جانوروں کے مقابلے میں انسانوں کے پاس زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن انسان اتنا بے حس کیوں نظر آتا ہے۔ دوسرے کے درد کو اپنا درد کیو ںنہیں سمجھتا ۔شاید کہ اشرف المخلوقات ہے.انسان کے جسم سے روح نکل جاتی ہے۔ تو وہ زندہ نہیں رہتا. لیکن اسی انسان کے دل سے انسانیت نکل جاے تو پھر انسان نہیں رہتا ہے. یہ بات بار بار کچوکے لگا رہی ہے۔ اس ملک میں چاروں طرف صرف انسانوں پر ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے. مگر کوی بھی کسی کا پرسان حال نہیں. چاہے وہ مرد ہوں،یا عورت. بوڑھے ہوں یا جوان. جاہل ہو یا عالم ہندو ہو مسلمان ہو سیکھ ہو عیسائی ہو بدھ ہو لنگایت ہو یہ سب انسان ہیں ۔لیکن یہ ہی انسان ہر طرف انسان کے سب سے بڑے دشمن نظر آتے ہیں. کسی بھی بنیاد پر انسان کا قتل ہوتا ہے کسی ہندو یا مسلمان کا نہیں ہوتا ہے۔
قاتل بھی انسان ہیں ،مقتول بھی انسان ہیں ۔تماشائی بھی انسان ہیں. اور قتل کرانے والے بھی. خوشی منانے والے بھی نوحہ کرنے والے بھی.۔ اس کے ساتھ ہی حکومت چلانے والے بھی انسان ہی ہیں.ہندوستان کی حکومت جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے ایک ایسی حکومت جو عوام کے فلاح و بہبود کے لئیے بنای جاتی ہے. لیکن یہاں پر عوام کو چھوڑ کر ہر چیز کی حفاظت کی جاتی ہے ۔کیونکہ عوام کا تعلق انسانی زندگی سے ہے. اس وقت ہندوستان میں جو حکومت چلای جاری ہے کہنے کو عوام کی حکومت ہے ۔مگر اس میں تو صرف جانوروں کو اہمیت دی جاتی ہے. مگر عوام کی جان کی کوی قیمت نہیں ہے. گویا ان کا خون پانی سے بھی سستا ہوگیا ہے. جو پورے ملک میں کہیں بھی کبھی بھی. کسی لمحہ بہت آسانی سے بہایا جاتا ہے. ہر طرف ہر گام پر انسانوں کے خون بہتے ہوئے نظر آتے ہیں کوئی خون کے آنسو روتا ہے تو کوئی انسان کا خون پی رہا ہے. عقل سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کیسی مخلوق ہے جو اپنے ہی جنس کے خون کی پیاسی ہے. یہ صفت تو جانوروں اور درندوں میں پائی جاتی ہے.
اگر اس طرح کے واقعات مسلسل ہوتے رہے ۔تو ایک دن ہمارے ہندوستان کا نقشہ بدل جاے گا ۔آنے والا کل ہمارے لئے باعث عبرت بنتا جارہا ہے.ظلم کی آندھی پہلے مردوں پر چلتی تھی. اس کے خشو خاشاک ختم ہونے کے بعد اب وہی بربریت عورتوں پر ہونے لگی. کیونکہ عورت سے تو لذت بھی حاصل کرتے ہوئے پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے. بعد میں اسی عورت کو میڈیا کے سامنے اپنی بیٹی. ماں. بہن بناکر مگر مچھ کے آنسو بہاے جاتے ہیں. کبھی کسی عورت کو سفر کے دوران ہوس کا شکار بنایا جاتا ہے ۔تو کبھی تعلیمی اداروں میں اپنی عزت بچانے کی کوشش میں احتجاج کرتیں عورتوں پر لاٹھیاں بھی چلوا دی جاتیں ہیں۔
ظلم اور جبر کی انتہا یہاں تک پہونچ گی کہ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ شہر جائیں گے. شہر میں بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے. سیاسی سماجی معاشی تعلیمی تہذیبی ثقافتی ہر میدان میں عوام پریشان نظر آتے ہیں.گھر میں بھی سکون کسی کو میسر نہیں ہے دل بہلانے کے ٹیلی ویژن دیکھتے تو ہر طرف شور برپا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔ کہیں مزہب کے نام لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہیں زات کے نام پر. تو کہیں گاے کے نام پر. اب یہ ہندوستان کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے. کسی کو بھی ایسے نازک دور میں آنے والی نئی نسل کی کوی فکر نہیں کی کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا. بے روز گاری کی یہ نوبت آ پہونچی ہے لوگ ڈگریاں لے کر مارے مارے پھر رہے ہیں. ایسے حالات میں بھی سیاسی لوگ اپنے ہتھکنڈے اپنانے سے بعض نہیں ارہے انہی بے روزگار نوجوانوں کو ساتھ لیکر اپنی سیاست کی روٹی سیکنے میں کوی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں. ہونا تو ایہ چاہیے تھا کہ ان. بے روزگار نوجوانوں کے لئے کوی ایسا راستہ نکالہ جائے جس سے ان کی زندگی میں آسودگی
حاصل ہوسکے. اگر صرف مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیا جاے تو صرف آنکھ سے اشک بہتے ہیں. وہ بھی صرف پیسے کی لالچ میں خدائی فیصلے توڑ مروڑ کر پیش کردیتے ہیں اور اسی کو وہ اپنا نصب العین سمجھتے ہیں.
ایک طرف حکومت کی مار ہے۔ تو دوسری طرف نام نہاد دینی ٹھیکیدار کی. عوام کے فایدے اور نقصان سے کسی کو سروکار نہیں. اور یہ ہماری حکومت کی پالیسی رہی ہے ان کی منشا کے مطابق سب فیصلے بھی ہورہے ہیں۔
یہ کیسا سماج ہے جس میں نااہلیت کے حامل لوگ سماج کی اصلاح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. بے پردہ خواتین اسٹیج پر پردہ کرنے کی تلقین کررہی ہیں. ایک جاہل بزنس مین تمام تعلیمی ادارے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کوزندگی گزارنے کا طریقہ سیکھا رہا. لوگ ان کی تقاریر سے دل چسپی لیتے ہیں۔ اور دوسروں کو سننے سنانے پر مجبور کرتے ہیں. چوبیس گھنٹے کام کرنے والا مزدور اپنے مالک سے جو کہ دن بھر آرام کرتا ہے اس سے ڈرا سہمہ رہتا ہے. ایک پان بیچنے والا اپنے گاہک سے دو سوپاری کم ڈال کر پانچ روپے کا پان دینے کے بعد اس کے نقصانات سے آگاہ کراتا ہے. ایک استاد ہے جو اپنے بچوں کے سامنے صرف اپنی ذاتی زندگی کو بیان کرتا ہے نہ کہ ان کے روشن مستقبل کی بات کرتا ہے. ایک فقیر ایک روپیہ کا سکہ زمین پر پھینک دیتا ہے. والدین کا اکلوتہ پیارا بیٹا جو کہ بہت لاڈو پیار کی زندگی بسر کرتا ہے. لیکن شادی کے بعد اپنے والدین کو بے سہارا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
. ایک بیوی شوہر کی تادیبی حرکت کو برداشت کرکے اپنے دو بچوں کو سنبھالنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔کیونکہ شوہر کسی دوسری عورت میں دلچسپی لینے لگتا ہے. ملک کا وزیراعظم اپنے بیوی کو چھوڑ کر پورے ملک کی عورتوں پر ظلم کرتا ہے. اور وزیروں کی بہن بیٹی کو اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے. اسکول جاتی ہوئی کم سن بچیوں کو لوگ ہوس بھری نگاہوں سے دیکھ کر آہ بھر تے ہیں. مجبور عورت دوسرے کے گھر صاف صفای کرنے والی اپنے مالک کے جبر و تشدد کو برداشت کرتی ہے یونیورسٹی اور کالج وغیرہ میں زیرے تعلیم لڑکیاں اپنے اساتذہ کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں.تو دوسرے جانب غریب اور مجبور طالب علموں سے اساتذہ رشوت لینا ضروری سمجھتے ہیں. سرکاری دفاتر میں کوی بھی عملہ بنا دس روپے کا نوٹ لیے ایک دستخط کرنے کو تیار نہیں. اس دفتر کے دروازے پر کھڑا چپراسی بھی بنا پیسے لیے کوئی بھی دستاویز میز تک نہیں پہونچاتا ہے. ایک بھائی اپنے دوسرے بھای کے کسی بھی کام کو بنا اجرت کرنے کو تیار نہیں ہوتا ہے.
یہ لوگ کہان جارہے ہیں کس راستے پر جارہے ہیں۔ کسی کو کچھ خبر نہیں کس جنگل اور بیاباں کے راہ پر گامزن ہیں جہاں سے واپسی کا امکان ممکن نہیں. لیکن وقتی طور پر ہر آدمی اپنے آپ میں خوش ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے کسی کا مال غصب کرلیا کسی کی جائیداد ہڑپ کرلی کسی کے خلاف چغلی کردی کسی پر الزام تراشی کردی تویہ ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے.
خواتین و حضرات اور حضرت انساں بڑی سمجھداری سے اپنے زہن و قلب کو استعمال کرکے زندگی گزاری جاے توسب کچھ حاصل ہے ورنہ کچھ بھی نہیں. جانوروں سے بھی بد تر ہم ہوچکے ہیں. لیکن اس کا ادراک و احساس نہیں۔ کیونکہ ہم کو صرف اپنے آپ کی فکر ہے ۔نہ تو سماج کی نہ والدین کی نہ پڑوسی کی.. نہ غریب مجبور مسکین کی. اور سب سے بڑی بات نہ اپنے اہل وعیال کے مستقبل کی. یہ اس ملک کی ناسازگار صورتحال اور وقت کی چیخ و پکار ہے۔ مگر حکومت وقت نے ان تمام آوازوں کو اپنے سیاسی حربہ سے دبا کے رکھ دیا ہے. اگر ہم کبھی بولنے کی یا اپنا حق مانگنے کی جرات بھی کرتے ہیں تو وہ ہمارے کھلے ہوئے منہ میں پیسوں کا ایک بنڈل ڈال کر منہ بند کرا دیتے ہیں.
سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اب تو مزہبی جماعتوں نے بھی انکے نقش قدم پر چلانا شروع کردیا ہے گو اب انکے نزدیک اسلامی تعلیمات کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے. ہرمسئلے کو رد کرکے حکومت کے فیصلے کے مطابق دیا جانے لگا ہے. آزادی ہر کوی حاصل کرنا چاہتا ہے اسلام بھی آزادی کی تعلیم دیتا ہے نہ کی کسی پر سختی کرنے کی. لیکن ہم اپنے ہاتھ پاؤں اور زبان سب اپنے کم ظرفی کی وجہ سے حکومت کو سونپ چکے ہیں. کہنے کو تو دین دار ہیں لیکن دجال کے سارے کارنامے انجام دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں. اب تو جلسے جلوس جو بھی احتجاجی مظاہرے کئے جاتے ہیں تو سب سے پہلے کمرہ مین اور فوٹوگرافی کرکے واٹسپ فیس بک پر لگا دیا جاتا ہے۔ مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ سیلفی بھی جاتی ہے. یہاں پر مقصد مظاہرہ زایل ہوکرکے شہرت میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔
کوی باد مخالف صدا بلند ہوتی ہے تو ہم اپنے گھر کے بند کمرے میں اس کے جواب میں ویڈیو اپلوڈ کر تے ہیں۔ اور اس میں پابندی یہ عاید کردی جاتی ہے. کہ اگر آپ پکے مسلمان ہونگے تو شیئر کریں گے۔ اور ایسا کریں گے تو ایک حج کا ثواب ملے گا.
اگر نہیں کریں گے تو آپکے گھر میں مصیبت آجائے گی. اس طرح کے لاابالی حرکات و سکنات سے اپنی تشہیر کرنے میں نہیں چوکتے ۔بعد میں یہ ہی لوگ اسٹیج پر کھڑے ہوکر مگرمچھ کے آنسو روئیں گے کہ مسلمانو ایک ہو جاو، وقت کی پکار ہے یہ وہی لوگ ہے جو واٹسپ فیس بک پر لوگوں کو جنت اور جہنم کی بشارت دیتے ہیں ۔گویا اب اور کوئی دینی فریضہ نہیں ہے ۔جس کو ادا کرنے سے ہمارے اعمال درست ہوجایں یہ سب انسان ہیں ۔اور سب کی الگ الگ پہچان ہے ا۔ور پہچان ایسی ہے کہ جو تا قیامت ختم نہیں ہوسکتی ہے. اللہ ہم سب کو کہنے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق دے. آمین……ختم شد
شاہین اکیڈمی ،لکھنو ۔
Also read