اردوا دب کے معروف خوش مزاج شخص خوشونت سنگھ کچھ پست قد لیکن انکی ادبی قد آور ی آسماں چھوتی تھی۔تبصرہ نگار ، ناول نگار ، افسانہ نگار ،صحافی اور اعلیٰ مزاج نقّاد جنکی تنقید میں بھی رہبری و رہنمائی پوشیدہ ہوتی ۔ خوشونت سنگھ مضحکہ خیز شوخ مزاجی ، زندہ دلی ، ذہنی وروحانی کیفیت کازندہ پیکر تھے۔مضمون کا آغاز انکی کچھ مشہور تخلیقات سے ہوتا ہے جو قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث تو ہوگا ہی علاوہ ازیں قارئین کو خوشونت سنگھ کی ذہنی کیفیت،انکی سوچ و فکر کا احساس بھی ہو جائے گا۔
شکوہ جواب شکوہ انگریزی میں : خوشونت سنگھ معروف شاعر فیض احمد فیض اور ڈاکٹر علامہ اقبال کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ دونوں کی شاعری کو ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے اسکی پرستش کرتے ،ڈاکٹر علامہ اقبال کی ایک عظیم ترین با فخر تخلیق ’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ جسکا دُنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چُکا ہے ۔خوشونت سنگھ کی اس مقبول ترین نظم کا انگریزی ترجمہ پیش ہے ۔ علامہ اقبال کے چاہنے والوں سے خوشونت سنگھ نے کافی داد و تحسین حاصل کی ۔ اس طویل نظم کی ایک ربا عی کا انگریزی ترجمہ بطور ایک مثال پیش ہے
نوع ِ انساں کو غلامی سے چھُڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسیا یا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے ہی گِلا ہے کہ وفادا ر نہیں
ہم وفادار نہیں‘ تو بھی تو دلدار نہیں
We blotted out the smear of falsehood from the pages of history
We freed mankind from the chains of slavery
The floors of your kaaba with our foreheads we swept
The Koran you sent us, we clasped to our breast
Even so you accuse us of lack of faith on our part;
If we lacked faith ,you did little to win our heart
پاکستان ایکس پریس : ۱۹۴۷ تقسیمِ ہند سانحہ نے خوشونت سنگھ کو ذہنی طور سے مفلوج کیا ۔لیکن جب ان میں پوشیدہ ادیب جاگ گیا اور اس سانحہ کے تمام واقعیات کو لفظوں میں باندھ کر اپنا صدمہ ،اپنا رنج ،غم ،غصہ اور اپنی سنجیدگی کے تمام جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے مشہور زمانہ اور مایہ ناب ’’ پاکستان ایکسپریس‘‘ کی تخلیق کی جسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی جو انکی زندگی کا سنگِ میل ثابت ہوا ۔۱۹۹۸ء میں اسی ناول پر مبنی ’ پامیل روکس‘ کی ہدایت کاری اور نرمل پانڈے‘موہن آغاشی‘ سمرتی مشرا‘ کی اداکار ی میں فلم بنی ۔حیدرآباد میں ایک کھُلاثقافتی مقام لاماکان میں اسی ناول کا حامل ’ ڈاکوٹی ‘ڈرامہ کی بنیاد رکھی اور اسے کھیلا بھی گیا۔اسکی مختصر کہانی کچھ اس طرح ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار جگت سنگھ یہ شرابی ضرور ہے لیکن اس کا ضمیر زندہ ہے۔جب اسے پتہ چلتا ہے کہ ایک گرہ ’ منو ماجرا‘ مسلم آبادی کو پاکستان لے جانے والی ٹرین ’پاکستان ایکسپریس‘ پر حملہ کرنے اور تمام مسلم مسافروں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنا ہا ہے ،ان کا مسلم ملزم بھی اس ٹرین سے سفر کر رہاتھا ۔ جگت سنگھ کا ضمیر جاگ اُٹھا اور وہ ،اپنے جبلت پر کام کرتے ہوئے اور ٹرین کو بچانے کے لئے اپنی جان پر کھیلتا ہوا اپنی قربا نی دے دیا اور تمام مسافروں کو بچا لیا۔ جگت سن سنگھ نے واضح کیا کہ انسان اپنی ظاہری شکل و شبات سے نہیں بلکہ زندہ ضمیر ،اسکی خیر سگالی،نیک خواہی سے اسکی شناخت ہوتی ہے۔
سچائی ، محبت اور ایک چھوٹی سی بد نظمی :یہ کتاب ہندوستان ٹائمز میں خوشونت سنکھ کے بطور صحافی تحریر کردہ ایک مشہور کالم سے ماخوز ہے جو خوشونت سنگھ کی ایک خود نوشت سوانح ہے۔ اس کتاب کی اشاعت اور اسکے رسم ِ اجرا ء کے لئے قارئین کو ایک طویل عرصہ انتظار کرنا پڑا ۔کیوں کہ۱۹۹۵ء میں اس ناول کے سنسنی خیز حصے کو اقتباس کے طور پر ’گاندھیوں اور آنندوں‘ کے اس باب کو شائع کیا گیا تو مینکا گاندھی نے محسوس کیا کہ یہ انکی انفرادی سوچ اود انکی آزادی پر حملہ ہے تو انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے خلاف قانونی حکم امتناعی دعویٰ کیا ۔کئی سالوں کی عدالتوں کے چکّر کاٹنے کے بعد آخر کا عدالت نے خوشونت کی اپنی پریس کی آزادی کو راست قرا ر دیا۔ اس طرح انکی خود نوشت سوانح کافی انتظار کے بعدیہ کتاب شائع ہوئی ۔
اچھا ،بُرا اور مضحکہ خیز ہُما قریشی کے اشتراک سے اسکی تحریر کی ۔ تقریباََ ایک صدی کی زندگی میں خوشونت زیادہ تر سرکاری تاریخی اشخاص کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا اور اس مجموعہ میں
جواہر لال نہرو، کرشنا مینن ، اندرا گاندھی، امریتا شیر گل ،بیگم پارہ، محمد علی جناح ، گولولکر، مدر ٹریسا، دھریندر برہمچاری،جرنیل سنگھ بھنڈرانوے،،جنرل ٹکہ خان، پھولن دیوی ،
گیانی جیل سنگھ، بھگت پورن سنگھ ان معروف ہستیوں کے اچھے، بُرے کاموں کو اپنے مضحکہ خیز انداز میں تحقیقی اور تفریحی سوغات قار ئین کو پیش کی ۔
غروب آفتاب کلب ، نواب برکت اللہ بیگ‘ پنڈت پریتم شرمااور سردار بوٹا سنگھ ان تینوں ۸۰ سالہ بزرگوں کی داستان ہے ۔یہ تینوں سن سیٹ کلب کی ممبر ہیں اور تقرباََ چار دہائیوں سے گہرے قریبی دوست ہیں اور روزانہ غروبِ آفتاب کے وقت لودی گارڈن میں ملتے ہیں ، متعدد متنازعہ موضوعات محبت ، مذہب ،جنسی تعلقات کے اسکینڈل پر کافی گفتگو بحث ہوتی ہے ۔خصوصی طور سے معاشرے میں بزرگوں کے بڑھتے مسائل ، معاشرتی پیچدگیوں، ان پر ہونے والے ستم ظر یفیوں کو سلجھانے کی کوشش اس میں کی گئی ہے۔
میری دہلیز پر موت:اس مجموعہ میں خوشونت سنگھ نے متعدد اشخاص کی حقیقی زندگی انکی زندگی کے چڑھاؤ اتار اور خصوصی طور ان تمام کی درد ناک اور افسوس ناکا موات کا کرب ،
؎آہ و فغاں اپنے خوشونتی انداز میںقلم بند کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹّو، ،سنجئے گاندھی، ایم او ماتھائی ،لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور اس میں مصنف کاایک پالتو جانور Alsatian سمبا بھی شامل ہے۔ ا ن تما م کی اپنی اموات کا المیہ اس میں بیان ہے ۔
میری زندگی میںخواتین :۱۹۹۵ء میں لکھی اس داستان میں ناقابلِ تردید حجم مصنف کی زندگی ،طرزِ حیات میں جن میں عالمی شہرت یافتہ ادبا و خاتون شعرا جنہوں نے اپنی ذات سے اپنے معاشرے کو ضیاء بخشی۔خصوصی طورسے پنجابی بے باک معروف شاعرہ امرتا پریتم کو خوشونت سنگھ کو اپنے ادب سے بہت قریب رکھا تھا۔جب امرتا نے ساحرؔ سے اپنے عشق کے اظہار کے لئے ایک مکمل کتاب ہی لکھ ڈالی اور جب اس کے عنوان کا مسئلہ آیا تو خوشونت سنگھ سے ا صلاح مانگی توخوشونت سنگھ نے اس کا عنوان’ ریوینیو اسٹمپ‘ یعنی ’’ رسیدی ٹکٹ‘‘ تجویز کیا ۔تسلیمہ نسرین سے بھی خوشونت سنگھ کافی متاثر رہے۔ان کے علاوہ خاتون سیاست دان،خاتون مصنفین، خاتون فلمی ستاروں کو شامل کیا ہے۔
خشونت سنگھ۲ فروری ۱۹۱۵ء میں پاکستان پنجاب کے ضلع خوشاب کے قر یبی گاؤں ہیڈالی میں اپنی آنکھیں کھولی۔ ان کا پیدائیشی نام خوشال سنگھ تھا ۔ یہیں سے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ ۳۲۔۱۹۳۰ تک انٹرمیڈیٹ آف آرٹس سینٹ اسٹیفن کالیج دہلی اور اسکے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے سرکاری کالیج لاہور چلے گئے۔ قانون کی تعلیم کنگز کالیج لندن سے ایل ایل ایم مکمل کر لیا۔خوشونت سنگھ پروفشنل وکیل کی حیثیت سے لاہور کے منظور قادر اور اعجاز حسین بتالوی کے چیمبرس سے شروع کیا۔
۱۹۴۷ء میں آزاد ہندوستان میں خارجہ سروس میں داخلہ لیا اور کینڈا کے ٹورنٹو میں حکومتِ ہند کے انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔بعد ازاںلندن اور اٹاوا میں چار سال ہندوستانی ہائی کمیشن کے لئے پریس اتاشی اور پبلک آفیسر رہے۔۱۹۵۱ میں آل انڈیا ریڈیو سے اپنے بہترین صحافی دور کا آغاز کیا۔ ۵۳۔۱۹۵۱ میں حکومت یند کے جریدے ’یوجنا‘ کی بنیاد رکھی ا ور اسمیں ترمیم کی ۔ ۱۹۵۴ سے ۱۹۵۶ کے درمیان پیرس میں یونیسکو میں ماس کمیونیکشن کے شعبہ میںاپنی ڈیوٹی انجام دی ۔۱۹۵۶ء سے انہوں نے ادارتی خدمات کا رُخ کیا ۔ہندوستان ٹائمز ،دی نیشنل ہرالڈ ، السٹریڈو یکلی میں برائے مدیر ِ اعلیٰ اپنا سکہ جما لیا۔
خوشونت سنگھ کی ادبی زندگی کی سوچ میںجب ابال آیا تو ادب میں ٔطبع کا خیال آیا اوراپنی تحریری تخلیقات کا دور کاآغاز کیا ۔خصوصی طور سے اپنی غیر جانبدارانہ ،مزاحیہ اندز سے قارئین کی جانب ایک مقنا طیسی کشش برقرا رکھی اور چشم ِزدن میں خوشونت سنگھ اپنی مقبولیت اور شہرت کا آسماں کو چھولیا۔
خوشونت سنگھ کو ۱۹۷۴ میں ہندوستان کے عظیم ترین فخریہ اعزاز ’’ پدم بھوش ‘‘ سے نوازہ گیا ۔لیکن ۱۹۸۴ء میں آپریشن بلیو اسٹار میں سکھوں کے قتلِ عام کے صدمہ،غم و غصہ میں انہوں نے اس پدم بھوشن اس اعزاز کو احتجاج کی صورت واپس کیا۔لیکن ۲۰۰۷ ء میں پدم وبھوشن اس اعزاز سے انہیں نوازہ گیا۔۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۶ء تک راجیہ سبھا کے فعال رکن رہے
خوشونت سنگھ ۲۰ مارچ ۲۰۱۴ میں اپنی دہلی کی رہائش گاہ پر ۹۹ سال کی عمر میں قدرتی وجوہات کی بنا انکا انتقال ہوا ۔ انہیں لودھی شمشان گھاٹ میں نذرِ آتش کیا گیا۔لیکن خوشونت سنگھ تدفین کے خواہاں تھے۔ انکی خواہش تھی دھرتی ماتا کا قرض اسے واپس لوٹا دیں۔ اس مقصد سے انہوں نے بہائیت سے درخواست بھی کی تھی ،لیکن بہائیوں نے کچھ شرطیں رکھی تھیںجو انہیں منظور نہیں تھیں ۔انکا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔خوشونت سنگھ کی خواہش کے مطابق ان کی خاک (استھیاں) انکے پیدائیشی گاؤں ہیڈالی ،ضلع خوشاب پنجاب پاکستان میں پہنچائی گئی۔
٭٭٭
امرتا پرتم نے خوشونت سنگھ سے ایک چُبتا ہوا سوال پوچھا کہ’’دولت اور شہرت ہمیشہ آپ کو آگے بڑھ کی ملی ہے لیکن اس پر معاشر کے ر دّ عمل کیا ہوتا؟
امرتا شہرت مجھے آگے بڑھ کر نہیں ملی لیکن دولت ضرور ملی ہے ۔میں اپنی وکالت بُری طرح ناکام رہا اور بیزار ہوکر ڈپلو مٹک سرروسیس سے بھی میں چھوڑ دیا میں۔ لوگ مجھ پر ہنستے رہے امتحان تو پاس نہیں ہوتا ، ادیب بننا چاہتا ہے ،امتحان تو اس سے کامیاب نہیں ہوتے اب کتابیں لکھا ۔خاص کر رشتہ داروں یہ تیز سوئیاں مجھے زخمی کر دیتیاو بس جدو جہد جاری رکھا اورانتظار وقت کا کرتا رہا۔