اردو جریدہ ’’تمثیل نو‘‘ – Urdu Magazine “Tamsheel No”

0
280

Urdu Magazine "Tamsheel No"

ڈاکٹر احسان عالم
’’تمثیل نو‘‘ دربھنگہ سے شائع ہونے والا اہم رسالہ ہے جس کے مدیر اعزازی ڈاکٹر امام اعظم (ریجنل ڈائرکٹر مانو، ریجنل سنٹر کولکاتا) ہیں۔ وہ بیحد فعال اور متحرک شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی دو درجن کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں اور ان کی شخصیت اور فن پر اب تک ۷؍ کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں۔ ان کی فعالیت کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ تصنیفات و تالیفات کی دنیا میں ایک طویل کارنامہ انجام دیتے رہیں گے۔ اس سے قبل بھی میں نے ’’تمثیل نو‘‘ کے مختلف شماروں پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ ایک بار پھر اس شمارے نے مجھے کافی متاثر کیا ہے ۔ اس لئے قارئین کی نذر اپنے تاثرات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
پیش نظر شمارہ میں ڈاکٹر امام اعظم کا اداریہ ’’مجھے کچھ کہنا ہے‘‘ میں ادبی و ثقافتی خبریں اور وفیات کئی صفحات پر مشتمل ہیں۔ یہ حصہ مطالعہ طلب ہے۔ اداریہ کے بعد امان ذخیروی نے حمد باریِ تعالیٰ اور عبدالوارث سفر نے نعت پاک تحریر کی ہے۔ صفحہ ۸۴ -۸۵ پر مولانا سیّد محمد ولی رحمانی صاحب کے دو خطوط شامل کئے گئے ہیں جو ڈاکٹر امام اعظم کے نام ہیں۔ دو اہم شخصیتوں مشرف عالم ذوقی اور اشرف گِل پر خصوصی پیشکش ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم کے نام چند مشاہیرِ ادب کے خطوط پر مبنی کتاب ’’چٹھی آئی ہے‘‘ (مرتب : شاہد اقبال، کولکاتا ) پر بھی ایک خصوصی پیشکش ہے جس میں چھ مضامین اور منظومات بھی ہیں۔ اس کے بعد دیگر نوعیت کے مضامین کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اشرف گل (امریکہ) کا انشائیہ ’’خدا حافظ‘‘ اور ’’ادب میں ملاوٹ‘‘ کے عنوان سے قیوم بدر کا ایک اچھا طنزیہ مضمون بھی شامل ہے۔ پروفیسر حسین الحق، ڈاکٹر عشرت بیتاب، ڈاکٹر محمد علی حسین شائق ، رئیس صدیقی ، سید انظارالبشر کے افسانے اور ڈاکٹر مظفر مہدی کے دو افسانچے ’’ڈرائونا سچ ‘‘اور’’ صاحب جی‘‘ بھی زینتِ شمارہ ہیں۔پیش نظر شمارہ میں شامل نظمیں، رباعیات، قطعات اور غزلیں بھی کافی متاثر کرتی ہیں۔ ’’نظر اپنی اپنی‘‘ عنوان کے تحت پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ، ابواللیث جاوید، پروفیسر عبدالمنان ، پروفیسر فاروق احمدصدیقی ، احسان ثاقب، نصر اللہ نصر ،ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ، ڈاکٹر محمد علی حسین شائق، ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی ، صفی الرحمن راعین (ایڈوکیٹ)، افروز عالم ، شاہد اقبال اور احتشام الحق کے تبصرے شامل اشاعت ہیں۔ ’’تمثیل نو‘‘ کے گذشتہ شمارہ پر ڈاکٹر محمد امین عامر کا منظوم تبصرہ نیز انوار الحسن وسطوی اور یاسمین خاتون کے منثور تبصرے بھی شامل ہیں۔ اخیر میں ’’راہ ر سم ‘‘ کے عنوان سے مشاہیر ادب کے خطوط ہیں۔
چند ایسے مضامین جن کے مطالعہ نے مجھے کافی متاثر کیا ہے ‘ کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار لازمی سمجھتا ہوں ۔
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے ’’مشرف عالم ذوقی کا آویزش بھراناول :مرگ انبوہ‘‘ کے عنوان سے ایک بہترین مضمون تحریر کیا ہے۔ پروفیسر ہرگانوی لکھتے ہیں کہ ’’نئی جہت، نئے رجحان اور نئے ماحول کے اثرات کو ناول کی زبان میں بیان کرنے کانام مشرف عالم ذوقی ہے۔ ادب اور آدمیت کے شعوری عمل کامکمل احاطہ کرنے کا اور طرازالبدی امجیز کو سمجھنے اور سمجھانے کا ان کا الگ انداز ہے اسی لئے وہ دوسروں سے منفرد ہیں۔ ‘‘
’’مرگ انبوہ: اکیسویں صدی کا عظیم ناول ‘‘کے عنوان سے مسعود بیگ تشنہ نے اپنے جامع مضمون میں ناول ’’مرگ انبوہ‘‘ کا تعارف بڑے خوبصورت جملوںمیں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مرگ انبوہ کا نریٹر (داستاں گو) ایک دانشور، ایک سائنس داں، ایک سماجی سائنس داں، ایک اسٹیٹس مین اور سب سے بڑھ کر اکیسویں صدی کا انسان بن کر ابھرتا ہے اور اسی بھیڑ میں شامل اکیسویں صدی کے ہندوستان کا مسلمان بن کر بھی ابھرتا ہے جیسا کہ ناول کے نام ’’مرگ انبوہ‘‘ سے ظاہر ہے کہ اس میں خوش آئند مستقبل کے امکانات یوٹوپیا کی طرح ہی قریب قریب ناقابل رسا ہیں۔ داستان گو نے جان بوجھ کر اور بجا طور پر ایسا کیا ہے کہ اس جلتے ہوئے مسئلے کی لپٹ کو شدت سے محسوس کیا جاسکے۔ ‘‘
ڈاکٹر ایم صلاح الدین کی تحریریں کافی دلکش ہوا کرتی ہیں۔ ’’آتشِ رفتہ کا سراغ: ہوش و خرد کی بیداری‘‘ کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس ناول کا پلاٹ آزادی ہند کے آس پاس سے بٹلہ ہائوس انکائونٹر تک کے واقعات کو سمیٹتا ہمارے مستقبل کے انجام کو اجالتا ہے۔ ان ۶۷؍ برسوں سے ہندوستانی مسلمان کن کن عذابوں سے گذرتے رہے ، انہیں کمزور و خوف زدہ کرنے کی کارروائیاں کن کن سطحوں پر کی جاتی رہیں اور مستقبل میں کیا کچھ ہوسکتا ہے ، یہی دکھانا اس ناول کا مقصد ہے جو اس کی اہمیت و افادیت کو دو چار کرتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر امام اعظم نے مشرف عالم ذوقی کے ناول ’’لینڈاسکیپ کے گھوڑے‘‘ پر اپنی طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ ذوقی کو کہانی بننے کا فن معلوم ہے۔ ان کے یہاں نیا انداز بھی ہے اور کہانی کا نیا تیور بھی ، حساس طبیعت کو تلملا دینے والا بھی اور انبساط دینے والا بھی، درد کے گہرے سمندر میں کروٹیں بدلتا ہوا انسانی وجود کس قدر بے بس ہوجاتا ہے اس کا نقش بھی ابھرتا ہے۔ ذوقی نے کہانی کے Treatmentکو نئے فنی لوازمات سے بھی آراستہ کیا ہے جس سے کہانی کا ذائقہ نیا Testدیتا ہے اور یہ پیرایۂ اظہار ذوقی کو صف اول کے افسانہ نگاروںمیں لاکھڑا کرتا ہے۔‘‘
گوشۂ ’’اشرف گل‘‘ کے تحت بھی پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا ایک مضمون ’’اشرف گل کی شاعری میں تہہ داری‘‘کے عنوان سے ہے۔ اشرف گل کا تعارف کراتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں کہ’’ اشرف گل اردو کی تیسری بستی کے شاعر ہیں۔ کیلی فورنیا میں رہتے ہیں اور بنیادی طور پر غزل گو ہیں۔ ان کی غزلیں تجربہ ، تفکر اور تخیل کے ساتھ مشاہدہ کا پرتو ہوتی ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے اشرف گل کی شاعری میں عصری حسیت پر بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’معاصر اردو شاعری کے افق پر اشرف گل نمایاں طو ر پر نظر آنے والے فن کار ہیں۔ شاعری اور موسیقی سے گہری وابستگی کے سبب حلقۂ احباب میں مقام و مرتبہ پاتے ہیں۔ ان کی غزلوں کومعروف گلوکاروں نے آواز دی ہے۔ انہیں خاص و عام تک اپنی شاعری کے ذریعہ رسائی کا اعزاز حاصل ہے۔ اردو، ہندی اور پنجابی زبانوں میں حدیث دل بیان کرتے ہوئے قارئین و سامعین کو انہوں نے محظوظ کیا۔ اردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے بھی ان کا نام توانا اور معتبر ہے۔‘‘
’’چٹھی آئی ہے‘‘ کے حوالے سے پروفیسر مجید بیدار نے اپنے تاثراتی مضمون ’’مکتوب نگاری کی دیرینہ روایت کی امین کتاب ’’چٹھی آئی ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’تحقیقی و تدوینی خصوصیت کی حامل کتاب ستائشی خطوط کا مرقعہ قرار دی جائے گی جس کا طویل مقدمہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ تحریر کی ہمہ گیری اور مکتوبات کی کثرت پر توجہ دینے سے زیادہ شاہد اقبال نے اس کتاب کے مقدمہ ’’مکتوب نگاری کی روایت اور چٹھی آئی ہے‘‘ کو ۴۴؍ صفحات پر محیط رکھا ہے جو نہ صرف جامع بلکہ تاریخی پس منظر میں دنیا میں مکتوب نگاری کا آغاز اور اردو زبان میں مکتوب نگاری کی صنف کے ہر دور کے نمونوں کا تجزیاتی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ‘‘
بزرگ شاعر و ادیب احسان ثاقب (آسنسول) نے کتاب ’’چٹھی آئی ہے‘‘ پر منظوم تجزیہ تحریر کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
دیکھنے سے ہی لگتا ہے اردو کی یہ سچی تصویر

جیسے خواب کا اک گلدستہ آپہنچا زیر تعبیر
یک جہتی اور کلچرکی ہو جیسے یہ زندہ تصویر

ہوئی نہ ہوگی شاید اب تک لفظوں کی ایسی تعمیر
اردو کے سب ویژن دیکھو ایسی چھٹی آئی ہے
ڈاکٹر تاج پیامی اپنے مضمون ’’ابواللیث جاوید کے افسانے (کنارے کٹ رہے ہیں کے حوالے سے)‘‘ کے عنوان سے میں لکھتے ہیں : کہ ابواللیث جاوید ایک عمدہ افسانہ نگار ہیں جنہیں ہر قسم کے افسانے لکھنے پر قدرت حاصل ہے۔ ’لفافہ‘ میں ماجرہ سازی بھی کی ہے او رکہانی پن بھی۔ اس افسانہ میں آدی باسیوں کی زندگی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ مزید ایں کہ اس میں المیہ بھی ہے۔ وہ لفافہ پاکر جتنا خوش ہے خبر سن کر اتنا ہی غم ناک ہوجاتی ہے۔ افسانہ نگار زندگی کے اس غم ناک پہلو کو بہت چابک دستی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ابواللیث جاوید لفظوں سے نہیں کھیلتے ، بلکہ اپنے ارد گرد سے اتنا متاثر رہتے ہیں کہ اسے بیان کرنے میں نہایت محتاط ، موزوں اور توانا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر جمال اویسی حیدر وارثی کی غزل گوئی میں معنویت تلاش کرنے کی کوشش میں لکھتے ہیں کہ ’’حیدر وارثی بہت زمانہ سے شعر کہتے آرہے ہیں اور اب تک ان کے چھ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ وہ تمام اصنافِ شاعری میں غزل کے عاشق ہیں اور اب تک صرف غزل کہی ہے۔ اپنے ادبی کیریئر میں حیدر وارثی صاحب نے ذرا دیر سے شروعات کی اور غزل گوئی کی طرف ملتفت ہوئے ۔ ان کے ادبی ذوق کی آبیاری میں علامہ اجتبیٰ حسین رضوی کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ’’شعلۂ ندا‘‘ کی غزلوں اور رباعیات کا اہم حصہ رہا ہے۔ ان کی شاعری کا باضابطہ کوئی استاد نہیں رہا اور انہوں نے صرف اپنی وجدانی صلاحیت پر انحصار کرکے شعر کہے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر نشاں زیدی نے ’’بچوں کا ہمراز : ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’محمد اطہر مسعود خاں کا شمار عہد حاضر کے ممتاز ادباء میں ہوتا ہے۔ وہ جہاں ایک اچھے افسانہ نگار ہیں وہیں انشائیہ بھی خوب لکھتے ہیں۔ تنقید و تحقیق کے میدان میں بھی ان کا قلم رواں ہے اور اشاریہ سازی ان کا اہم کام ہے۔ علاوہ ازیں ادب اطفال میں انہوں نے گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ان کی کتابوںمیں ’’کھلتی کلیاں‘‘، ’’جھوٹ کے پیر‘‘ ، ’’موم کا دل‘‘ ، ’’سنہری فیصلہ(مرتبہ: ایمن تنزیل)‘‘ اور ’’غریب شہزادی‘‘ بچوں کی کہانیوں کے پانچ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی تخلیقات ملک و بیرون ملک کے رسائل میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ‘‘ ’’شموئل احمد کے ناول ’’گرداب‘‘ پر ایک نظر ‘‘ کے عنوان سے سلیم انصاری نے ایک عمدہ مضمون تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’گرداب‘‘ شموئل احمد کا نیا ناول ہے۔ اس سے قبل ان کے تین ناول ’’ندی‘‘، ’’مہاماری‘‘اور ’’اے دلِ آوارہ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں ۔ شموئل احمد ایک ایسے Versatile تخلیق کار ہیں جو بیک وقت کئی سطحوں پر فکر و عمل اور تخلیق میں مصروف رہتے ہیں اور چونکہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک سول انجینئر ہیں ‘ لہٰذا ان کی تخلیقات میں ایجاز و اختصار کے ساتھ اظہار میں Precisionاور Accuracy کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے مطالعے ، مشاہدے، تجربات اور محسوسات کو بنیاد بناکر اپنی زندگی رنگ تخلیقی کائنات کو منور کرنے والے شموئل احمد کے یہاں مرد اور عورت کے درمیان جسمانی اور روحانی رشتوں کی سچائی اور تقدس کے اظہار کی خوش سلیقگی اور ہنر مندی ہی ان کا تخلیقی وصف ہے۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ’’سید منظر امام : منفرد شخصیت‘‘ کے عنوان سے منظر امام کی شخصیت پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’سید منظر امام کی شاعری ، افسانے، تنقید اور صحافت معیاری تھی، لیکن معیار کی برقراری کے لئے یک سو ہوکر لگ جانا ضروری تھا مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ کسی ایک فن کے ہوکر نہ رہ سکے، اس لئے ساری خوبیوں کے باوجود وہ ادبی دنیا میں اپنے برادران کی طرح بڑا نام نہیں کر سکے۔ انہوںنے ’’تمثیل نو‘‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں اپنی آپ بیتی ’’دربھنگہ دل سے جاتی ہی نہیں یاد تیری‘‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کیا تھا۔ کئی قسطیں منظر عام پر آئیں۔…‘‘
استوتی اگروال نے ’’ہمدردی اور انسانیت کے پیکر : اختر الواسع‘‘ کے عنوان سے اپنا مضمون اس رسالہ میں شامل کیا ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ ’’…پروفیسر اختر الواسع کا اندازِ بیان ایسا خوبصورت اور دل میں اتر جانے والا ہے کہ ا ن کی زبان سے نکل ہوا ایک ایک لفظ اپنی گہری معنویت سے بھرپور ہوتا ہے او راتنے صاف ستھرے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں کہ ہم جیسے طالب علم کے ذہن و دل روشن ہوجاتے ہیں ۔ ان کے اخلاق، کردار اور شخصیت کے کئی مختلف پہلو ہیں جن پر گفتگو کی جاسکتی ہے ۔…‘‘
پرویز طاہر نے ’’مصطفیٰ اکبر : شخص و شاعر ‘‘کے حوالے سے اپنی تحریر رقم کی ہے۔ ان کی شخصیت اور فنی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’مصطفیٰ اکبر اپنی عملی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی حلقۂ شعر وادب میں مقبول ہیں۔ وہ تقریباً ۱۵؍ برسوں تک کلکتہ کے قدیم ترین ادبی ادارہ ’’بزم احباب‘‘ کے جنرل سکریٹری رہے۔ یہ اس بزم کا زرّیں دور تھا۔ اس دور میں ہر ماہ پابندی کے ساتھ ماہانہ جلسے ہوئے۔ کئی اہم پروگرام ہوئے ۔ اس کی سالانہ پکنک کے پروگراموں کو آج بھی احباب یاد کرتے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر محمد احسن نے ’’نئی قومی تعلیمی پالیسی کی نمایاں خصوصیات‘‘ کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اس مضمون کی چند اہم باتیں اس طرح ہیں: ’’قومی تعلیمی پالیسی کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہندوستان کی نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء ملک کی نئی نسل کے لئے بہت اہم تسلیم کی جارہی ہے۔ کردار سازی، شخصیت کی تعمیر، جائزہ اور تنقیدی امتحان، تخلیقیت اور برادرانہ جذبہ جیسے عناصر کا فروغ جوکسی بھی عمدہ تعلیمی نظام کے لئے لازمی اجزاء ہیں۔ ان کی کمی ہمارے تعلیمی نظام میں ایک لمبے وقفے سے محسوس کی جارہی تھی۔ ‘‘ مضامین کے بعد مصطفیٰ اکبر، احسان ثاقب، ڈاکٹر معراج الحق برق، آچاریہ جمال احمد جمال، ابواللیث جاوید، خالد رحیم، ڈاکٹر امتیاز احمد صبا ، پروفیسر شاکر خلیق، سلطان احمد ساحل وغیرہ کی بہترین نظمیں ہیں۔ شاداں فاروقی، نقشبند قمر نقوی بخاری، کے انیس اظہر، حلیم صابر، محمد نوشاد نورنگ، سید انظار البشر، معراج احمد معراج ، بدر محمدی، انجینئر ہارون شامی، رئیس اعظم حیدری ، اشرف گل ، ڈاکٹر رضوانہ ارم، پروفیسر ڈاکٹر رام داس، ڈاکٹر جاوید اشرف فیض وغیرہ کی غزلیںقارئین کو متاثر کرتی ہیں۔
’’نظر اپنی اپنی‘‘ عنوان کے تحت بہت سی کتابوں پر تبصرے پیش کئے گئے ہیں جن کے مطالعے سے مختلف کتابوں کی جھلک ہمیںملتی ہے۔ آخر میں مشاہیر ادب کے خطوط ہیں جو ’’تمثیل نو‘‘ کے سلسلہ میں مدیر ڈاکٹر امام اعظم کو لکھے گئے ہیں۔
اس طرح رسالہ ’’تمثیل نو‘‘ کا یہ شمارہ سابقہ شماروں کی طرح معیاری ، قابل قدر، مطالعہ طلب اور دستاویزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس رسالہ کو ’ادبستان ‘ (متھلا محل کمپلیکس)، محلہ گنگوارہ ، پوسٹ: سارا موہن پور ، ضلع دربھنگہ -۸۴۶۰۰۷(بہار) سے حاصل کیا جاسکتاہے۔
٭٭٭
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، محلہ: رحم خاں ، دربھنگہ-846004 (بہار) موبائل: 9431414808

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here