9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
اعظم شہاب
کشمیری لیڈران کے ساتھ پردھان سیوک اور وزیرداخلہ کی میٹنگ کے بارے میں کہا یہ جارہا ہے کہ یہ امت شاہ سے مشورے کرکے ہی بلائی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمی جو اگست 2019 سے شروع ہوئی وہ بیشتر لیڈران کی نظربندی کے بعد سے رک سی گئی تھی۔ لیکن کیا صرف یہی وجہ تھی کہ جس کی بناء پر حکومت نے یہ ہزیمت برداشت کی؟ آخر جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کے رک جانے سے مودی حکومت کی صحت پر کیا فرق پڑ رہا تھا؟ تو اس کا جواب عالمی سطح پر تبدیل ہوتے ہوئے اس منظرنامے میں مل جاتا ہے جس کا سامنا مودی حکومت کے لئے بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اس میں پہلا واقعہ فلسطین کے ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک کا چلے جانا ہے اور دوسرا واقعہ لداخ و اروناچل پردیش کے سیکڑوں کلومیٹر کے علاقے پر چین کا مبینہ قبضہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان واقعات کے رونما ہونے کی صورت میں ایک ایسے علاقے کو بہت دنوں تک معطل نہیں رکھا جاسکتا تھا جس پر دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں اور جس کی گونج یو این تک میں سنی جا رہی ہو۔
جموں کشمیر سے آرٹیکل 370؍اور35؍اے ختم کرنے کی تجویزپیش کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں وزیرداخلہ امت شاہ کے اس تاریخی جملے سے تو ہرکوئی واقف ہوگا کہ جب ہم جموں وکشمیر کہتے ہیں تو اس کا مطلب پی او کے اور اقصائی چین بھی ہے اور اس کے لیے ہم اپنی جان دے دیں گے۔ اگر کوئی آج بھی امت شاہ کے اس بیان سے لطف اندوز ہونا چاہے تو اس کے لئے یوٹیوب پر امت شاہ آرٹیکل 370 پارلیمنٹ لکھ کر سرچ کرلینا کافی ہوگا۔ وہ بڑے جوش وغصے میں اپوزیشن کو للکارتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جموں و کشمیرکی تین حصوں میں تقسیم کے بعد جب لداخ کوعلاحدہ کردیا گیا اور چین نے مبینہ طور پراقصائی چین سے آگے بڑھ کر لداخ تک کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا اور یہ اعلان کردیا کہ لداخ اس کا ہے تو ہمارے امت شاہ اس پر اس طرح خاموش ہوگئے تھے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
5 اگست2019 کوجموں وکشمیر کے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کرنے کے بعد جب کشمیر کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے متحدہ طور پر گپکار ڈکلریشن اور جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کی بحالی کے لئے متحدہ طور پر کوششوں کا اعلان کیا تو ہمارے یہی امت شاہ صاحب نے اسے ’گپکارگینگ‘ قرار دیا تھا۔ ایک نہیں بلکہ اپنے کئی ٹوئٹ میں انہوں نے اسے ایک ’ناپاک اتحاد‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے خلاف بنے اس اتحاد کو ملک کی عوام قبول نہیں کرے گی۔ لیکن شاید اس وقت ان کے وہم وگمان میں رہا ہوگا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ انہیں اسی گپکار گینگ کے ساتھ نہ صرف ملاقات کرنی پڑے گی بلکہ پردھان سیوک کو اس گینگ کو قبول تک کرنا پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں وقت کی ہزیمت جس کے شکار بڑبولے اور دوسروں کو نیچا دکھانے والے اکثر وبیشتر ہوتے رہتے ہیں۔
وزیرداخلہ امت شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر ہمارا داخلی معاملہ ہے اور اس میں وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ داخلی معاملہ تھا تو واجپئی جی نے لاہور سمجھوتہ کیوں کیا تھا؟ اگر لاہور یاشملہ سمجھوتا ہوا تھا تو ظاہر ہے کہ ایک فریق پاکستان بھی ہے۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ کشمیر صرف ایک لینڈ آف اسٹیٹ ہی نہیں ہے بلکہ وہاں چلتے پھرتے انسان بھی رہتے ہیں اور وہ ملک کی خوشحال ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک پوری ریاست کے لوگوں کے مطالبات سے چشم پوشی کرکے صرف فوجی قوت کی بناء پر مسئلے کا حل نہیں کیا جاسکتا۔
امت شاہ صاحب نے کشمیر کو اندرونی مسئلہ قرار دیا تو معلوم ہوا کہ امریکہ کے مائک پوپمیو کو ثالثی کی پیش کش کرنی پڑی۔ اقصائی چین کے لئے جان دینے کا اعلان کیا تو پتہ چلا کہ مبینہ طور پر لداخ تک کے کچھ علاقے چین کے حوالے کر دیئے گئے۔ کشمیری رہنماؤں کے اتحاد کو ’گینگ‘ اور ’ناپاک اتحاد‘ قرار دیا تو معلوم ہوا کہ ان کے ہی ساتھ تین ساڑھے تین گھنٹے تک انہیں میٹنگ اور تصویریں اتروانی پڑیں۔ جموں وکشمیر کی سابقہ صورت حال کی بحالی پر وہ چیلنج کرتے ہیں تو بعید نہیں آگے چل کر وہ خود ہی اس کی بحالی کا اعلان بھی کردیں، بھلے ہی یہ عدالت کے حکم کے مطابق ہو۔ کیونکہ وہ جوکہتے ہیں وہ کر نہیں پاتے اور جو کر نہیں پاتے اس کے لئے جان دینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ابھی تو گپکار لیڈران کے ساتھ میٹنگ ہوئی ہے، مگر کاش کہ انہیں یہ بھی خبر ہوجائے کہ چین ابھی تک لداخ میں موجود ہے۔ اپنی جان نہیں تو کم ازکم اس پر کوئی بیان ہی دے دیجیے۔
٭٭٭