رخسانہ نازنین (بیدر)
ایک طوفان بلا خیز ہے جس کی موجیں ہزاروں انسانی جانوں کو اپنے ساتھ بہا لے جارہی ہیں اور موت کے سمندر میں غرق کئے جارہی ہیں ۔ کوئی صبح ایسی نہیں ہوتی جو کسی کی موت کا پیام نہ لاتی ہو، کوئی شام ایسی نہیں گزرتی جو کسی کے گزرنے کی خبر سے شام غریباں میں نہ بدل جاتی ہو، دل ہر لمحہ لرزتا رہتا ہے، خوف اور اندیشوں کے ڈستے ہوئے ناگ، تنہائی اور گھٹن بھرا ماحول، دور دور تک پھیلی اداسی جو دلوں کو چیر دیتی ہے ۔ اپنوں کو کھونے کے غم سے نڈھال وجود ، کسی کے سر سے باپ کا مشفق سایہ اٹھ گیا ہے تو کوئی ممتا کے آنچل سے محروم ہوگیا ہے، کس نے بھائی کا سہارا کھویا ہے تو کسی نے بہن کو سپرد لحد کیا ہے ۔ کسی کو شریک حیات کی جدائی کھارہی ہے تو کہیں بچوں کو یتیمی کا داغ ملا ہے ۔ ہر چہرہ درد کی کہانی ہے ۔ اور ہر کہانی خون کے آنسو رلا رہی ہے ۔ ان حالات میں وباء سے زیادہ خوف سے انسان نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے ۔ جو مہلک ہے ۔ اللہ تعالی بیشک ہر شئے پر قادر ہے اور ہمیں اسکی ذات پر کامل یقین ہے کہ وہ اپنے بندوں کو انکی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا. بس اسکے ایک اشارے کی دیر ہے ۔ ہمیں اس اشارے کا انتظار ہے اور دعاؤں کا سہارا ہے ۔ موت برحق ہے ۔ ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ پھر خوف کیسا؟ بحیثیت مومن ہمیں موت سے خوفزدہ ہونا زیب نہیں دیتا ۔ دعا ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو ۔ اپنے گناہگاروں کی معافی اور پروردگار سے بخشش کی طلب ہی ہمارے دلوں کو سکون دے گی ۔ پچھلے دو ماہ کا کربناک منظر نامہ یہی کہتا ہے کہ اس بار وباء کا قہر ہزاروں گھروں پر ٹوٹا ۔مارچ کے اواخر سے ہی اموات ہونے لگی تھیں جو متواتر بڑھتی گئیں اور رمضان المبارک میں تو قیامت صغری کا عالم رہا ۔ اسپتالوں میں طبی سہولیات کا فقدان، بیڈ ، انجکشن اور آکسیجن کے لئے تڑپتے مریضوں اور انکے رشتے داروں کی بے بسی نے حکومت کی ساری قلعی پوری دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی کہ اس ملک میں انسانی جان سب سے ارزاں شئے ہے اور ایٹمی ہتھیارخریدنے کے لئے ملک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں مگر اسپتالوں میں عوام کی زندگی بچانے کے لئے کوئی سہولتیں مہیا نہیں! اقتدار کی ہوس نے انتخابات کا اعلان کرکے عوام کی زندگی سے کھلواڑ کیا اور کمبھ کے میلے کا انعقاد کرکے لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے ۔ اس کے بعد آکسیجن کی قلت پر واویلا مچایا گیا اور ہزاروں لوگ سانس لینے سے محروم ہوگئے اور انکی سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی ۔ اس دوماہ کے عرصے میں جو انسانی جانیں تلف ہوئیں اور ہزاروں گھر اجڑ گئے اس نقصان عظیم کی کوئی تلافی نہیں ۔ ایک فرد کی موت ایک کنبے کو متاثر کردیتی ہے ۔ مشیت الہی ہے کہ نوجوان مردوزن موت کی آغوش میں کھوگئے ۔ معصوم بچے یتیم اور بے سہارا ہوگئے ۔ ان کے اجڑے گھر بسانا، انکے زخموں کو مندمل کرنا اور انکے گھر بسانے کی تگ ودو کرنا ملت کا اہم فریضہ ہے ۔ طوفان تو تباہی مچا کر گزر ہی جائے گا مگر اسکے اثرات باقی رہ جائیں گے ۔ ان اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرنا ہر دردمند دل کا فرض اولین ہے ۔ مومنین کے لئےامتحان اور آزمائش ہے کہ کیسے اس کٹھن وقت کا مقابلہ مضبوط اعصاب اور قوت ارادی سے کرنا ہے ۔ کیونکہ موت تو بہرحال زندگی کا انجام ہے لیکن زندگی ایسی ہو کہ موت اس پر رشک کرے ۔ احتیاطی تدابیر اختیار کریں مگر انسانیت کے تقاضے فراموش نہ کریں ۔ اپنے ہی سائے سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنی زندگی کو کارآمد بنائیں ۔ صدقہ، خیرات فراخدلی سے کریں کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے ۔ بہت افسوس ہوا کہ کچھ لوگوں نے ماہ رمضان میں خوف سے اپنے گھروں کے دروازے فقراء ومساکین کے لئے بھی بند کرلئے ۔ اپنےقریبی رشتے داروں کی میتوں کو کاندھا دینا گوارہ نہ کیا نہ ہی فون کرکے پرسہ دیا کہ انکے دل موت کے خوف سے لرز رہے تھے کہ تفصیل جان کر انکی نیندیں اڑ گئی تھیں ۔ ! جبکہ وباء سے مرنے والےمومن کو شہادت کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور پھر رمضان المبارک کی موت تو خوش نصیبوں کو ملا کرتی ہے ۔ اسلئے ان تمام مرحومین کے پسماندگان اور متعلقین کے لئے یہ احساس خوش کن ہونا چاہئے کہ انکے اپنوں نے اس ماہ مبارک میں اللہ کے حضور حاضری دی ۔ دعا کرنی ہے کہ اللہ تعالی پیچھے رہ جانے والوں کو صبر دے اور انکی زندگی سہل بنائے ۔ حتی الامکان خبروں سے دور رہنے کی کوشش کریں ۔ ذہن ودل کو پرسکون رکھیں ۔ اللہ سے لو لگائیں ۔ اس سے پناہ مانگیں اور اسے راضی کرنے کی کوشش کریں ۔ کوئی بھی وباء ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ دوسری لہر، تیسری لہر سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اللہ رب العزت کے سامنے گڑگڑائیں کہ وہ پل بھر میں ساری لہوں کا خاتمہ کردے گا ۔ آئیے پروردگار کے حضور گڑگڑائیں ۔۔۔۔۔ اے رب ذو الجلال، اے خالق کائنات اس طوفان بلاخیز کو اپنی رحمت کے اشارے سے روک دے ۔ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھا دے ۔ تیرے ایک اشارے کی دیر ہے میرے مولا۔۔۔ تو بخش دے ہم گناہگاروں کو ۔ اور اپنی رحمت کے سائے میں لے لے ۔ اس وباء سے نجات دے دے میرے مالک ۔ اس وباء کا خاتمہ کردے ۔ ہمیں اس خوف سے نجات دے اس گھٹن سے آزاد کردے ۔ ہمارے دلوں کو سکون عطا کر ۔ ہم پر رحم فرما، ہم گناہگاروں کو بخش دے ۔ ہماری توبہ قبول کرلے ۔ آمین ثم آمین۔٭