[email protected]
9807694588(موسی رضا)
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
معصوم مرادآبادی
مجھے اپنی اس محرومی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میں نے استاد رسا دہلوی کو نہیں دیکھا۔ میں 1977کے وسط میں جب اس شہرنارسا میں داخل ہوا تو استاد رسا ملک عدم کے مسافر ہوچکے تھے۔ ان کا انتقال 1976میں ہوا۔ مگرمیری خوش بختی یہ ہے کہ میں پہلے پہل پرانی دلّی کی جس گلی مٹیا محل میں مقیم ہواتھا‘ وہیں استاد رسا کے استادحضرت بیخود دہلوی کا مکان تھا۔ اس مناسبت سے مٹیا محل میںاستادرسا کی سب سے زیادہ آمدورفت رہی تھی اور یہاں ان کی کہانیاں بھی بہت تھیں۔میں نے پرانی دلّی میں استاد رسا کے جتنے قصے اور کہا نیاںسنیں اتنی کسی اور کی نہیں سنیں۔ ان ہی قصے کہانیوں کی مدد سے میں نے اپنے ذہن میں استاد رسا کی ایک تصویربنائی تھی ،لیکن اب اتنے عرصے بعد جب بمشکل تمام ان کی اصل تصویر میرے ہاتھ لگی ہے تو وہ اس تصویر سے بہت مختلف ہے جو میرے ذہن کے کسی حصے میں برسوں سے محفوظ تھی۔سچ پوچھئے تو اسی تصویر نے مجھے یہ سطریں لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
ہر شہر اور قریہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عام لوگوں سے مختلف اور یکتا شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور خصلتیں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور وہ ان کے محبوب بن جاتے ہیں۔ استاد رسا بھی ایسے ہی لوگوں میں ایک تھے۔ ان کی بنیادی شناخت تو شاعری تھی ، لیکن شاعری کے سوا ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو وہ گالیاں تھیں جو پرانی دلّی میں آج بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ استاد رسا ایک قلندرانہ صفات کے حامل شاعر تھے ، لیکن پرانی دلّی کے گلی کوچوں میں ان کا شہرہ شاعری سے زیادہ ان بلیغ گالیوں کی وجہ سے تھا جو ان کی نوک زبان پر ہمہ وقت رہتی تھیں اورجنھیں سننے کے لیے لوگ ان سے چھیڑچھاڑکیا کرتے تھے۔اردو شاعری کی پوری تاریخ میں شاید ہی ان جیسا کوئی دوسرا شاعر گزراہوجو شاعری اور گالیوں پر یکساں عبور رکھتا تھا۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کے بقول’’ ان کی گفتگو میں گالیوں کی مقدار نمک میں آٹے کی برابر ہوتی تھی۔‘‘جو کوئی ان کی گالیوں کا حال سنتا تو ان سے ملنے کا متمنی ہوتا تھا، لیکن وہ ہر ایرے غیرے کے سامنے گالیاں بکنا بھی کسر شان سمجھتے تھے۔ اس کے لیے ایک مخصوص موڈ اور محفل کی ضرورت ہوتی تھی اور انھیں مشتعل کرنے والا خاص پس منظر بھی۔
نہ جانے کب سے گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہونے کی شعری حکایت جوں کی توں چلی آتی ہے ۔ استاد رسا دہلوی کی گالیوں کی خوبی یہ تھی کہ کوئی انھیں سن کر بے مزہ نہیں ہوتا تھابلکہ بعض تو ایسے بھی تھے جو ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔استاد رسا دہلوی‘ داغ اور بیخوددہلوی کی شعری روایت کے سچے امین تھے۔انھوں شاعری میں خاصی مشق بھی کی تھی، لیکن ان کا بیشتر کلام ضائع ہوگیا۔ وہ مشاعروں میں اکڑوں بیٹھ کر شعر پڑھناپسند کرتے تھے اور شعر پڑھتے وقت مصرعے کے ساتھ خود بھی گھٹنوں کے بل اٹھتے چلے جانا ان کی خاص پہچان تھی۔ شعر سناتے وقت ان کا جوش وخروش دیدنی ہوتا تھا۔
استادرسا حضرت بیخود دہلوی کے نہایت سعادت مند شاگرد تھے ، لیکن خود ان کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ وہ عرف عام میں’استاد‘ مشہور ہوگئے تھے۔وہ اپنے استاد بیخود دہلوی کے انتقال کے بعدان کی یاد میں ہرسال ایک عوامی مشاعرہ کرتے تھے ، جس کی تیاری وہ پورے سال کرتے تھے ۔مشاعرے سے کئی ماہ پہلے اس کے پوسٹردیواروں پر چسپاں ہوجاتے تھے۔مشاعرے سے کچھ پہلے جامع مسجد کے علاقے کو یوں سجایا جاتا گویا کسی شادی کی تیاری ہو۔یوں لگتا تھا کہ ان کی زندگی کا مقصد یہی مشاعرہ رہ گیا ہے۔افسوس کہ یہ عوامی مشاعرہ کچھ کھلنڈروں کی شرارتوں کی نذر ہوگیا۔ اس سالانہ مشاعرے کے اہم معاونین میں ایک نام جنتا کوآپریٹیوبینک کے چیئرمین میرمشتاق احمد کا بھی تھا جو استاد رسا کی مدد کرنے سے پہلے ان سے خوب چکر لگواتے تھے اور جب بینک کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے استاد کے گھٹنے جواب دینے لگتے تو ان کا پارہ چڑھ جاتا تھا ۔وہ اپنی پر آجاتے تو میرصاحب جیب ڈھیلی کرتے تھے۔ڈاکٹر اسلم پرویز نے استاد رسا کے نہایت مرصع خاکے میں ان کاحلیہ کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے:
’’چھریرا بدن، نکلا ہواقد، سانولا رنگ، سرپر پوری طرح منڈھی ہوئی ململ کی ٹوپی ، پیشانی پر عین وسط میں ٹوپی کے کنارے کو چھوتا ہوا دہکی ہوئی رات جیسا نماز کا گٹا،ستواں ناک، ہروقت پان کھاتے رہنے کی وجہ سے لب اور دہن گلنار،سامنے کے دانت پان کی زیادتی سے قدرے سیاہی مائل،باشرع مسلمانوں کی طرح ترشی ہوئی بسیں، کھچڑی داڑھی مگر ایسی کھچڑی جس میں چاول کی مقدار کچھ زیادہ ہو،داڑھی کے بیچوں بیچ پان کی پیک کی سرخ لکیر، چہرہ لمبوترا جو سوامٹھی ڈاڑھی سے کچھ اور لمبوترا دکھائی دیتا تھا، کالی واسکٹ‘ اس کے نیچے معمولی سے سوتی کپڑے کی قمیض، گردن میں لٹکا ہوا بڑا سا رومال یا چادر جس کے دونوں سے سرے سامنے کی جانب دائیں اور بائیں طرف لٹکے ہوئے ، ذرا چوڑھی موری کا گاڑھے یا گزی کا اٹنگا پاجامہ ، ایک بغل میں کاغذوںکا پلندہ اور دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی ۔یہ تھے استاد رسا دہلوی۔‘‘(’دلّی والے ‘مرتب ڈاکٹر صلاح الدین ،جلد اوّل، صفحہ161)
استاد رسا کھرے دلّی والے تھے ۔وہ فصیل بند شہر کے لوگوں کو ہی اصلی دلّی والا مانتے تھے۔ دہلی کے باقی علاقوں میں رہنے والوں کووہ’ غیرملکی‘ تصور کرتے تھے ۔ انھیں اس بات کاقلق تھا کہ انگریزوں نے جمنا کے اوپر پل بناکر دلّی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ نہ یہ پل ہوتا اور نہ باہر کے لوگ دلّی آتے۔استاد رسا کا اپنا مکان حوض سوئیوالان میں تھا ، لیکن وہ سب سے کم اسی علاقہ میں نظر آتے تھے۔سنا ہے انھیں فٹبال کھیلنے کا بھی شو ق تھا ۔ بنیادی طورپروہ ایک آزاد منش انسان تھے۔ بیوی بچوں کو بوجھ سمجھتے تھے‘ اس لیے یہ روگ بھی انھوں نے نہیں پالا تھا۔ ان کے مزاج اور چال ڈھال میں بلا کا بانکپن تھا۔ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کے درمیان بیچ کا راستہ نہیں تھا۔مخالفوں کا شجرہ نسب انھیںمنہ زبانی یاد رہتا تھا اور وقت ضرورت اس کے بیان میں انھیں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ سنا ہے کہ وہ ’فیس کریم‘ فروخت کرنے کاکام کرتے تھے، جو ان کی خانگی ایجاد تھی ، مگر کسی نے انھیں یہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ عمر کے آخری ایام میںدن میں ان کا ٹھکانہ حاجی ہوٹل ہوتا تھا ۔رات وہ درگاہ شیخ کلیم اللہ میں بسر کرتے تھے۔8اکتوبر 1976کو انھوں نے بعارضہ کینسر76 سال کی عمرمیں وفات پائی ۔ان کے انتقال کے بعد رشید آرٹسٹ نے ’’قصر دلّی کا آخری ستون:استاد رسا دہلوی ‘‘ کے عنوان سے ان پر ایک کتاب مرتب کی تھی ، جسے حاجی میاں فیاض الدین نے بڑے اہتمام سے شائع کیا تھا ۔ یہ کتاب اب نایاب ہے۔البتہ ان پر لکھے ہوئے کچھ دلچسپ خاکے ضرور موجود ہیں۔ استاد رساکے انتقال کے بعد عقیل ناروی نے ان کی یاد میں ہرسال مشاعرہ کرنے کا پلان بنایا مگر وہ دومشاعروں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔استاد کاایک شعر ملاحظہ ہو۔
ہاتھ ٹوٹیں میں نے جو چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی
آپ کے سر کی قسم دست صبا تھا ‘میں نہ تھا