9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
صوفی انیس درانی
جس زمانہ میں بابری مسجد تحریک شروع ہوئی تھی اور ایڈوانی جی دولھے کی طرح رتھ پر سوارہوکر اپنی سالخوردہ چھاتی کو ۵۶انچ تک پھیلاکر سارے بھارت میں ہندتوا کی تبلیغ کرتے پھررہے تھے اس وقت مسلم دانشوروں میں دوخیالات موضوع بحث تھے۔ دانشوروں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس خیال کا حامل تھا کہ مسلمان دافع شر کے لئے بابری مسجد سے دست بردار ہوجائیں۔ اس وقت سنگھ پریوار مسلمانوں کویہ پاٹھ پڑھا رہاتھا کہ اگرمسلمان بابری مسجد خود ہندتوا عناصر کو سونپ دیں تو پھرہندو کسی اور مسجد کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ (گیان واپی مسجد بنارس اور متھرا میں واقع عیدگاہ کے علاوہ وشوہندوپریشد اور سنگھ کی فہرست میں لگ بھگ تین ہزار مساجدہیں) اورمسلم دانشوروں کا ایک بہت بڑاطبقہ اس پروپیگنڈے سے متاثربھی تھا۔ لیکن اکثریت اس خیال کی حامی نہیں تھی کہ مسجد ہندتوا کے حامیوں کے حوالے کردی جائے ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمانوں کو بہکاکر مسجدہتھیانے کی منصوبہ بندی ہے۔ بابری مسجد حاصل کرنے کے بعدشرپسند عناصر پھرایک ایک کرکے دوسری مساجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت کے خیالات کس قدر درست ثابت ہورہے ہیں اس کی مثال گیان واپی مسجد کو قانونی داؤں پیچ میں پھنساکر اسے ایک کل ہند تنازعہ بنانے کی کوشش ہے۔
آنجہانی راجیوگاندھی نے بھلے ہی اپنی ناتجربہ کاری کے طفیل ارون ہنود کے جھانسے میں آکر بابری مسجدکاتالا کھلواکر پوجاپاٹ شروع کرادی ہوجس کا خمیازہ کانگریس کوآج تک بھگتنا پڑرہاہے۔ مگرایک کام انہوں نے بہت اچھا کیا کہ انھوں نے Places of worshipایکٹ1991کو منظور کرایا۔ اس ایکٹ کے تحت (بابری مسجد کے سوا کیونکہ بابری مسجد کا معاملہ عدالت میں تھا) ہرقدیم عبادت گاہ اسی صورت پربرقرار رکھی جائے گی جس حالت میں وہ 15اگست 1947کو تھی۔ اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کے خلاف عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتاہے۔ 1991کا یہ ایکٹ گیان واپی مسجدبنارس اور متھراکے عیدگاہ جسے کرشنا جنم استھان کہا جانے لگا ہے۔ دونوں پر لاگو ہوتاہے۔ اگریہ ایکٹ منظورنہ ہواہوتا توشرپسند اب تک نہ صرف ان دومسجدوں کو بلکہ اور بھی بے شمار مساجد کو منہدم کرچکے ہوتے اسی لئے آج کل جو معاملہ بنارس کی عدالت میں گیان واپی مسجد کو لے کر چرچا کا موضوع بنا ہواہے وہ بالواسطہ طورپر اسی ایکٹ کو چیلنج دیا گیا۔ بنارس کی ایک مقامی عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بات کی چھان بین کریں کہ گیان واپی مسجد کمپلیکس (جو کاشی وشواناتھ سے ملحق ہے) جوایک مذہبی عمارت ہے کسی قدیم عمارت کے اوپر بنایا گیا ہے کیا اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گئی ہے یا اس کے نیچے کی عمارت پر کسی قسم کی بنیاد ی تعمیراتی ردوبدل کیا گیاہے۔ عدالت کے سینٹردرجہ کے ہول جج اشوتوش تیواری نے اپنے حکم میں محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹرجنرل کو بہت واضح ہدایتیں دی ہیں تاکہ ان کی رپورٹ پر سوال نہ اٹھائے جاسکیں۔ جج آشوتوش تیواری کا تبادلہ ہوچکاتھا اور بحیثیت سول جج یہ ان کاآخری فیصلہ تھا۔ مجھے لگتاہے کہ انھوں نے خود کو انگلی کٹاکر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ گیان واپی مسجد کا مقدمہ پلیس آف روشپ 1991ایکٹ کے تحت زیر سماعت بھی ہوسکتاہے۔ یا نہیں ۔یہ معاملہ پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور دونوں طرف کے وکلا کی بحث بھی ختم ہوچکی ہے۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ اب ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جاناچاہیے تھا۔ لیکن سول جج نے پہلے ہی فیصلہ سنادیا جوکہ عدلیہ کی مروج روایات کے برخلاف ہے۔
گیان واپی مسجد تنازعے کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے۔ ہنود کے مطابق کاشی وشواناتھ مندر 2050سال پراناہے اسے مہاراج وکرمادتیہ نے تعمیرکروایا تھا1669میں بادشاہ اورنگ زیب کے حکم سے اسے منہدم کردیا گیا۔ اس کے ملبے سے اس نے گیان واپی مسجد تعمیر کروائی اس مندرمیں بھگوان وشیشور کی پوجاہوتی ہے۔ اس سوال کا جواب کہ اورنگ زیب کو اگرمندر منہدم کرواناتھاتوپھربقیہ قدیمی ڈھانچے کو کیوں نہیں گرایا اور اگر مسجد بنوانی تھی توپھرمندر کا موجودہ بقیہ حصہ کیوں چھوڑا۔ کوئی شاہنشاہ ایسا آدھا ادھوراکام کیوں کرے گا؟
موجودہ مقدمہ بازی کاایک اور بھی مقصد ہے ۔ ہندتواکے پیروکار اس سارے تنازعے کو بابری مسجد کے مقدمہ کے مماثل کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے تومقدمہ بازی طویل عرصہ سے گیان واپی مسجد کی منتظمہ کمیٹی اور بھگوان سمبھودشیشور کی مورتی کے درمیان چل رہی ہے جیسا کہ بابری مسجد کیس میں رام للہ براجمان کوفریق بنادیا گیا تھا۔ گیان واپی مسجد کے معاملے میں بھگوان وشینشور براجمان نے عدالت میں عرضی دائرکی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے گیان واپی مسجد کی تحقیق کرائی جائے۔ مسلمانوں کی جانب سے یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ اور مسجد کی مقامی انتظامیہ نے عدالت سے اس معاملے کی سماعت نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ لیکن عدالت نے ایک دور رس نتائج کے حامل اس مقدمہ پراپنی چھاپ چھوڑنے کے لئے اپنا فیصلہ سناہی دیا۔ اب جب بھی کبھی گیان واپی مسجد اور بھگوان وشیشور کے جیوتی لنگ مقدمہ کا ذکر ہوگا ۔سول جج اشوتوش تیواڑی کا بھی ذکر کیا جائے گا۔بہرحال مقامی انتظامیہ نے ابھی کوئی حرکت نہیں کی ہے کیونکہ آج سارے اترپردیش میں مقامی انتظامیہ اس وقت حرکت کرتاہے جب لکھنؤسے براہ راست احکامات آتے ہیں۔ ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا کہ سپریم کورٹ نے مفادعامہ کے ایک پٹیشن پر مرکزی حکومت کواپنا موقف بتانے کے لیے کہا تھا۔ اس درخواست میں پیلس آف ورشپ ایکٹ 2019کو خلاف آئین قرار دینے کی بات کہی گئی تھی جس کے تحت ایودھیا کی بابری مسجد کے سوا (جس کا مقدمہ عدالت میں تھا) ہرمذہبی عمارت بقیہ اسی حالت میں رہے گی جیسی پندرہ اگست 1947کو تھی اور اس تاریخ سے پہلے کی کسی بھی ردوبدل کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قانون بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھراکی عیدگاہ پربھی لاگوہوتاہے۔ ابھی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو اس ایکٹ کے خلاف اپنے موقف سے آگاہ نہیں کیا ہے مگر عوامی طورپر اس کو موضوع بحث بنانے کے لئے شروعات کردی ہے۔ اگرچہ یہ مقدمہ اب اخبارات میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے مگراس کی داغ بیل ۱۸؍اکتوبر ۱۹۹۷میں ڈال دی گئی تھی جب ایک مقامی عدالت نے ۱۹۹۱ کے ایکٹ کے تحت فیصلہ دیا تھا جو کہ مسلمانوں کے حق میں آیا اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی گئی جوسول جج کی عدالت میں لگی تاکہ دونوں فریقوں کی شہادتیں اور ثبوت دیکھ کر اس مقدمہ کا پھرسے جائزہ لیں اس مقدمہ کی اگلی سنوائی کے لئے ۳۱مئی کی تاریخ طے کی گئی ہے۔
فاضل جج آشوتوش تیواڑی نے بہت دوراندیشی کے ساتھ اپنا فیصلہ لکھا ہے۔ مدعی وکیل وجے شنکر رستوگی کے مطابق راجہ بکرما دتیہ نے یہ مندر2050برس پہلے تعمیر کرایا تھا اس کے بعد دوبارہ شاہنشاہ اکبراعظم کے عہد میں اس کی تعمیر کی گئی پھر۱۸؍اپریل ۱۶۶۹ کے ایک فرمان کے مطابق اورنگ زیب کے افسران نے بھگوان وشومیشور کے اس مندر کو مہندم کردیا۔ اوراس کے ملبے سے ایک مسجد تعمیر کردی۔ مدعی کے مطابق اس مندرمیں واقع میشولنگ زمین کی گہرائی سے اپنے آپ ہی وجود میں آیاہے اس لئے مندر کے انہدام کے بعدبھی شیولنگ اسی جگہ پر موجود ہے جہاں یہ پرگٹ ہواتھا۔‘‘ سول جج کے اس فیصلے میں مزید تحقیق کے لئے کہ مسجد کسی اورسابقہ عمارت کے اوپر تعمیر کی گئی ہے یا کسی سابقہ عمارت میں ردوبدل کرکے مسجد بنادی گئی ہے۔ آثار قدیمہ کوایک پانچ نفری کمیٹی بنانے کے لیے اس کے ڈائریکڑجنرل کو حکم دیا ہے کہ پانچ ایسی ممتاز شخصیت کو اس کمیٹی میں لیا جائے جن کو آثار قدیمہ سائنس کا علم ہو اور اس کمیٹی میں دوممبران کا تعلق اقلیتی فرقے سے ہو توبہتر رہے گا۔ اس کے علاوہ ایک ایکسپرٹ کو اس کمیٹی کا مشاہدبنانے کے لیے بھی کہا گیا ہے ۔ کمیٹی اس مشاہد یا آبزرور کو اپنے کام کی پیش رفت سے آگاہ کرتی رہے گی۔ عمارت کا سارا سروے کے فوٹوگراف اور ویڈیوگرافی بھی کرائی جائے گی۔ ان سب کا موں کے بعد کمیٹی جو رپورٹ تیار کرے گی اسے مشاہد کو دیا جائے گا۔ اس سروے میں ان سب باتوں کی جانچ ہوگی کہ آیا جو موجودہ عمارت ہے وہ کسی اور قدیمی عمارت پر وجود میں آئی ہے۔ یا کسی پرانی عمارت میں ردوبدل کرکے اسے تبدیل کیا گیا ہے۔ عمارت کی موجودہ عمر لمبائی چوڑائی کس قسم کا میٹریل اس کی تعمیر میں استعمال کیا گیاہے۔ یہ کمیٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کے دوران عمارت کے کسی بھی حصہ میں جاکر اپنا کام کرسکتی ہے۔ اس تشریحی فیصلہ کا مقصدصرف یہ ہے کہ کسی طرح یہ ثابت کردیا جائے کہ گیان واپی مسجد بھگوان وشویشورکے مندرکو توڑ کربنائی گئی تھی یہ سب مستقبل کی تیاری ہے کیونکہ وشوہندوپریشد کے صدر آلوک کمار نے ابھی حال میں اپنی مجلس عاملہ کی میٹنگ کے بعد میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک رام مندر کی تعمیر مکمل نہیں ہوجاتی پریشد کسی اور مدعے کی طرف دھیان نہیں دے گی۔ گویاجب رام مندر جو غالباً ۲۰۲۳ء تک مکمل ہوجائے گا اس کے بعد ہی ان دو متنازعہ عمارتوں کی طرف رخ کیا جائے گا۔یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ مسلم پرسنل لابورڈ اور جمعیۃ العلماء اس فیصلے کو اس بنیا دپر چیلنج کرنے کی تیاری کررہے کہ ۱۹۹۱کے عبادت گاہ بل کے تحت عدالت کو اس سنوائی کا اختیاربھی نہیں ہے۔ اس لئے اس کے فیصلہ کوخارج کیا جائے۔ چونکہ عبادت گاہ ۱۹۹۱ کاقانون پہلے ہی سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے اور سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو اس کاموقف بتانے کے لیے نوٹس کیا ہے اس لیے امید کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ معاملہ خودبخود سلجھ جائے گا۔
٭٭٭