9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
سنبھل پرتھوی راج چوہان کا زمین کی سطح سے 961/فٹ کی اونچائی پربسایا ہوا ریاست اترپردیش کا ایک تاریخی شہر ہے۔ہندستان میں مسلمانوں کی علمی ادبی اور مذہبی تاریخ لکھنے کے لیے بڑے بڑے شہروں سے زیادہ مواد جن بستیوں میں بکھرا پڑا ہے، ان میں سنبھل کا مقام بہت بلند ہے۔ اہل علم اور صاحبان ہنر نے سنبھل کو نہ صرف اپنا مسکن بنایا بلکہ یہاں ایسے ایسے علمی و ادبی کارہائے نمایاں انجام دیے اور اپنے ہنر کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس خزاں رسیدہ بستی کو تاریخی شہر بنادیا۔زمانہئ قدیم میں سنبھل مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔جس کی سب سے بڑی مثال پرتھوی راج چوہان کا دیا ہوا ”سرکار سنبھل“ نام ہے۔مغلوں کے دور میں بھی سنبھل کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔سنبھل کی یہ قیمتی تاریخ کتابوں میں محفوظ ہے اور اب یہی کتابیں ہمارا بیش قیمتی سرمایہ ہیں، جس میں سنبھل کی تاریخی حیثیت کا ہر رنگ بکھرا ہوا ہے۔ اس میں دل خراش مناظر بھی ہیں، علمی و ادبی کارنامے بھی ہیں اور مادر وطن کی محبت میں سرشار جیالوں کی قربانیاں بھی۔
سنبھل سے ہمارا قلبی رشتہ ہے۔ ہمارے بہت سے عزیز و اقرباء سرزمین سنبھل میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سنبھل نے ہر عہد میں ایسے سیکڑوں فنکار اور ذی علم شخصیات پیدا کیں جنھوں نے اپنے قلم کی ضوباریوں سے سنبھل کا نام آسمان ادب پر درخشاں ستارے کی مانند روشن کیاہے۔ان میں سے بہت سے نام نہ صرف زبان زدِ عام و خاص ہیں بلکہ ان کے تذکرہ کے بغیر سنبھل کا ہر ذکر ادھورا ہے۔انہی شخصیات میں ایک نام جناب اویس سنبھلی کا شامل ہے۔اویس سنبھلی اردو سے محبت کرنے والے ایک باصلاحیت اوربے باک قلم کار ہیں۔گذشتہ ایک دہائی میں ان کے قلم کی رعنائیاں پورے ملک کے اردو اخبارات میں جلوہ افروز نظر آتی رہی ہیں۔ وہ اردو کے مجاہد، ممتاز صحافی اور دانشور محترم حفیظ نعمانی کے حقیقی بھانجے ہیں نیز ان کے والد بزگوار محترم نظیف الرحمٰن سنبھلی بحیثیت ادیب اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ ان دونوں اہل علم کی سرپرستی میں اویس سنبھلی کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ اویس سنبھلی اپنے بزرگوں کی علمی و ادبی وراثت کو بہت اچھی طرح سنبھال رکھا ہے۔
گذشتہ ایک دہائی میں اویس سنبھلی کی کئی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آئیں۔”اعتراف سعادت“، ”بجھے دیوں کی قطار“، ”کاوشیں“، ”قلم کا سپاہی: حفیظ نعمانی“، ”افسانوی ادب اور حیات اللہ انصاری“، ”نذر شارب“ اور”باغؔ سنبھلی کی شعری کائنات“ اویس سنبھلی کے علم و ادب کی خدمت کے خوش نما ذوق کی ترجمان اور اردو سے بے لوث محبت کی گواہ ہیں۔’اعتراف سعادت‘ ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کی حیات و خدمات پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے۔ ’بجھے دیوں کی قطار‘، جناب حفیظ نعمانی کے خاکوں کا ایک انتخاب ہے۔ ’کاوشیں‘اویس سنبھلی کے مختلف علمی وادبی مضامین کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔’افسانوی ادب اور حیات اللہ انصاری‘، حیات اللہ انصاری کی فکشن نگاری کے باب میں ایک اہم اضافہ کہا جاسکتا ہے۔’نذر شارب‘، اردو کے ممتاز ناقد و ادیب پروفیسر شارب ردولوی کی حیات اور ان کے ادبی کارناموں پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کتاب کو شارب شناسی کے باب میں اہم اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب ذکر ’باغ سنبھلی کی شعری کائنات کا‘۔
گذشتہ ایک ہفتہ سے ”باغ سنبھلی کی شعری کائنات“ ہمارے مطالعہ میں ہے۔ 352/صفحات پر مشتمل یہ کتاب نہ صرف باغؔ سنبھلی کی شعری کائنات کا مرقع ہے بلکہ سنبھل کی تاریخ کے باب میں ایک بیش قیمتی دستاویز بھی۔ باغؔ سنبھلی کا پورا نام محمد فضل الرب عباسی تھا لیکن منشی فضل الرب کے نام سے معروف اور باغؔ سنبھلی کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ باغ سنبھلی، بلبل ہندوستان حضرت داغ دہلوی کے ان اہم شاگردوں میں سے ایک تھے جنھیں ان کے انتقال کے بعد جانشین مقرر کیا گیا۔ باغؔ سنبھلی کا انتقال ۱۹۳۳میں ہوا لیکن افسوس ان کا کلام شائع ہوکر منظر عام پر نہ آسکا، جس کی وجہ سے ان کو وہ شہرت اور مقبولیت حاصل نہ ہوسکی جس کے وہ حقیقی مستحق تھے۔
اویس سنبھلی کا یہ بہت اہم ادبی کارنامہ ہے کہ انھوں نے تاریخ کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر اس گوہر نایاب کو نہ صرف حاصل کیا بلکہ پوری آب و تاب کے ساتھ اسے شائع کیا نیز اردو ادب کے خزانے میں اس بیش بہا اضافہ سے اپنے”سنبھلی“ ہونے کا حق بھی ادا کردیا۔باغؔ سنبھلی کے انتقال کے بعد سیماب اکبر آبادی نے ان کے کلام کی اشاعت کی کوشش کی تھی لیکن کاتب تقدیر نے یہ سحرا اویس سنبھلی کے سر باندھنے کا فیصلہ کیا جو 83 برس کے بعد اویس سنبھلی کے مسبوط مقدمہ کے ساتھ شائع ہوا۔اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت ہمیں یہ نظر آئی کہ اویس سنبھلی نے80/صفحات پر مشتمل اپنے”ابتدائیہ“ میں سنبھل کی مختصر تاریخ بیان کی ہے۔یعنی اس مجموعہ میں نہ صرف”باغ سنبھلی کی شعری کائنات“محفوظ ہے بلکہ سنبھل اورسنبھل کی تاریخ میں دفن علمی و ادبی شخصیات کا تعارف اور تذکرہ بڑے ہنر مندانہ طریقہ سے قلم بند کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کم وقت اورتھوڑے مطالعہ میں اگر کسی کو سنبھل اور سنبھل کی عظیم علمی و ادبی شخصیات کے بارے میں کچھ جاننا ہے تو اس کے لیے یہ کتاب ممد و معاون ثابت ہوگی۔اس ”ابتدائیہ“ کے مطالعہ سے اویس سنبھلی کے ذوق مطالعہ کا پتا چلتا ہے۔
باغ کی شاعری اپنے عہد کا ائینہ ہے۔ ان کے کلام میں ایسی جاذبیت موجود ہے جس میں ہر رنگ کے دلفریب اور خوبصورت مناظر موجود ہیں۔ ان کا کلام ان کے تخلص کی بھی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔باغؔ سنبھلی کے شعری گلستاں میں ہر رنگ کے پھول کی خوشبو موجود ہے جو ذہن کو معطر اور قلب کو عنبری کر دیتی ہے۔
شاعری زندگی کا آئینہ ہوتی ہے۔ باغؔ سنبھلی کے کلام میں اس کے نمایاں نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ باغ سنبھلی ایک باوقار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی پرورش آمرانہ ماحول اور عیش و عشرت کے ساتھ ہوئی تھی۔اپنے والد کی تنہا اولاد تھے، اس لیے والد کے بے پناہ لاڈلے تھے۔ گھرکی کوئی ذمہ داری ان پر نہیں تھی۔ مست مولا ہو کر آزاد زندگی گزارتے تھے۔انھوں نے شاعری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ شاعری سے انھیں والہانہ عشق تھا لہٰذایہ کیسے ممکن تھا کہ وقتِ شباب میں حسینوں کے سحر سے آزاد رہ جائیں اور دوشیزاوں کی نظروں کے تیر و فگن سے گھایل نہ ہوں۔ باغ سنبھلی حسینوں کی اداؤں پر نثار ہو کر شعر و ادب کی حسن میں چار چاند لگانے میں وقت صرف کرتے رہے اور غزل کے گیسو سنوارتے رہے۔ بطورِ نمونہ چنداشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
او آئینہ میں دیکھنے والے جمال کے
اپنا جمال دیکھ مگر دل سنبھال کے
گردش میں آسماں کی یہ نیرینگیاں کہاں
نقشہ اتارے لاکھ تری چال ڈھال کے
(صفحہ نمبر 143)
تیری آنکھوں کی قسم تیری نگاہوں کی قسم
میں نے جب سے تجھے دیکھا ہے مجھے ہوش نہیں
ہر ادا سے تری ہیں سیکڑوں معنی پیدا
کہ رہی ہے تیری تصویر کہ خاموش نہیں
(صفحہ نمبر 159)
جوں جوں ہم باغؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے جاتے ہیں ان کی شاعری کے اندردھنوشی رنگ سامنے آتے جاتے ہیں۔ باغ کے کلام میں پھولوں کی شگفتگی اور پانی کی سی روانی ہے نیز سکوت آرائی اور معنی آفرینی کی خوبیوں سے بھی ان کا کلام مالا مال ہے ؎
بے وجہ بات بات پہ ہم سے ملال ہے
یہ کیا سمجھ ہے آپ کی یہ کیا خیال ہے
ہر گام پر نثار دلِ پائمال ہے
آ فت کا ہے خرام قیامت کی چال ہے
(صفحہ 158)
باغ سنبھلی کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ چھوٹی چھوٹی بحروں میں عمدہ شعر کہنے پر قدرت رکھتے تھے۔ان کی شاعری سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے ؎
کیسی بے قابو طبیعت ہو گئی
بے مروت سے محبت ہو گئی
ان سے ملنے کی یہ صورت ہو گئی
غیر سے صاحب سلامت ہو گئی
(صفحہ 194)
محاورات کا استعمال بھی باغ سنبھلی کی شاعری میں انتہائی سلیقہ سے کیا گیا ہے ”دل لگی“کو کس دلکش انداز میں پیش کیا ہے، آپ بھی پڑھیں اور محظوظ ہوں ؎
دل لگی ہی دل لگی میں دل گیا
ان سے ملنے کا نتیجہ مل گیا
دے دیا سب کچھ اگر دل دے دیا
مل گیا سب کچھ اگر تو مل گیا
(صفحہ نمبر 200)
باغ سنبھلی کا فنی لوازم سے آراستہ کلام زبان کی ندرت سادگی اور پرکاری کا نمونہ پیش کرتا ہے ؎
زندگانی موت کا پیغام ہے
صبح کے بعد آنے والی شام ہے
باغ سنبھلی عاشق مزاج تھے۔شوخ مزاجی ظرافت اور چلبلا پن ان کی طبیعت کی خاص خصوصیت تھی لیکن اس کے باوجود اللہ کریم اور اس کے رسول سے بے پناہ عقیدت اور محبت میں سرشار ہو کر نعت رسول بھی کہتے ہیں۔ پہلے حمد کا شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
ایک ہے اللہ تو تیرے سوا کچھ بھی نہیں
دوسرا کوئی نہیں ہے دوسرا کچھ بھی نہیں
ایک کرشمہ ہے ترا، اے ذات پاک بے نیاز
خاک و آتش کچھ نہیں، آب و ہوا کچھ بھی نہیں
(صفحہ نمبر 109)
عشق نبی کی بہترین مثال پیش کرتے ہوئے آرزوئے محمد کی مناسبت سے شعر ؎
نہ کیوں دل میں ہو آرزوئے محمد
مناسب ہے اس گل میں بوئے محمد
وہ دل ہے کلیجے میں رکھنے کے قابل
کہ جس دل میں ہے آرزوئے محمد
(صفحہ نمبر 111)
باغ سنبھلی نہ صرف خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتے تھے بلکہ بزرگانِ دین سے بھی انھیں بہت عقیدت تھی۔ہندستان کے مشہور صوفی سید وارث علی شاہ سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ منقبت کے دو اشعار دیکھئے ؎
واقفِ رمز طریقت سید وارث علی
محرمِ رازِ حقیقت سید وارث علی
دستگیر ناتواں مشکل کشائے بے کساں
چارہ سازِ سوز فرقت سید وارث علی
(صفحہ نمبر 121)
آپ نے سید وارث علی کا شکریہ”شجرہ چشتیہ نظامیہ وارثیہ“ (صفحہ نمبر 125)نہایت دلکش انداز میں قلم بند کیا ہے۔
باغ سنبھلی نے ہر صنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ حمد،نعت،منقبت، عزل،قصیدہ،مناجات غرض کہ باغ کی شاعری کے گلشن میں ہر رنگ اور خوشبو کے پھول موجود ہیں۔قصیدہ کی ایک مثال ملاحظہ ہو ؎
احمد و امتِ احمد میں ہے تو ایسا وکیل
جیسے مابین خدا اور نبیؐ تھے جبریل
پیشوا ہوں ہمیں تیرے نہ رہے یوں حجت
حق کی پہچان میں جس طرح نہیں جائے دلیل
(صفحہ نمبر 116)
ہیئت اور مضامین دونوں اعتبار سے باغ سنبھلی کی شاعری قابل ستائش ہے۔اندازہ ہے کہ کم و بیش انہوں نے 500 غزلیں کہی ہیں۔حمد، نعت، رباعیات، خمسے،مثنوی،نظم وغیرہ ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔جہاں ایک طرف وہ زبان و بیان کی ہنر مندی سے کام لیتے ہیں وہیں مختلف شعری مضامین کو بیان کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر عمیر منظر ”داغ کی تخلیقی ہنر مندی اور ادب و شعر کی روایت سے غیر معمولی وابستگی نے انہیں وہ فنی کمال عطا کیا جس کی تمنا اکثر لوگ کرتے ہیں مگر کم ہی لوگ اس تک پہنچ پاتے ہیں“۔ افسوس! باغؔ کا کلام وقت پر شائع نہ ہونے کی وجہ سے ایک طویل عرصہ تک قارئین کی نظروں سے اوجھل رہا۔’کلامِ باغ‘ کے متعلق اویس سنبھلی کے مضمون کایہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”باغ صاحب کا کلام اس زمانے کے تذکروں و موقر رسائل میں بکثرت چھپتا تھا۔باغ صاحب خود بھی مشاعروں کا انعقاد کرتے تھے،جس میں مشاہیر شعراء شریک ہوتے تھے۔باغ صاحب کا کلام اس زمانے کے رسائل و گلدستوں وغیرہ میں محفوظ ہے بس وہیں باقی رہ گیا۔بیشتر کلام ضائع ہو گیا۔ یہ افسوس ناک اور بدقسمتی کی بات ہے کہ اردو کے لاتعداد باکمال شعرا اور ارباب فن کی طرح باغ صاحب کا شعری اثاثہ بھی نظروں سے اوجھل رہا۔اگر اردو دوست حضرات دلچسپی لیتے تو ان کے کئی دیوان مرتب ہو کر چھپ سکتے تھے۔ڈاکثر سعادت علی صدیقی مرحوم نے ان کے کلام کا ایک انتخاب مرتب کیا تھا لیکن وہ بھی شائع نہ ہوسکا،واللہ اعلم وہ انتخاب اب کس کی تحویل میں ہے“۔
باغ سنبھلی نے اپنے گھر کے نزدیک 1907 میں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کی تھی۔2/اگست 1935ء کو جب آپ اس سرائے فانی سے رخصت ہوئے تو حسب وصیت اس مسجد کو ہی ان کی آخری آرام گاہ بنایا گیا۔
اس جملوں سے اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہیں کہ اویس سنبھلی نے باغ سنبھلی کے کلام کو جمع کرنے اور تلاش بسیار کی جو تفصیل بیان کی وہ قابل ستائش بھی ہے اور قابلِ قدر بھی نیز اویس سنبھلی کی علم دوستی،اردو سے محبت اور تاریخ سے انس کا مظہر بھی۔”باغ سنبھلی کی شعری کائنات“سنبھل کی تاریخ میں ایک اہم اور منفرد مجموعہ ہے۔ اس کی اشاعت اردو ادب کے ذخیرے میں بیش بہا اضافہ ہے۔ راقم التحریر کو یقین ہے کہ پیش نظر کتاب ادبی حلقے میں بھر پور پذیرائی حاصل کرے گی نیز شعر و ادب اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کو نہ صرف باغ سنبھلی کی شاعری سے پر لطف ہونے کا موقع ملے گا بلکہ یہ کتاب سنبھل کی زرخیز تاریخ سے بھی روشناس کرائے گی۔ اویس سنبھلی اس کتاب کی تحقیق و تدوین کے لیے حقیقتاً مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ضضض