دیارِ مغرب میں اردو کا چراغ:ستیہ پال آنند

0
74

فاروق ارگلی

 

بر صغیر کی تقسیم کے بعد اس خطہ ٔ ارض کا سب سے بڑا اور مرکزی حصہ ہندوستان اور نسبتاً چھوٹا سا حصہ پاکستان کے نام سے موسوم ہوا تو آزاد ہندوستان کی نو زائیدہ سیاست نے اپنی دانست میں مسلمانوں کا پاکستان بنوا کر گویا صدیوں پرانی تہذیب اور اس سر زمین کے جسم میں روح کی طرح متحرک اردو زبان کا بھی بٹوارہ کر دیالیکن یہ تنگ نظر سیاست اپنی کوشش میں بری طرح ناکام رہی کیونکہ مادی اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہیں،دریائوں پر باندھ بنا کر ان کی روانی روکی جا سکتی ہے۔ ملکی حدود کے نام پر خاردار تاروں کی باڑھیں کھڑی کی جا سکتی ہیں، شاہراہوں پر قرنطینہ کی قدغنیں لگائی جا سکتی ہیں، ساحلوں پر پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں مگر کسی خطۂ زمین کی فضائوں میں رچی بسی صدیوں پرانی تہذیبی قدروں کو ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ اس سر زمین پر روشنی اور خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی اردو زبان کے ساتھ بھی یہ ہوا کہ لاکھوں کوششوں کے باوجود اسے ایک مخصوص سیاست کی رسیوں میں جکڑ کر سرحدوں کے اس پار دھکیلنا ممکن نہ ہوا، البتہ یہ ضرور ہواکہ اس مٹی کی خوشبو کی طرح ملک سے باہر آنے جانے والوں کی سانسوں ، خیالوں اور حرف و صدا میں گھل مل کر ترقی کی تیز گامی میں سمٹی ہوئی دنیا میں پھیل گئی۔ نئی انسانی تہذیب کے وسیع و عریض افق پر بکھرے ہوئے صدہا رنگوں کی قوس قزح میں ایک اور رنگ نمایاں ہونے لگا جسے اردو کہتے ہیں۔ اس رنگ میں رنگے ہوئے انگنت انسانوں نے ہندو مسلمان اور ہندوستان پاکستان کی تفریق کے بغیر ہجرت یا نئی دنیا میں زندہ رہنے کی ضرورت کے تحت بے گھری کے عالم میں بھی دنیا کے مختلف گوشوں میں اردو کی بستیاں بسا ڈالیں۔بلادِ مغرب کی نئی تہذیب اور بشری ترقی کی آندھیوں میں اردو کے چراغ جھلملانے لگے، یہی عالمی ثقافتی اور ادبی افق پر اردو کا نیا منظر نامہ ہے۔ دیار مغرب میں لاکھوں پاکستانیوں اور ہندوستانیوں نے اردو کی روشنی پھیلانے میں بقدر استطاعت حصہ لیاہے ۔ ان لا تعداد تہذیبی سفیروں میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں جنھوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور غیر معمولی قوتِ عمل کے ذریعہ بین الاقوامی سطح پر اپنی منفردپہچان قائم کرتے ہوئے آفاقی شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں اپنا مرتبہ و مقام خود مقرر کیا ہے۔اردو کے ایک ایسے ہی روشن چراغ کا نام ہے ستیہ پال آنند جس کی تخلیقی قوتوں سے مغربی دنیا میں اردو کے اجالے دور دور تک اپنی تنویریں بکھیر رہے ہیں۔
جناب ستیہ پال آنند کا شمار اردو زبان اور ہندوستان کے ان شاعروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے اجتہادی اور اختراعی ادبی سفر میں فکر وفن کی سنگلاخ وادیوں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے نئے راستے تلاش کیے اور اردو کے دامن کو تخلیق کے نو تراشیدہ اورنادرِ روزگار لعل و گہر سے مالا مال کرنے کی کوشش کی۔نئے نئے اسلوب ، نوبہ نو لب ولہجہ اور نئی نئی فکری دنیا ئیں تلاش کرکے لفظ و معنی کے ایوان و قصور تعمیر کیے۔
اردو کا شعری ادب دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ زبان کے شعری ادب سے کم نہیں کہا جا سکتا اگرچہ اس کی عمر نسبتاً بہت کم ہے اور گزشتہ ڈھائی تین صدیوں پر ہی محیط ہے۔ عربی قصائد اور فارسی غزل کے ساتھ ہندوستانی فکر کے سانچے میں ڈھلی اور وقت کے مشاق ہاتھوں سے تراشی ہوئی اردو غزل میرؔ، سوداؔاور غالبؔ، مومنؔ اور ذوق سے لیکر فراقؔ و فیضؔ اور ان کے پیش رو معاصرین اور مقلدین کی کاوشوں سے عالمگیر قوتِ ابلاغ کی حامل ہے۔ حالیؔ ، اقبالؔ، جوشؔ اور ان کے آگے پیچھے چلنے والا تخلیقی کارواں جدید اردو نظم کی بیش بہا دولتیںاردو ادب کے گنجینے میں سجا چکا ہے۔ اسی تخلیقی کارواں کے ایک اولوالعزم رہرو ستیہ پال آنند بھی ہیں جنھوں نے اردو کی شعری تاریخ میں انگریزی سے مستعار نظم آزاد جیسی اردو معاشرے میں نا مقبول صنف کو اپنے تخلیقی شعری اظہار کے لیے منتخب کیا ہے۔غزل کی عظٰیم ترین روایات سے انحراف نے بہتوں کو ناکامی اور نا مقبولیت کے اندھیروں میں گم کر دیا لیکن ستیہ پال آنند کے شعور میں بسے ہوئے لا محدود علمی اور فکری بصیرت رکھنے والے دور ساز شاعر نے اسی خارزار میں نئی تخلیقی بصارتوں اور فکری بصیرتوں کے پھول کھلائے۔ انھوں نے اپنی نظمیہ شاعری میں علوء فکر، ہندآریائی تہذیب، مذاہب و عقائد ، معاشرتی اقدار اور بشری فکر کی پرواز کو مغربی رنگ و آہنگ میں مکالماتی، خود کلامی اور اساطیر و روایات کی خلاقانہ صناعی سے پیش کیا کہ وہ اردو کی شعری تاریخ میں منفرد اور فقید المثال مفکر و فلسفی شاعر کی حیثیت سے اپنے طرز کے موجد بھی ہیں اور ابھی تک خاتم بھی۔ ان کی نظمیں اردو کے ادبی خزانے میں آج کی دنیا کا بہت بڑا تخلیقی سرمایہ ہیں جس کی قدروقیمت کا تعین فی الوقت آسان نہیں ہے، دنیائے اردو کے نامور ناقدین ادب اور مبصرین ان کی نظمیہ شاعری پراپنے اپنے جائزے اور مطالعے پیش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کی شاعری کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے اس سے اتنا تو واضح ہو چکا ہے کہ ستیہ پال آنندجدید آزاد نظم کے نہایت اہم شاعر ہیں جن کا فکر ی کینوس انسانی تاریخ کے تمام ادوار پر محیط ہے۔
ستیہ پال آنندگزشتہ چوتھائی صدی سے امریکہ میں مقیم ہیں اور عالمی ادبیات کے پروفیسر کی حیثیت سے شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور بقول شخصے انگریزوں کو انگریزی پڑھا رہے ہیں۔ کسی بھی ہندوستانی کے لیے بجائے خود یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ وہ کسی قوم کو اس زبان میں تعلیم دیتا ہو جو اس کی مادری زبان نہیں ہے۔ ان کی اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ شائع ہوتا رہتا ہے، اس طرح ہندوستان کے ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے آنند صاحب کی مغربی علمی وادبی دنیا میں بیحد قدرو منزلت ہے۔
اردو کے اس بین الاقوامی سفیر نے 24اپریل 1931ء کو سندھ کے قصبہ کوٹ سارنگ، ضلع چکوال (اب پاکستان) میں ایک معزز برہمن خاندان میں جنم لیا۔ ان کے والد کا نام شری رام نارائن آنند تھا۔ ان کی ماں محترمہ ودیاونتی پنجابی زبان کی شاعرہ و ادیبہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم قصبہ کوٹ سارنگ میں ہی پائی 1950ء میں صوبۂ سندھ کے تعلیمی بورڈ کے مڈل امتحان میں کامیاب ہوئے۔1947ء میں راولپنڈی کے امریکی مشن ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ انھیں مادر زاد شاعر اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی والدہ شاعرہ تھیں اور وہ تیرہ سال کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے تھے۔اسی عمر میں انھیں منشی تلوک چند محرومؔ کی توجہ بھی حاصل ہو گئی تھی۔ ان کی پہلی تخلیق حب الوطنی کے موضوع پر ایک نظم تھی جو اس زمانے کے ہفت روزہ ’پیشاور سماچار‘ میں شائع ہوتی تھی۔
1947ء میں جب تقسیم کے ہنگامے عروج پر تھے، ستیہ پال آنند بھی ترک وطن کرکے ہندوستان آگئے اور لدھیانہ میں پناہ لی، انہی دنوں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔انھیں سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے کے علاوہ بقول آنند صاحب ، انھوں نے افسانہ نگاری کو کل وقتی پیشہ بنا لیا۔ اس دوران انھوں نے سو سے زاید افسانے لکھے جو ماہنامہ شمع اور بیسویں صدی میں شائع ہوئے جن کے عوض ملنے والے معاوضے سے گزر اوقات میں مدد ملتی تھی۔ حیرت ناک حقیقت ہے کہ ستیہ پال آنندنے متعدد جاسوسی ناول دوسرے ناموں سے لکھ کر روزی روٹی کا سامان کیا لیکن زندگی کے اس آزمائشی دور میں بھی وہ تعلیم سے غافل نہیں ہوئے۔ 1951ء میں انھوں نے ادیب فاضل اور 1952ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان دیا۔ 1954ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فلاسفی میں بی اے آنرز کی سند حاصل کی۔ 1960ء میں پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کر لیا اور چنڈی گڑھ کے ڈی اے وی کالج میں انگریزی کے لکچرر ہو گئے۔1961ء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپارٹمنٹ آف انگلش اینڈ فارن لینگویجز میں تقرر ہوا۔ 1967ء میں لیکچرر سے ریڈر کے طور پر ترقی کی، اسی دوران انگریزی ادبیات میں پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کر لی۔ ان کے تھیسس کا موضوع تھا۔
‘‘Changing concept of the nature of reality and literary techniques of expression’’
سخت محنت ستیہ پال آنند کی فطرت کا خاصہ ہے۔ انھوں نے تعلیم اور زندگی کی دوسری مصروفیات اور تکلیفوں سے گزرنے کے با وجود شعر و ادب سے اپنا رشتہ مسلسل استوار رکھا۔انھوں نے ہندی میںکہانیاں اور مضامین بھی لکھے، اس کی خاص وجہ یہ تھی ہندی رسائل زیادہ معاوضہ دیتے تھے۔ پرائیوٹ تعلیمی سلسلہ جاری رہنے کے ساتھ ہی انھوں نے دہلی کے ایک ماہنامے میں مدیر معاون کی حیثیت سے 1954ء میں ملازمت بھی کی۔1956ء میں ادارہ شمع نئی دہلی نے ان کے افسانوں کا مجموعہ ’مرکز کی طرف‘ ،اور ناول ’’آہٹ‘‘ شائع کیا۔اس زمانے میں شمع کے ادارے سے چھپنے والی کتاب کی بے حد اہمیت تھی۔ 1957ء میں ان کا ایک ناول ’’چوک گھنٹا گھر‘‘ شائع ہوا جسے پنجاب سرکار نے قابل اعتراض قرار دے کر ضبط کر لیا لیکن قانونی لڑائی کے بعد ضبطی کا حکم واپس لے لیاگیا۔شعر گوئی کا مشغلہ تمام مصروفیات کے ساتھ ساتھ جاری تھا۔ یہ1958ء کا زمانہ تھا جب دہلی کے معروف شاعر میلا رام وفا ؔ نے انھیں ریاضؔ تخلص رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ان دنوں آنند خوب غزلیں کہا کرتے تھے۔ 1963ء میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’دل کی بستی‘‘ شائع ہوا۔ اب تک ستیہ پال آنند ایک کامیاب افسانہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے۔ ان کے تخلیقی مقالات انگریزی ادب کے عالمی جرائد میں شائع ہوئے۔1972ء میں ستیہ پال آنندلندن چلے گئے جہاں دو سال تک ملٹن کینبرا یونیورسٹی میں وزیٹنگ اسکالر رہے۔ واپس ہندوستان آنے پر وہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی کے نائب صدر منتخب ہوئے۔1973ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو کی حیات اور کارناموں پر انگریزی زبان میں ان کی کتاب ’Promise to keep‘ شائع ہوئی جس پر نہرو فیلو شپ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
1982ء میں پنجاب یونیورسٹی کی فاصلاتی تعلیمی کورس کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے 1985ء تا 1987ء عالمی سطح پر ’’Project world poetry‘‘ کے تحت جنوبی ایشیا کی شاعری (ہندی اردو بنگلہ) پر سائوتھ ایسٹرن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں ریزیڈنسی پراجیکٹ پر کام کیا جس کی تکمیل 1987ء میں ہوئی اور اسی سال یہ رپورٹ شائع ہوئی۔اس دوران1986ء میں امریکہ کی ٹرنٹی یونیورسٹی سے فلسفہ میں دوسری پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔ 1988ء سے 1992ء تک سائوتھ ایسٹرن یونیورسٹی واشنگٹن میں انگریزی ادبیات کی تدریس کے فرائض انجام دیے، دو سال کی مدت کے لیے سعودی عرب کے تربیتی کالج الریاض میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر آپ کا تقرر ہوا۔ بعد میں یونیورسٹی آف ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں مستقل تقرر ہو گیا اور تا دم تحریر ایک سینئر پروفیسر کی حیثیت سے انگریزی ادبیات پڑھا رہے ہیں۔ عالمی ادب پر ان کی گہری نگاہ ہے، ان کا خاص موضوع تعلیم بھی تقابلی ادب ہے جس کے اثرات اردو میں ان کی تخلیقی کاوشوں پر واضح طور پر مرتب ہوئے ہیں۔ ان کی تحریریں اور شاعری ان کے عالمی ادبیات کے وسیع مطالعے کے پس منظر میں بے حد وقیع اور وسیع معنویت کی حامل ہیں۔ان کی نظمیہ شاعری کے اب تک آٹھ مجموعے شائع ہو چکے ہیں، ان کی نظموں اور تخلیقی کاموں پر مشاہیر قلمکاروں کے تنقیدی مضامین کے دو شاندار مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے نام’ ستیہ پال آنند کی 30نظمیں ‘(مرتبہ بلراج کومل) اور’ ستیہ پال آنند کی نظم نگاری‘ (مرتبہ ڈاکٹر اے عبداللہ) شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر شکیل الرحمان، ڈاکٹر تارا چرن رستوگی، ظہر غازی پوری، بلراج کومل، ڈاکٹر گیان چند اور حقانی القاسمی سمیت متعدد پاکستانی و ہندوستانی دانشوروں کی تحریریں شامل ہیں۔انھیں سنہ 2000ء میں ان کے شعری مجموعے ’’مستقبل آ مجھ سے مل‘‘ کے لیے احمد آباد یا عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا جس میں ٹرافی و سند توصیف کے علاوہ پانچ ہزار ڈالر کی رقم بھی شامل تھی۔ یہ کسی بھی ہندوستانی شاعر کے لیے باعث فخر ہے کہ انگریزی شاعری کے ملینیم پوئٹری کلکشن میں ان کی نظم ’Lemination on mother of earth‘ کو نمایاں طور پر شامل کیا گیا۔عالمی شہرت یافتہ شاعر، ادیب اورماہر تعلیم جناب ستیہ پال آنندہمیشہ کی طرح گزشتہ ماہ فروری میں ہندوستان آئے تھے۔ 11؍فروری 2008ء کو جناب نند کشور وکرم صاحب کے سالانہ مجلہ عالمی ادب کے گوپی چند نارنگ نمبر کی رسم اجرا سابق وزیر اعظم جناب آئی کے گجرال نے اپنی رہائش گاہ پر انجام دی تھی۔ اس تقریب میں راقم الحروف کو اردو کے آنند صاحب شاعر سے پہلی بار ملنے کا موقع ملا۔ چوتھائی صدی سے زیادہ مدت مغربی دنیا میں گزارنے اور انگریزی پڑھانے کے باوجود مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی ان کی شخصیت میں دور دور تک مغربیت کا شائبہ تک نہیںوہ آج بھی سر تاپا ہندوستانی اور اردو تمدن کا پیکرہیں۔ تقریب کے بعدان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ وہ جس سادگی ، خوش دلی اور حلیمی سے پیش آتے ہیں اس سے ہر نیا ملاقاتی ان کی شخصیت کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ستیہ پال آنندصاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جن میں ایک بیٹا کناڈا میں مقیم ہے باقی سب کا مستقل قیام امریکہ میں ہے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو مغربی سوسائٹی میں ہندوستانی انداز سے شاندار زندگی گزارنے کے قابل بنایا ہے۔
مطبوعات
nجائزے (شعری مجموعہ)1952ء nجینے کے لیے (افسانوی مجموعہ)1953ء nعشق، موت اور زندگی(ناول)1954ء n اپنیمرکز کی طرف (افسانوی مجموعہ)1956ء nپینٹر باوری (افسانوی مجموعہ) 1956ء nآہٹ (ناول)1957ءn چوک گھنٹہ گھر (ناول)1958ء nدل کی بستی (افسانوی مجموعہ) 1963ء nپچاس اور ایک (ہندی51 کہانیوں کا مجموعہ)1967ء nپرامس ٹو کیپ (Promise to keep) 1973ء (انگریزی میں پنڈت نہرو کے حالات اور کارنامے) nپتھر کی صلیب1989ء n اپنی اپنی زنجیر (افسانوی مجموعہ)1990ءn دستِ برگ (شعری مجموعہ)1990ء nشہر کا ایک دن (چوک گھنٹہ گھر کا ہندی ترجمہ)1990ء nوقت لا وقت (شعری مجموعہ)1993ءnآنے والی سحر کی کھڑکی بند ہے 1995ء n (شعری مجموعہ لاہور سے شائع ہوا) nلہو بولتا ہے (شعری مجموعہ)1997ءnمستقبل آ مجھ سے مل (شعری مجموعہ)1999ءnآخری چٹان تک (شعری مجموعہ)2000ءn مجھے نہ کر وداع (شعری مجموعہ)2004ء nمیرے اندر ایک سمندر (شعری مجموعہ)2007ء nاردو شاعری کے متعدد انگریزی ترجمے
پال آنند کی ایک محوسانی نظم:
انا للہ و انا الیہ راجعون
ایک مردہ تھا جسے میں خود اکیلا
اپنے کندھوں پر اٹھائے
آج آخر دفن کرکے آگیا ہوں
بوجھ بھاری تھا مگر اپنی رہائی کے لیے
بے حد ضروری تھا کہ اپنے آپ ہی اس کو اٹھائوں
اور گھر سے دور جاکر دفن کردوں
یہ حقیقت تھی کہ کوئی واہمہ تھا
پریہ بدبو دار لاشہ
صرف مجھ کو ہی نظر آتا تھا ،جیسے
ایک ناویدہ چھلا وہ ہو، مرے پیچھے لگا ہو
میرے کنبے کے سبھی افراد اس کی
ہر جگہ موجودگی سے بے خبر تھے
صرف میں ہی تھا جسے یہ
ٹکٹکی باندھے ہوئے بے نور آنکھوں سے ہمیشہ گھورتا تھا
آج جب میں
اپنے ماضی کا یہ مردہ دفن کرکے آگیا ہوں
کیوں یہ لگتا ہے کہ میرا
حال بھی جیسے تڑپتا لمحہ لمحہ مر رہا ہو
اور مستقبل میں جب یہ حال بھی ماضی بنے گا
مجھ کو پھر اک بار اس مردے کو کندھوں پر اٹھائے
دفن کرنے کے لیے جانا پڑے گا!
(تحریر: 2008)
9212166170

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here