ڈاکٹر محمد ظفر حیدری
خدا نے چاہا کہ محبوب سے کرے باتیں
تو پھر ہے بہر ملاقات واسطہ معراج
رسولؐخدا اور ان کے تمام خاندان نے شعب ابی طالب میں کامل تین برس تک جن مصیبت وشدت میں دن دن کاٹے اور راتیں گزاریں ان کا بیان دشوار ہے۔ کھانا پینا بند، آنا جانا ترک، خریدو فروخت موقوف۔ شعب سے باہر نکلنا دشوار۔ یہ ترک موالات کا ہے کو تھی۔ جس دوام کی پوری سزا تھی۔ غریب محصورین پر جن میں خورد سال بچے اور شکستہ پا عورتیں بھی شامل تھیں ایسا وقت آگیا تھا کہ دانہ دانہ کومحتاج تھے۔ اتنی محال تو نہ تھی کہ شہر میں جاکر ضروریات روز مرہ کی چیزیں لائیں۔ اور اگر جرأت کرکے جائیں بھی تو دیتا کون ہے؟ اس مجبوری سے محاصرین کو تلاش آزوقہ کے لئے اطراف مکہ میں دور دور تک نکل جانا پڑتا تھا۔ اور صبح سے شام تک ان غریبوں کو النصیّب ما یُصب، جو کچھ مل جاتا تھا وہ رات کو گھر میں لاکر دن بھر کے بھوکے بال بچوں کو کھلانا ہوتا تھا۔شعب ابی طالب اصلاً پہاڑ کا ایک درّہ تھا جو خاندان بنی ہاشم کا موروثی تھا۔شعب ابوطاب میں تین سال آلام و مصائب جھیل کر رسولؐخدا د شمنوں کے ہاتھوں رہا کئے گیے۔ اور بقول مولف طبقات سعد، مخلعی کے بعد ہی خدائے پاک وپاکیزہ نے محمدؐ کو رتبۂ معراج جسمانی عطا فرماکر آپ کی خاص مرتبہ افزائی کی۔ اور راتوں رات کرشمۂ قدرت نے آنحضرتؐ کو آنکھ جھپکنے میں تمام ملکوت سمٰوات کی سیر کرائی۔ خود اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اعلان کرتا ہے:-
’’وہ خدا پاک ہے جو اپنے بندے (محمدؐ) کو راتوں رات مسجد حرام (خانۂ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گیا۔ جس کی اردگرد ہم نے (دنیا ودین کی) برکتیں دے رکھی ہیں (اس میں ان کے جانے سے مقصود یہ تھا) کہ ہم ان کو اپنی (قدرت) کے نمونے کی سیر کرائیں۔ اور (ان کو بعض اسرار غیب معلوم ہوں) اور نہ اصل سننے والا دیکھنے والا (غیب داں) وہی خدا ہے (ترجمہ قرآن حافظ نذیر احمد)۔
واقعہ معراج کے سال میں اختلاف ہے۔ لیکن اکثر محدثین اور مورخین نے ۱۰ نبوت پر اتفاق کیا ہے۔ ابتدا سے لے کر اس وقت تک علمائے وحکمائے اسلام میں یہ واقعہ تاریخی حیثیت سے زیادہ بحث معقول ومنقول کی صورت میں دکھلایا گیا ہے اور طرفین سے خوب خوب طبع آزمائیاں اور خامہ فرسائیاں ہوئی ہیں۔
سرسید احمد خاں مرحوم کو اس مسئلہ میں خاص طور پر تامّل رہا ہے۔ انہوں نے بڑے شدومد اور رد وکد سے خطابات احمدیہ میں معراج کی تما م مرویات مندرجہ کتب اسلامیہ کی تردید وتکذیب فرمائی ہے گویا معراج جسمانی کے تمام دلائل وبراہین کو غلط ٹھہراکر ام المومنین حضرت عائشہؓ اور امیر معاویہ کی مرویات پر اپنا موقف قائم کیا ہے ۔ اور اس واقعہ کو خواب کے پیمانہ پر معمولاً سمجھ لیا ہے۔ سرسید کے خطبات میں واقعۂ معراج کا سال ۱۰ نبوت ثابت ہوچکا ہے۔ ا س زمانے میں ام المومنین کی زوجیت واقع نہیں ہوئی تھی۔ غالباً جناب صدیقہ کبریٰ خدیجہ بقید حیات تھیں اس لئے ان کا بیان کیسے صحیح اور قابل اعتبار ہوگا۔ یہی حالت معاویہ کی ہے۔ وہ شاید اگر پیدا ہوچکے بھی ہوں تو دودھ پیتے ہوںگے۔ اس لئے قابل الروایات نہیں۔ اصول تنقید احادیث کی رو سے تو ۸ ہجری تک جب تک یہ اسلام سے مشرف نہ ہوئے۔ کسی مسلمان کے آگے قابل الروایات بھی نہیں ہوسکتے۔ اس کے علاوہ قاعدۂ تنقید کے مطابق یہ دونوں حضرات اگر موجود بھی ہوں اور قابل الروایات بھی ہوں، تاہم شریک واقعہ نہیں تھے جو جسم مطہر رسولؐ بستر مبارک پر رہنا دیکھ سکے ہوں۔ کیونکہ باتفاق جمہور واقعۂ معراج مکہ معظمہ میں حضرت ام ہانی بنت ابوطالبؑ کے گھر میں واقع ہوا۔ (ابن کثیر، ابن ہشام، قسطلانی وغیرہ)
حکمائے وعلمائے اسلام میں یہ بحث ومسئلہ ہمیشہ معرکہ آرا رہا ہے کہ معراج رسول جسمانی ہوئی تھی یا روحانی؟ امام رازی، امام غزالی، شیخ محقق طوسی اور ملا عبدالرزاق لاہجی وغیرہ نے بڑی بڑی معقولی بحث اس موضوع پر لکھی ہیں۔ اور ہر قرینہ سے معراج جسمانی اوراس کی معقولیت کے تمام مشاہدات کو عین امکان ثابت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ معراج القدس مضامین عالیہ، تجرید اور گوہر مراد، لیکن ان تمام حضرات کے بیانات واکتشافات سے زیادہ سہل اور عام فہم مضامین میں شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے معراج کے تمام مقاصد ومشاہد کو بتلایا ہے۔ اُن کی خاص عبارت کا ترجمہ ذیل میں درج کرتے ہیں:-
’’رسول اللہ کو مسجد اقصیٰ تک پھر سدرۃ المنتہیٰ تک اور جہاں تک کہ خدا نے چاہا سیر کرائی گئی۔ یہ سب کچھ جسم کے ساتھ بیداری میں تھا۔ لیکن سمجھ رکھنا چاہئے کہ یہ ایک مقام ہے جو عالم مثال اور شہادت کے درمیان واقع ہے اور ہر دو عالم مذکورہ کے احکام کا جامع ہے، جسم پر اس عالم میں روح کے احکام ظاہر ہوئے اور روح ومعانی نے جسم قبول کرے تمثیل اختیار کی۔ اس لئے تمام واقعات میں ہر ایک واقعہ کے واسطے ایک خاص معنی ہیں اور تعبیر۔‘‘
براق پرسوار ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ نفس ناطقۂ نسمّہ پر جو کمال حیوانی ہے غالب آجائے۔ آنحضرت ؐبراق پر اُسی خوبی سے سوار ہوئے جس طرح آپ کے نفسِ انسانی کے احکام قوت بہیمیّہ پر غالب ومسلط ہیں۔
مسجد اقصیٰ تک کی سیر اس لئے ہے کہ وہ شعائر الٰہیہ کے ظہور کا محل ہے۔ ملأ اعلیٰ کی ہمتیں اس سے متعلق ہیں اور وہ انبیاء علیہم السلام کی نگاہوں کی نظرگاہ ہے۔ گویا وہ ملکوت کا ایک قبہ ہے۔
انبیاء علیہم السلام سے ملاقات اورمفاخرت کی حقیقت یہ ہے کہ خطیرۃ القدس سے جو ان کو اجتماعی ربط وضبط حاصل ہے اور اجماعی امور کا نہایت کاملیّت کے ساتھ آنحضرتؐ سے تمام جگہ ظہور ہوا۔
آسمانوں پر یکے بعد دیگرے چڑھنے کی حقیقت یہ ہے کہ درجہ بہ درج تعلقات طبعی سے نکل کر مستوی (جائے استقرار) رحمن کی طرف جانا ہے۔ نیز ان فرشتوں کی حالت سے معرفت حاصل ہونا۔ آنحضرتؐ اور آپ کی امت کے بزرگان قوم کے قریب تر رہنے پر مامور ہیں۔ نیز تدبیر کلّیہ کی شناخت اور ان امور کی دریافت جن پر ملائکہ مقربین غرض مسابقت کیا کرتے ہیں گریۂ موسیٰؑ۔ واضح ہو کہ گریہ موسیٰؑ سے حسد کا اظہار مراد نہیں بلکہ اظہار اس امر کا ہے کہ ان کی رسالت تمام دنیا کے لئے عام نہ تھی اور یہ کمال باقی تھا جو موسیٰؑ کو ملا نہیں تھا۔
سدرۃ المنتہیٰ: درخت عالم ہے کہ ایک وجود دوسرے وجود پر مترتب اور پھر سب کے سب تدبیر واحد کے اندر جمع ہیں جیسا کہ درخت کا بھی غذا ونمو میں یہی حال ہے۔ واضح رہے کہ کسی حیوان سے اس کی تمثیل نہیں دی گئی، چونکہ وہ تدبیر کلّیہ اجمالیہ جو سیاست کلیہ سے مشابہت رکھتی ہے وہ بھی مفرد ہے اس لئے بہترین مشابہت اس کی درخت میں پائی جاتی ہے کہ ایک ہی تنہ پر مختلف قسم کی شاخیں ڈالیاں اور پتے ہوتے ہیں۔ اور غذا و نمو میں برابر سب مستفیض ہیں اور حیوان میں یہ مشابہت پائی نہیںجاتی کیوںکہ انسان میں قوائے تفضیلہ بھی ہیں اور وہ ارادہ بھی رکھتے ہیں اور یہ سنن طبعتم سے زیادہ صریح ہیں۔
دریائے آسمانی: اصل خدا کی رحمت فائضہ ہے۔ جو عالم ملکوت میں عالم شہادت کے مجاذی موجود ہے۔ نیز حیات ونمود بھی اسی میں داخل ہے، اس لئے ظاہراً چند اسباب نافعہ مثل و نیل وفرات وغیرہ کا تعین فرمایا گیا ہے۔
انوار الٰہیات: رہے وہ انوار جنہوں نے اسے ڈھانپ لیا۔ وہ تجلیات رحمانی او رتدبیرات ربّانی ہیں۔ جو عالم ظہور میں جلوہ گستر اور نور بیز ہیں۔ جہاں تک اس عالم میں ان کی استعداد پائی جاتی ہے۔
بیت المعمور: اس کی حقیقت وہ تجلی ہے جس کی طر ف بندگان خدا کی دعائوں اور سجدوں کا رخ ہوتا ہے۔ وہ خانہ کعبہ وہ بیت المقدس کے محاذ میں جیسا کہ ان لوگوں کا ان ہر دو کے بابت اعتقاد ہے، ایک گھر کی تمثیل لئے ہوئے ہے۔
پانچ وقتوں کی نماز کا تقرر: بھی زبان تجویزی سے ہوا ہے۔ لیکن ثواب کے اعتبار سے یہ پچاس کے برابر ہیں۔ گویا خداوندعالم نے آہستہ آہستہ یہ سمجھایا ہے کہ ثواب تو (۵۰ کے برابر) کامل ہے اور ہرج مرج میں اٹھا دیا گیا ہے۔ یہ مطلب حضرت موسیٰؑ کی سند سے ممثل کیا گیا ہے۔ کیونکہ جناب ممدوح بہت سے انبیاء علیہم السلام سے امت کی اصلاح ودرستی اور اصول سیاست اور شناخت ومعرفت امّت میں بڑے ہوئے ہیں۔‘‘
صاحب رحمۃ للعالمین نے خاتمۂ بحث پر عبارت حاشیہ میں لکھی ہے وہ یہ ہے:-
’’علامہ ابن القیم لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ ومعاویہ وا مام حسن بصری سے مروی ہے کہ اسراء روح مبارک کو ہوا تھا اور جسم مبارک اپنی جگہ سے مفقود نہیں ہوا تھا۔ علامہ موصوف (ابن القیم) کہتے ہیں کہ اسراء روحی اور خواب میں بہت فرق ہے۔ اسراء روحی سے مراد تو یہی ہے کہ روح مبارک کو ان جملہ مقامات کی سیر کرائی گئی او رخواب میں یہ بات نہیں ہوتی۔ یہ درجہ اتم، اکمل، اشرف اور اعلیٰ ہے۔ علماء کے ایک گروہ کا قول ہے کہ اسراء بدن او رروح کے ساتھ تھا۔‘‘ (زاد المعاد صفحہ ۳۰۱)
واضح ہو کہ عروج جسدی کا انکار آج کل کے فلسفۂ خشک کے اعتبار پر فضول ہے۔ کیونکہ جس قادر مطلق نے اجرام سماویہ کے بھاری بھرکم اجسام کو تھام رکھا ہے اور عینِ خلاء میں اس کو قائم کیا ہے وہ جسم انسان کے جرم صغیر کو خلاء میں لے جانے کی بھی ضرور قدرت رکھتا ہے۔ آجکل آکسیجن (Oxygine) کی طاقت سے ہوائی جہاز اور ان جہازوں کے اندر آدمی برابر اُڑ رہے ہیں۔ اس لئے خداوندکریم کا اپنے نبیؐ کریم کو بسواری براق جو البرق سے مشتق اور الکٹرک سٹی (Electricity) کی طاقت مخفیہ کی جانب اشارہ کن ہے۔ ملک السمٰوات کی سیر کرانا کچھ بھی مستعبد نہیں۔ (رحمۃ للعالمین صفحہ ۶۶)
براق اور معراج کی گویا تمام بحث کو میر وحیدؔ لکھنوی نے اپنے ایک مصرعہ میں لکھ کر تمام کردیا جو براق کی صفت میں کہا گیا۔
ع کہنے کو براق اصل میں خالق کی کشش تھی
اپنی بات کو سید اقبال کاظمی مرحوم کے ان اشعار پر تمام کرتا ہوں کہ
خدا نے بندے کو اپنے بلالیا اک شب
ہے ارتقائے بشر کی وہ انتہا معراج
علیؑ کے لہجہ ٔ مانوس میں نبیؐ سے کلام
خدا کا بندے سے اپنے مکالمۂ معراج
9596267110