عالم اسلام کا بڑا خسارہ- The great loss of the Islamic world

0
98

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


The great loss of the Islamic world

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امیر شریعت امارت شرعیہ بہار ،جھارکھنڈ و اڑیشہ مولانا ولی رحمانی کا آج پٹنہ(بہار)میں دوپر میں انتقال ہو گیا ۔ مولانا گذشتہ کئی دنوں سے سخت علیل تھے اور کرونا سے بھی متاثر ہوگئے تھے ۔ ان کے انتقال سے عالم میں ایک سوگ کی فضا ہے۔تمام علمائے کرام اور ملی و سجامی تنظیموں نے ان کے اتقال کو عالم اسلام کے برے خسارے سے تعبیر کیا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر اور ناظم دالعلوم ندوۃ العلما لکھنو نے ان کے انتقال پر مغموم لہجہ میں تعزیت کرتے ہوئے کہا مولانا ولی رحمانی امت کی کشتی کے کھیون ہار تھے۔اور ان سے ملی مسائل کے حل کے سلسلہ میں بری تقویت مل رہی تھی۔ان سے امت کو بڑا فائیدہ کو پبہت پہونچ رہا تھا،انھوں نے تا زندگی دین کی خدمت کی۔انھوں نے کہا کہ ملت جو ہندوستان میں القیت میں ہے اسے ایسے اشخاص کی بڑی ضرورت ہے۔ ان کے جانے سے جو نقصان ہوا ہے اللہ اس کا بہتر اجر امت کو فرمائے۔مولانا ولی رحمانی کی معیت سے ہمیں بڑی قوت حاصل تھی ۔وہ سکریٹری جنرل تھے بورڈ کے اس لئے ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ تھیں۔یہ مقدر کی بات ہے کہ اللہ نے ان کی جو عمر رکھی تھی وہ اسے پوری کر کے دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری و جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی نے مسلم پرسنل لاء بورڈکے جنرل سکریٹری اور امیر شریعت مارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ و اڈیشہ مولانا سید محمد ولی رحمانی کی وفات حسرت آیات پر گہر ے ر نج و الم کا اظہار کیا ہے۔
مولانا ولی رحمانی مرحوم دار العلوم دیوبند کے اجل فضلاء میں سے تھے۔ وہ عصر حاضر میں ملت اسلامیہ ہند کے مسائل کو لے کر کافی سنجیدہ اور فکر مند رہتے تھے اور وہ اس سلسلے میں مختلف فورم پرسرگرم تھے۔ تعلیمی میدان میں بھی انھوں نے کئی بڑے کام کیے ہیں۔ وہ مرکزی بہار میں واقع خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، صاحب نسبت بزرگ اور ہزاروں تشنگان حق کے لیے چشمہ فیض تھے۔ان کے والد مولانا سید منت اللہ صاحب رحمانی ؒ، شیخ الاسلا م مولانا حسین احمد مدنی ؒکے شاگرد تھے۔ مولانا منت اللہ صاحب ؒ مدنی ؒ سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور مدنی ؒ کی ہدایت پر آزادی سے قبل اور بعد جمعیۃ علماء کی تحریکات میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔مولانا منصورپوری اور مولانا مدنی صاحبان نے مولانا مرحوم کے انتقال کو ملت اسلامیہ ہند کے لیے بڑا خسارہ بتایا اور کہا کہ اس سے ملی جہدوجہد کے میدان میں خلا پیدا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند اور اس کے خدام اس سانحہ عظیم پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہیں اور اہل خانہ بالخصوص صاحبزادہ سید محمد فہد رحمانی، مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور امارت شرعیہ بہارو جھارکھنڈ و اڈیشہ کے ذمہ داروں کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کے قدر آ ور اور عظیم مسلم رہنما ولی رحمانی 5جون 1943 کو دنئاے فانی میں آئے اور 3/اپریل 2021 کو اپ نی عمر طبعری پوری کر کے رخصت ہوئے ۔ آپ دسیوں اداروں کے ذمہ دار تھے اور اہم عہدوں پر فائز تھے ۔مولانا ولی رحمانی نے 1974 سے 1996 تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 1991 کے بعد سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے موجودہ سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست رہے۔ آپ کے دادا مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوۃ العلماء ہیں۔ اس خانقاہ کے روحانی سلسلہ میں شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی بہت ہی اہم کڑی ہیں۔ وہ اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔وہ رحمانی 30 کے اببنی بھی تھے ۔یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلی تعلیم و قومی مقابلاجاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے اس ادارے سے ہر سال NEET اور JEE میں 100 سے زائد طلبہ منتخب ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا سید ولی رحمانی عوامی تقریر ، اپنی شخصیت و ملی مسائل میں جرأت صاف گویئ و بےباکی اور دونوں ہی شعبوں میں تعلیم کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ کسی کو ایک وقت میں دونوں طرح کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور کسی بھی چیز سے پہلے انسان کو انسان ہی ہونا چاہیے۔بلا شبہ ایسے ہی عالم دین کے بارے مین کہا گای ہے کہ “موت العالِم موت العالَم۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here