قرآن کی بے حرمتی تشویشناک عمل- The desecration of the Qur’an is a worrying act

0
222
The desecration of the Qur'an is a worrying act
عتیق احمدفاروقی

پورے عالم کے تمام فرقوں کے مسلمانوں شیعہ ،سنی ،دیوبندی،بریلوی یااہل حدیث کا مکمل اتفاق ہے کہ قرآن کریم اپنی اصلی نازل شدہ صورت میں پوری دنیامیں موجود ہے اورانشاء اللہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔قرآن کی کسی آیت میں تبدیلی کاسوچنا تو دور اُس کے زیروزبراورایک نکتہ تک میں بھی ترمیم ناممکن ہے۔اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے قرآن کریم کی 26؍آیتوں کے بارے میں عدالت عظمیٰ میں پٹیشن داخل کی ہے۔ دراصل دومقاصد سے اِ س نامعقول شخص نے یہ کام کیاہے۔ اول، اُس کا خیال ہے کہ اِس عمل سے اُسے نہ صرف پورے ملک میں بلکہ پورے عالم میں پبلک سٹی اورشہرت ملے گی۔اوردوم،حکمراں جماعت اُس کے اِس کام سے خوش ہوکر بدعنوانی کے سبب اُس پر لگے ہوئے تمام الزامات اورمقدمات واپس لے لے گی۔ وہ شاید اِس حقیقت سے ناآشناہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔جب تک خداوندقدوس کی مرضی نہیں ہوگی جب تک اُس کاکچھ بھی بھلا ہونے والا نہیں ہے بلکہ اب تو لگتاہے کہ اُس کی تقدیر میں مصیبت اورپریشانی کے دلدل میں دھنسنے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں لکھا ہے۔ جس شخص کو قرآن کا علم ہی نہیں ہے وہ اُس پر اپنی عقل سے کیاتبصرہ کرے گا؟وہ کچھ لاعلم اورناخواندہ افراد کے تبصرے کی نقل کرکے مسلم مخالفین کو ایجنڈے کو فروغ دے رہاہے اوراِس طرح اپنا الّو سیدھا کرنے کی کوشش کررہاہے۔
دراصل وسیم رضوی کی یہ نازیباحرکت کوئی نئی نہیں ہے ، ایسی بدتمیزیاں وہ اسلام ،مسلمانوںاور شاعراسلام کے بارے میں ماضی میں بھی کرتارہاہے۔اِس بار اُس نے نہ صرف قرآن کریم کے بارے میں بلکہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان امہات المومنین کے بارے میں نازیباتبصرہ کیاہے ۔ خلفائے راشدین، امہات المومنین اور صحابہ کی جماعت مقدسوں کی جماعت ہے ، کوئی مومن اُن کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت نہیں کرسکتا،اُن کے خلاف زہراگلنے والے شخص کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ علمائے دین نے یہ بھی اپیل کی ہے اورمیں بھی اس سے پوری طرح سے اتفاق کرتاہوں کہ اس معاملے میں اشتعال میں آنے کی ،بہت زیادہ احتجاج ومظاہرہ، دھرنایاجلسہ جلوس کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ کے سامنے ہے اور جیسا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمدولی رحمانی صاحب نے اطلاع دی ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ٹیم اِس معاملے کو شروع سے دیکھ رہی ہے اور اس نے ماہرین قانون کے مشورے سے اپنا موقف تیار کرلیاہے، پٹیشن تیار ہورہی ہے ، اعلیٰ قانون دانوں کے مشورے کے مطابق مناسب وقت پر سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی اورپوری مضبوطی سے سپریم کورٹ میں مسلمانوں کا موقف رکھاجائے گا۔
اِس طرح کی حرکت کرکے وسیم رضوی نے پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کے وقار کو بھی مجروح کرنے کی کوشش کی ہے۔ علماء نے حکومت سے فرقہ وارانہ خیرسگالی اوربھائی چارہ کے جذبے کو مجروح کرنے کی کوشش کرنے والے اِس شخص کی فوری گرفتاری کامطالبہ کیاہے۔شیعہ علمائے دین نے بھی واضح کردیاہے کہ وسیم رضوی کا اسلام اورشیعہ فرقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوںکہ وہ شدت پسند اور مسلم مخالف تنظیموں کاایجنٹ ہے۔وہیں ان کے بھائی نے بھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیوجاری کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ وسیم رضوی سے ان کااوران کی والدہ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس طرح کے جاہلانہ مطالبہ کے بعدہمارے گھر میں یا اسلام میں ان کی کوئی جگہ نہیں ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر وناظم ندوۃ العلماء مولانا رابع حسنی ندوی نے بھی وسیم رضوی کی حرکت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس حرکت سے نہ صرف یہ کہ اس کی جہالت کھلا ثبوت ہے بلکہ صحابہ ؓ اورخاص طور پر خلفائے راشدین اورازواج مطہرات کیلئے اس کے دل میں کتنا کینہ ہے ،اس کا اظہار بھی اس کی اس بیہودہ گوئی سے واضح ہوتاہے ۔اسلامک سینٹرآف انڈیا کے چیئرمین اورامام عیدگاہ مولانا خالد رشیدفرنگی محلی نے بھی وسیم رضوی کے بیان پر سخت اعتراض کیا ہے۔ان کا کہناہے کہ جو لوگ قرآن کی آیتوں کو حذف کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں وہ دراصل اسلام اورمسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں ۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے ایسی بیہودہ عرضی خارج کرکے وسیم رضوی کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیاہے۔ شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس نقوی نے ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا قرآن پرمکمل اعتماد ہے۔قرآن میں صرف اچھائیاں بتائی گئی ہیں۔ قرآن دہشت گردی کی جانب راغب کرتاہے ، یہ بات گمراہ کن اورقابل مذمت ہے۔قرآن دلوں کو جوڑنے کی دعوت دیتاہے ،توڑنے کی نہیں۔ مجلسِ علمائے ہند کے جنرل سکریٹری اورامام جمعہ مولانا کلب جواد نقوی نے کہا کہ اہل تشیع قرآن میں کسی بھی طرح کی تبدیلی اورتحریف کے قائل نہیں ہیں۔وسیم رضوی نے ایسا سخت مطالبہ مسلم مخالف طاقتوں کو خوش کرنے کیلئے کیاہے۔ قرآن کی جن آیتوں کے سلسلے میں اُس نے عرضی دائر کی ہے اُسے ان آیتوں کا بالکل علم نہیںہوگا۔اُسے جو مسودہ تیار کرکے دیاگیا اس کو عدالت میں اُس نے داخل کردیا ۔ وہیں مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے بھی شیعہ سنی دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہمارے درمیان توحید ،نبوت اورقرآن پرکوئی اختلاف نہیں ہے۔ وسیم رضوی کی اس شیطانی حرکت سے پوری امت مسلمہ کوتکلیف پہنچی ہے۔
قرآن میں تشدد کی اجازت چند خاص حالات میں دی گئی ہے ۔غیرمسلم پر تشددکی اجازت تبھی ہے جب وہ مسلمانوں کو محاصرہ میں لیکر اُن پر حملہ کردے یا حملہ کرنے کاارادہ رکھتے ہوںیا وہ مسلمانوں کو عبادت کرنے سے زبردستی روکتے ہوں ۔ اگرغیرمسلم مسلمانوںپر حملے کاارادہ ترک کردیں یاعبادت روکنے کا کام چھوڑ کر معافی مانگ لیں تو مسلمانوںکو انہیں معاف کردیناچاہیے اورمفاہمت کاراستہ اپناناچاہیے۔قرآن کی جن آیتوں سے تشدد کی ترغیب کااحساس ہوتاہے اُسے مبینہ تناظرمیں ہی دیکھناچاہیے۔
یہ کہاجاناکہ قرآن دہشت گردی کوفروغ دیتاہے بالکل غلط ہے ۔ قرآن کہتاہے کہ ’’تمہارا دین تمہارے ساتھ،ہمارا دین ہمارے ساتھ‘‘(6-109).اس تحریر کامطلب یہ ہے کہ مذہب تنازع کی وجہ نہیں بنناچاہیے ۔اسلام کا مطلب امن اورسلامتی ہے۔ اس کا مقصد ہے معاشرے میں امن سلامتی اور مساوات قائم کرنا ۔ قرآن پاک میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ’مذہبی معاملات میں طاقت کااستعمال ممنوع ہے‘۔ (2-256). قرآن کی اِسی طرح قرآن میں سورہ مائدہ میں تحریر ہے کہ’ ایک بے گناہ انسان کاقتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے مساوی ہے اورایک معصوم انسان کی زندگی بچاناپوری انسانی برادری کی زندگی بچانے کے مانندہے‘۔(5-136) .لفظ ’جہاد‘کے بارے میں بھی بڑی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جہاد کامطلب غیرمسلم توکیامسلم بھی نہیں سمجھتے۔جہاد کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر پیش کیاجاتاہے کہ بناکسی جائز سبب کافروں کاقتل کرنا جہاد ہے جبکہ اسلام میں کافروں کوبھی کافرکہنے سے روکا گیاہے، اُن پر بناسبب حملہ کرنایاقتل کرنا تودور کی بات ہے ۔ ’جہاد‘کا آخری مقصد سبھی کی بھلائی ہے اورکسی کو (خود کو بھی)نقصان نہیں پہنچاناہے۔ اِس طرح پتہ چلاکہ 98فیصد معاملوں میں ’جہاد‘کاتشدد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔جہادکا مطلب ہے معاشرے کی برائیوں کو دور کرنے کیلئے کوشش کرنا اوراپنی داخلی برائیوں کو دورکرنے کیلئے نفس سے لڑنا ۔یہ تمام باتیں ثابت کرتی ہیں کہ قرآن پاک کی کسی بھی تحریر پر انگشت نمائی کرنا غلط اورغیرمناسب ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کوناراض کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن سے کسی بھی مسلمان کاانکار وحدانیت ،رسالت، امامت اور آخرت سے انکار ہے۔ جسے قرآن پر اعتراض ہے اگروہ مسلمان ہونے کا دعویدار ہے تو وہ بالکل غلط ہے ۔اُسے خود کو مسلمان کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
سبکدوش پرنسپل ,ممتازپی-جی-کالج لکھنؤ
9161484863

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here