شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، صدر دوم جمعیۃ علماء ہند

0
220

شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒ
صدر دوم جمعیۃ علماء ہند
بقلم:ڈاکٹر محمد عارف عمری،ممبئی
آپ کی پیدائش 19/ شوال1296ھ مطابق 1879ء بمقام قصبہ بانگر مؤ ضلع اناؤ (یوپی) میں ہوئی۔جہاں آپ کے والداردو مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور مع متعلقین وہیں مقیم تھے۔آپ کا آبائی وطن موضع الٰہ داد پور،تحصیل ٹانڈہ ضلع فیض آباد(یوپی) تھا،آپ 3سال کی عمر تک والد صاحب کے ساتھ قصبہ بانگر مؤ میں مقیم رہے۔چونکہ پردیسی اقامت کی وجہ سے زمینداری کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا اس لئے والد صاحب نے اپنے وطن ٹانڈہ تبادلہ کی کوشش کی،حالانکہ حکام بالا نے اس میں لیت و لعل کی کہ ٹانڈہ کے ہیڈ ماسٹر کی تنخواہ 20/روپئے ماہانہ ہے،جبکہ آپ کو بانگر مؤ میں 30/روپئے مل رہے ہیں اورموجودہ مشاہرہ آپ کو ٹانڈہ میں نہیں دیا جا سکتا۔مگر ضروریات وقت نے اس قلت تنخواہ پر بھی تبادلہ کرانے پر مجبور کیا،اور بالآخر وہاں سے تبادلہ کراکر ٹانڈہ تشریف لے آئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔ ابتدائی تعلیم والد صاحب کی زیر نگرانی ٹانڈہ میں حاصل کی۔1309ھ میں جبکہ آپ کی عمر 13/سال تھی،آپ کو دیوبند شیخ الہند قدس سرہ العزیز کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔جہاں شیخ الہند ؒ نے مخصوص شفقت کے ساتھ اپنی اولاد کی طرح تربیت شروع فرمائی،اپنی نگرانی میں رکھا اور اپنی گوں نا گوں مشاغل کے باوجود حضرت مولانا حسین احمد مدنی کوبہت ساری کتابیں خود ہی پڑھائیں،اکثر کتابیں خارج اوقات مدرسہ میں پڑھائیں۔دار العلوم دیوبند کے قیام کے دوران آپ نے حضرت شیخ الہندؒ،مولانا ذوالفقار علی صاحب (والد ماجد حضرت شیخ الہندؒ)،مولانا عبد العلی ؒ،مولانا خلیل احمد ؒ،مولانا الحکیم محمد حسنؒ،مولانا المفتی عزیز الرحمٰنؒ،مولانا غلام رسولؒ،مولانا منفعت علی ؒ،مولانا لاحافظ احمدؒ،مولانا حبیب الرحمٰن اور بڑے بھائی سے علم حاصل کیا۔ صرف سات سال کے عرصہ میں جملہ علوم متداولہ سے فارغ ہوکر قطب العالم امام ربانی مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ سے بیعت بھی ہوگئے۔ 1316ھ میں جبکہ میں اکثر کتب درسیہ سے فارغ ہوچکا تھا،چند علوم کی متعدد کتابیں باقی تھیں، والد ماجد قدس سرہ العزیز نے جملہ اہل و عیال(بارہ نفرپر مشتمل قافلہ) بغرض ہجرت بیت اللہ شریف کا قصد فرمایااور مزروعہ زمین جس قدر بھی والد صاحب ؒ کے حصہ میں تھی اس کو ٹانڈہ کے ایک رئیس نے خرید لیا،اور سکنائی زمین اس خیال سے نہیں بیچی کہ ممکن ہے اولاد میں سے کوئی واپس آئے اور کم از کم رہنے کے لئے تو اس کو ٹھکانہ مل جائے،مسکونہ مکان کی قیمت بھی نہایت کم ملتی تھی اس لئے بھی اس کو فروخت نہیں کیا۔شعبان المعظم 1316ھ میں آپ بھی ان کی رفاقت میں خلیج بنگال کی بندر گاہ چاٹگام سے حجاز مقدس کے لئے تشریف لے گئے۔ اور
مدینہ منورہ میں اقامت اختیار کرلی۔اس زمانے میں چونکہ بہت سے علماء اعزازی طریقہ پر حرم محترم بنوی (مسجد نبوی علیہ السلام)میں پڑھایا کرتے تھے،مدینہ منورہ پہونچنے کے بعد کچھ ہندوستانی اور عربی طلبہ بعض کتابوں کی تدریس کے خواستگار ہوئے تو حضرت شیخ الہند ؒ کی ہدایت پر شروع کر دیا۔اور سولہ(16) برس تک تدریس کی خدمت انجام دی۔مدینہ منورہ میں قیام کے ابتدائی ایام میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بالخصوص عورتوں کو،مردوں کو بسا اوقات کپڑوں کا دھونا اور مشکوں میں میٹھا پانی کندھوں پر لاد کر لانا پڑتا تھا جس کو رات کو جبکہ نہر کے مخزن پر بھیڑ کم ہوجاتی تھی انجام دیاجاتاتھا۔یہ کام شیخ الاسلام ؒاور بھائی سید احمد صاحب کو انجام دینا پڑتا تھا کیونکہ ایک مشک پانی جو کہ سقہ سے لیا جاتا تھا بارہ آدمیوں کے پینے اور کھانے میں ڈالنے کے لئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ کھانا بھی سرمایہ اور محاصل کی کمہ کی وجہ سے نہایت معمولی ہوتا تھا،آپ کے والد مرحوم نہایت منتظم طبیعت کے تھے،اکثر بازار کی سستی سے سستی ترکاری لاتے تھے اور کبھی کبھی گوشت اور اکثر دال پکتی تھی۔روٹی چاول حسب عادت وطن مستعمل ہوتے تھے۔کھجوروں کی تجارت مذکورہ میں نفع تو ہوا مگر کم البتہ کھجوریں کھانے میں بہت آئیں۔1318کے اواخر میں مجھ کو اور بڑے بھائی کوسفر ہندوستان پیش آگیا۔یہ زمانہ گھر والوں پر نہایت سخت گذرا،اندوختہ باقی نہ تھا۔ شیخ الاسلام ؒاور بھائی سید احمد صاحب سفر میں تھے۔اس لئے تنگ ہو کر والد صاحب مرحوم نے 50 روپئے ایک اپنے ملنے والے میمن سیٹھ سے قرض لئے اور اس کادال چاول خریدا۔ایک وقت کھچڑی اور ایک وقت نمکین پیچھ پر تمام گھر والوں کا گذران کئی ماہ تک رہا۔شیخ الاسلامؒجب ہندوستان پہونچے تو والد صاحب مرحوم کے پیر بھائیوں نے جن کے والدصاحب سے بہت زیادہ تعلقات تھے کچھ روپیہ آپس میں چندہ کرکے ہدیہ والد صاحب کو دیئے اس کوشیخ الاسلامؒ نے بذریعہ ہنڈی بھیجا،تب والد صاحب نے وہ قرض ادا کیا اور کسی درجہ میں کھانے پینے میں وسعت کی۔یہی چند مہینے گھر والوں پر سختی کے مدینہ منورہ میں گذرے ہیں،اس کے بعد آہستہ آہستہ فراخی ہوتی گئی۔بحمداللہ فاقوں کی نوبت کسی کو اور کبھی نہیں آئی۔1318ھ کے آخر میں جب شیخ الاسلامؒ ہندوستان کے سفر میں تھے ایک مشکل گھڑی یہ پیش آئی کہ جس مکان میں سکونت پذیر امتحان کی گھڑیاں گذار رہے تھے اس کے مالک نے نوٹس دیا کہ سال اختتام کو ہے،سال بھر کا کرایہ مع زیادتی ادا کریں ورنہ خالی کردیں۔یہ امر نہایت دشوار تھا۔روز مرہ کا خرچ دو چار آنہ میں چل سکتا تھا مگر کرایہ مکان سال بھر کا بجز سوا سو ڈیڑھ سو کے نہیں ادا ہوسکتا۔مالک مکان سے مہلت طلب کی گئی مگر وہ راضی نہ ہوا۔بہت زیادہ دوڑ دھوپ کے بعد بیرون باب مجیدی ایک مکان حیدر آبادی رئیس کا نواب جانی میاں صاحب کا ملا جو زیر تعمیر تھا،روپیہ ختم ہوجانے کی وجہ سے اس کی تعمیر رکی ہوئی تھی،اس کے متولی ڈاکٹر محمد خواجہ مرحوم حیدر آبادی نے مہربانی کرکے رہنے کو تا اجراء تعمیر مفت دے دیا،اس مکان میں دروازے،کھڑکیاں طاقچے وغیرہ نہیں تھے صرف صدر دروازہ چیڑ کی لکڑی کا لگا ہوا تھا۔تمام گھرانہ یہاں آگیا اور ٹاٹ کے پردوں وغیرہ سے ہوا اور سردی و گرمی اور پردے کا تحفظ کرلیا گیا۔شیخ الاسلام ؒ کے والد مرحوم اس فکر میں تگ و دو کرنے لگے کہ بہر حال مکان بنانا چاہئے۔اسی دوران قریب میں ایک افتادہ زمین فروخت ہوتی ہوئی معلوم ہوئی تو والد صاحب نے اس کو خرید لیا۔ حضرت شیخ الہند ؒ 1916ء میں سفر حج کے لئے تشریف لے گئے اورتحریک ریشمی رومال کے افشاں ہوجانے کی وجہ سے ہندوستا ن میں ان کی گرفتاری کا وارنٹ نکلا اور وہاں مدینہ میں انہوں نے ترکی کے وزیر حربیہ غالب انور پاشا سے ملاقات بھی کی اور ہندوستان کی آزادی کا منصوبہ ان کے سامنے رکھا جس کی بناء پر وہ حجاز مقدس میں ہی گرفتارکر لئے گئے اسی وقت سے عملی طور پر مولاناسیدحسین احمد مدنیؒ نے حضرت شیخ الہند ؒ کی تحریک میں شمولیت اختیار کی،شیخ الاسلام اس وقت شریف کی رعایا تھے،ان پر حکومت برطانیہ کی طرف سے کوئی الزام بھی نہ تھا حجاز میں آپ کے تعلقات بھی بہت وسیع تھے اور خود اس نو زائیدہ نیم آزاد شریفی حکومت کے ارکان حضرت موصوف کا احترام کرتے تھے۔چنانچہ باوجودیکہ دیگر انگریزوں کو برا کہنے کے جرم میں شریفی حکومت نے آپ کو حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے دیگر رفقاء کی گرفتاری سے پہلے ہی گرفتار کرلیا تھا۔ 8/جون 1920ء کو تین برس سات ماہ کی قید کے بعدجزیرہ مالٹا سے رہا ہو کر ہندوستان پہونچے اور حضرت شیخ الہند ؒ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ہندوستان میں ہی اقامت اختیار کرلی چنانچہ کچھ عرصہ سلہٹ میں تدریسی خدمات انجام دیں،بعد ازاں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ العزیز کے دار العلوم دیوبند سے استعفیٰ دینے کے بعد 1346ھ میں حضرت شیخ الاسلام ؒکودارالعلوم دیوبند کی صدارت پیش کی گئی جس کو آپ نے مصالح دار العلوم کے پیش نظر منظور فرمالیا۔اوراخیر عمر تک دارا العلوم دیوبند میں صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔اور اسی کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی کی قیادت بھی فرماتے رہے۔آپ کے علمی تبحر اور جلالت شان کا مظہر”مکتوبات شیخ الاسلام‘‘کی چار جلدیں ہیں،اور آپ کی خود نوشت’’نقشِ حیات“محض ایک آپ بیتی نہیں بلکہ ہندوستان میں جد و جہد آزادی کی سو سالہ تاریخ کا ایک مستند ماٰخذ ہے۔5/دسمبر 1957ء کو دیوبند میں انتقال ہوا،اور قبرستان ِقاسمی میں اپنے استاد حضرت شیخ الہندؒ کے جوار میں مدفون ہوئے۔
اہم خدمات
٭مالٹا سے رہائی کے بعد ہندوستان میں ترکِ موالات کی تحریک پورے شباب پر تھی،چنانچہ اس کو کامیاب بنانے میں سر گرم حصہ لیا،جس کی بناء پر کراچی میں ان پر مقدمہ چلا اور حضرت شیخ الاسلام ؒنے انگریز جج کے رو برو 29/ ستمبر 1921ء کوجو عدالتی بیان دیا وہ شجاعت و مردانگی اور اسلامی حمیت کا ایک روشن باب ہے۔حضرت نے اپنے بیان میں فرمایا کہ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی جو علماء ہند کے استاد اور مسلم عالم ہیں ان کے فتویٰ جلد ثانی صفحہ 119اور مولانا عبد الحئی صاحب لکھنوی کے فتویٰ جلد 3میں بھی صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ انگریزی پلٹن کی نوکری کرنا حرام ہے۔اس پر مجسٹریٹ نے کہا کہ ہم فتووں سے بحث نہیں کرتے۔مولانا محمد علی صاحب نے فرمایا کہ مولانا حسین احمد صاحب نے کہا ہے کہ جس طرح کچہریوں میں پرانے اور ذی اقتدار صاحب معرفت ججوں کے فیصلے قابل استدالال سمجھے جاتے ہیں اور ان کی نظیر پر عمل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے،اسی طرح علماء اسلام کے فتوے ہمیشہ مذہب اسلام میں قابل اعتبار و لائق استدلال و عمل سمجھے جاتے ہیں۔مجسٹریٹ نے بہت غور سے آپ کی تقریر سنی اور کہا کہ اب ختم کردیجئے۔اس پر مولانا مدنیؒ نے فرمایا کہ میں نے تو مولانا محمد علی جوہر کی طرح خلافت اور ترک موالات کا مسئلہ چھیڑا ہی نہیں ہے،یہ صرف فتویٰ کا ذکر اور ریزولیوشن کا ذکر کررہاہوں۔اچھا میں اپنے بیان کو چند کلمات عرض کرنے کے بعد ختم کرتا ہوں آخری الفاظ پر بے ساختہ مولانا محمد علی مرحوم نے حضرت مدنیؒ کے قدم چوم لئے ٭تحریکِ آزادی کے دور میں حضرت شیخ الاسلام ؒ نے دو قومی نظریہ کی تردید اور ہندوستان کے مخصوص حالات میں ہندو مسلم اتحاد و تعاون کے جواز اور ضرورت پر کئی ایک رسالے تحریر فرمائے،جن کی معنویت آج ماضی کے مقابلہ میں زیادہ محسوس کی جاسکتی ہے
٭حضرت مدنیؒ ہندوستان کی تقسیم کو اسلام، مسلمانوں اور اہل ِ وطن سب کے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ علیٰحدگی اختیار کرنے کے عظیم خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here