’’ شمس الرحمن فاروقی: ایک نابغہ روز گار ‘‘

0
474

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


فاطمہ خاتون
سال ۲۰۲۰ء؁دنیاکے لیے بڑا سانحہ Covid-19کے لیے مشہورہوگیا۔ وہیں اس سال اردو ادب کی کئی اہم شخصیات ہم سے چھن گئی۔ ان میں مجتبیٰ حسین، عرش صہبائی، فراغ روہوی ، مظفرحنفی، اشوک ساحل، راحت اندوری اورشمس الرحمن فاروقی وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۵؍دسمبر۲۰۲۰ء؁ کے دن جب دنیاکرشمس کی خوشیوں میں سرابورتھی۔ تب ہی اچانک شوسل میڈیا کے ذریعہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کی رحلت کی خبرنے اردوداں طبقہ کو سوگوارکردیا، گویا یہ سال جاتے جاتے ہم سے ہمارے ہردلعزیز ناقد، عالم، دانشور، محقق، مترجم، صحافی مؤرخ اورمعلم سے ہمیں محروم کرگیا۔ ہرطرف اس سانحے کے چرچے تھے، لوگ اپنے طورپر انھیں خراج عقیدت پیش کرنے لگے۔ دانشورسے لے کر عام قاری تک سب ہی یکساں طورپرغریق بحرغم ہوگئے۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب سے مجھے پہلی بار روبروتبادلہ خیال کرنے کا موقع ۳؍اکتوبر ؍۲۰۲۰ء؁ کو صوفی جمیل اخترلٹریری سوسائٹی اورظفر گورکھپوری لٹریری اینڈکلچرل اکیڈمی کے باہمی اشتراک سے منعقدہ ایک نشست میںملا۔ ان کے ۸۵ویں سالگرہ کے موقع پر ایک آن لائن ادبی نشست کا انعقاد کیاگیاتھا۔اردو ادب پران کاجادو سرچڑھ کر بول رہا تھا، میں بھی ان کی شخصیت کے سحرمیں کھوسی گئی ۔ اللہ نے انھیں خداداد صلاحیت سے نوازا تھا۔ نہیں تو انگریزی کا طالب علم سیول سروس میں رہتے ہوئے اردو کے اتنے اعلیٰ نمونے شایدہی پیش کرسکتا، وہ اپنی گفتگومیں ہمیشہ ہی پڑھنے کی تلقین کرتے کہ پڑھنے سے آپ میں لکھنے کی صلاحیت آئے گی۔ فاروقی صاحب کو بچپن سے مطالعہ کا شوق تھا، وہ اپنے گھرکے نزدیک جلد سازکی دکان پر پورے دن مطالعہ میں غرق رہتے یہیں نہیں وہ جب کالج جاتے توراستے میں بھی ان کے مطالعے کا سلسلہ جاری رہتالہذا راہ چلنے والے لوگ خودہی ان کو راستہ دے دیاکرتے۔
فاروقی صاحب کو اردو زبان سے ایسی محبت تھی کہ وہ اس کی ادائیگی میں تھوڑی بھی غلطی برداشت نہیں کرتے۔ خواہ ان کے سامنے والا کوئی بھی ہو وہ زبان کی غلطی پر ٹوک دیتے۔ فاروقی صاحب میں علم کا خزانہ تھا، وہ اردو اور انگریزی میں یکساں دسترس رکھتے تھے۔ اردو کے معروف فکشن نگار وارث علوی نے کہا تھا کہ
’’فاروقی پرلکھنے کے لیے فاروقی ساعلم درکارہے اورآج وہ کسی کے پاس نہیں ‘‘
شمس الرحمن فاروقی صاحب نے تنقیدوتحقیق، شعروسخن، افسانہ نگاری، لغت اور ترجمے کے اعلیٰ نمونے پیش کئے ہیں۔ ان کے چار شعری مجموعے ’’گنج سوختہ‘‘ ، ’’سبزاندرسبز‘‘ ، ’’آسماں محراب‘‘ اور ’’چار سمت کا دریا‘‘ ان کی قادرالکلامی کو ظاہر کرتے ہیں، ’’چارسمت کادریا‘‘ان کی رباعیات کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے سبق آموز نظمیںلکھیں،فاروقی صاحب Trendsetterتھے وہ جوبھی کرتے سب سے الگ کرتے۔ ان کا اہم کارنامہ ’’شب خون‘‘(۱۹۶۶ء) کی ادارت ہے۔ تقریباً ۴۰؍سال تک وہ اس سے جڑے رہے۔ ان کا یہ ادبی رسالہ جدیدیت کی تحریک کے لیے بنیادگزار ثابت ہوا۔فاروقی صاحب نے میرتقی میرؔکی شاعری کوالگ انداز میں سمجھنے کا Trendsetکیا۔ ’’شعرشورانگیز‘‘کی (چارجلدیں) اردو ادب خاص طورسے میریات کے لیے ایک اضافہ ہے۔ اس کتاب کے لیے انھیں ۱۹۹۶ء؁ میں سب سے بڑے اعزاز سرسوتی سمان سے نوازاگیا۔ انھوں نے ہر مشکل کام کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ، اس کا اندازہ ارسطوکی آفاقی کتاب Poetic(بوطیقا) کے اردو ترجمے سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔ بطورمترجم یہ ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔ فاروقی صاحب کاناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ نے فکشن کی دنیامیں دھوم مچادی۔ اس ایک ناول نے انھیں بطورناول نگاراعلیٰ مقام پرفائزکردیا۔ اس ضخیم ناول پر مشہوراداکارعرفان خان فلم بنانا چاہتے تھے۔ مگران کی بے وقت موت سے ان کی یہ خواہش ادھوری رہ گئی۔
فاروقی صاحب کی تنقیدی تصانیف کی فہرست کافی طویل ہے ، جن میں ’’لفظ ومعنی‘‘ ،’’فاروقی کے تبصرے‘‘، ’’شعرغیرشعراورنثر‘‘،’’ عروض آہنگ اوربیان‘‘ ،’’ تنقیدی افکار‘‘،’’ اثبات ونفی‘‘ ’’انداز گفتگوکیاہے‘‘، غالب پر چارتحریریں، ’’اردو غزل کے اہم موڑ‘‘ ’’خورشیدکا سامان سفر‘‘ ’’ہمارے لیے منٹوصاحب‘‘ اردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ ’’جدیدیت اورہم‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ افسانہ نگاری میں بھی انھوں نے کمال فن کامظاہرہ کیا، ان کا افسانوی مجموعہ ’’سوار اور دوسرے افسانے ‘‘ نئے لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس مجموعہ میں وہی افسانے شامل ہیں، جو’’شب خون ‘‘ میں چھپتے تھے۔ فاروقی صاحب کا ایک اور اہم کارنامہ ’’داستان امیرحمزہ‘‘ کی شرح وتفہیم ہے۔ یہ داستان چھیالیس جلدوں پرمشتمل ہے۔ جن میں تقریبا ۴۵۰۰۰ سے زیادہ صفحات ہیں ۔ان جلدوں کا مطالعہ ہی جان جوکھم کاکام ہے ۔ پھرشرح تودور کی بات ۔ مگربقول فاروقی صاحب وہ ہندوستان کے واحد شخص ہیں، جنھوں نے ’’داستان امیرحمزہ‘‘ کی تمام جلدوں کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کیاہے۔ انھوں نے نہ صرف اس داستان کا مطالعہ کیا بلکہ اس کے محاسن ومصائب اور اس کی فنی خصوصیات، داستان اورناول میں فرق وغیرہ کو اپنی معرکہ آرا کتاب ’’ساحری، شاہی، صاحب قرانی : داستان امیرحمزہ کا مطالعہ ‘‘ میں پیش کردیا۔
موصوف کی قابلیت کے پیش نظرانھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ (۱۹۸۶ء) برائے تنقیدی افکار، پدم شری (۲۰۰۹) برائے ادب وتعلیم ، حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز (۲۰۱۰ء) شامل ہیں،اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈی، لٹ کی اعزازی سندسے بھی نوازا۔
فاروقی صاحب اردو ادب کے لیے ایک برانڈتھے۔ وہ اگرکسی کتاب پر تبصرہ کردیتے یا اپنی رائے دے دیتے تویہ اس کتاب کی پہچان بن جاتی ، جواس کتاب کی معیارمیں اضافے کاباعث بن جاتا۔غرض ان پر کچھ لکھنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے، ایسی شخصیت کا اس دنیا سے چلے جانا بہت بڑا سانحہ ہے ، جس نے ادبی دنیا میں ایک خلاء سا پیدا کردیا، جسے پُرکرنے میں صدیاں درکارہوگی۔ فاروقی صاحب کی بے وقت موت اور سال ۲۰۲۰ء؁ کے متعلق سوچنے پرہمارے ذہن میں سلیمان فریدی مصباحی کے یہ اشعار گونجتے ہیں: ع
رنج والم کا سال رہا دو ہزار بیس
صدموں کا ایک نشان بنا دوہزار بیس
یادوں کا درد اوڑھ کے بیٹھے ہوئے ہیں ہم
کتنے عزیزلے کے گیا دو ہزار بیس
ریسرچ اسکالر (اردو)
آئرن گیٹ ، گارڈن ریچ، کلکتہ -۲۴
Mob: 9831726195
ٌٌ٭٭٭

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here