آٹھ ریاستوں سے آنے والی خواتین کی شاہین باغ خاتون مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی

0
57

نئی دہلی، 28جنوری (یو این آئی۔ عابد انور) قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے آٹھ ریاستوں سے آنے والی خواتین نے کہا کہ ہم سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف آپ کی تحریک کی حمایت کرنے اور آپ کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملاکر چلنے آئی ہیں۔


ان آٹھ ریاستوں کی خواتین کے گروپ میں کرناٹک، کیرالہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش اور پڈوچیری کی خواتین شامل تھیں، نے کہاکہ شاہین باغ کی خاتون مظاہرین نے پورے ملک کی خواتین کو اپنے حق کے تئیں، اپنے ملک اور اپنے دستور کے تئیں جگادیا ہے، ان خواتین کو سلام کرنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم ان ریاستوں میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مسلسل مظاہرہ کررہی ہیں اور اس قانون کی واپسی تک ہمارا مظاہرہ جاری رہے گا۔

شاہین باغ آنے کے مقصد کے بارے میں پوچھے جانے ان خواتین نے یو این آئی کو بتایا کہ مظاہرہ تو ہم لوگ اپنے یہاں بھی کر رہی تھیں لیکن شاہین باغ ایک علامت بن چکا ہے اور ہم لوگ شاہین باغ خواتین سے اظہار یکجہتی اور ان کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملاکر چلنے آئی ہیں۔

انہیں یہ بتانے آئی ہیں وہ لوگ خود اکیلا نہ سمجھیں پورے ملک کی خواتین ان کے ساتھ ہے اور ان کے کاز کی حمایت کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس قانون سے صرف مسلمان متاثر نہیں ہوں گے بلکہ ہر کمزور طبقہ متاثر ہوگا۔ اسی لئے ہر طبقہ کو اس قانون کے خلاف میدان میں آنا چاہئے۔ اس کے کانگریس کی لیڈر راگنی نائک نے بھی خطاب کیا۔

شاہین باغ مظاہرہ شروع کرانے میں اہم رول ادا کرنے والی سماجی کارکن شیاہین کوثر نے یو این آئی کے ساتھ خاص بات میں کہا کہ ہم لوگوں کو یہاں مظاہرہ کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا، ملک کے حالات، حکومت کے رویے، آئین کے خلاف سازش، دستور کی حفاظت نے ہمیں سڑکوں پر اترنے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلم خواتین بلاضرورت تو گھر سے بھی نہیں نکلتیں لیکن ملک کی خاطر، آئین کو بچانے کی خاطر اور فسطائی طاقتوں کے سماج کو باٹنے کی سازش کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم لوگ، تین طلاق، دفعہ 370کے خاتمے، بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف مسلم خواتین سڑکوں پر نہیں اتریں،حالانکہ تین طلاق مسلم عورتوں کے گھربرباد کرنے کے جیسا قانون ہے، لیکن جب معاملہ ملک کاہے، ہندوستانی آئین کی حفاظت کا ہے، سماجی ہم آہنگی کا ہے تو مسلم خواتین سڑکوں پر اتری ہیں اور اپنے حق لیکر رہیں گی۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی مطلق العنانیت پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ کوئی حکومت کبھی مستقل نہیں رہتی اور اگر یہ حکومت مستقبل رہنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو سخت مغالطہ میں ہے۔ اس کو بھی جانا ہوگا، ہندوستانی عوام جاگ چکے ہیں۔

محترمہ شاہین کوثر نے شاہین باغ میں یوم جمہوریہ کی تقریب کی مناسبت سے کہا کہ یہاں کے لاکھوں لوگوں نے شریک ہوکر یہ پیغام دے دیا ہے کہ انہیں ہندوستانی جمہوریت، آئین اور یوم جمہوریہ میں کتنا اعتماد ہے۔ یہاں کے یوم جمہوریہ کی تقریب ایک یادگار تقریب کے طور پر تاریخ میں اپنا نام درج کرائیگی۔ انہوں نے کہاکہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کو بدنام کرنے کے بجائے حکومت ہوش کے ناخن لے۔ انہوں نے کہا کہ شاہین باغ مظاہرہ کو سبوتاژ کرنے کے تعلق سے حکومت جو سوچھ رہی ہے شاہین باغ کی خواتین کبھی پورا نہیں ہونے دیں گی۔

انہوں نے مرکزی حکومت کی بے حسی کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہاکہ یہاں خواتین بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہیں لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ اس کی کھوج خبر لینے نہیں آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی حادثہ پیش آجائے تو پھر کس کی ذمہ داری ہوگی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں مظاہرہ ہورہا ہو، یا بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوں اور حکومت اپنا نمائندہ نہ بھیجے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کے درمیان تال میل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ پہلے مودی امت شاہ ایک رائے قائم کرلیں، انہوں نے ملک کو مذاق کا موضوع بنادیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جس طرح یوگی اترپردیش کو تباہ کر رہا ہے اسی طرح مودی ملک کو تباہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر اس وقت ثابت قدم ہوکر اس کا مقابلہ نہیں کیا تو پھر یہ موقع کبھی نہیں ملے گا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس بربریت کے بعد سے 15دسمبر سے احتجاج جاری ہے اور یہاں بھی 24 گھنٹے کا دھرنا جاری ہے۔ یہاں انقلابی چائے بھی ملتی ہے جو شام سے رات سے تین چار بجے بنتی رہتی ہے۔ چائے بنانے والوں نے کہاکہ یہ ہم لوگ ایک ٹیم بناکر کر رہے ہیں اور مظاہرین میں گرمی لانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔

دہلی میں درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور اس فہرست میں نظام الدین میں خواتین کامظاہرہ شامل ہوگیا ہے۔ قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جاری مظاہرہ کی تعداد میں ضافہ ہوتا جارہاہے اور اب یہ مظاہرہ دہلی کے بیشتر علاقوں میں پھیل چکا ہے اور یوپی کے سنبھل سے خواتین کے بڑے مظاہرے کی خبر آرہی ہے جہاں ہزاروں خواتین رات دن مظاہرہ کر رہی ہیں۔

شاہین باغ کے بعد خوریجی خواتین مظاہرین کا اہم مقام ہے۔ خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ خوریجی خواتین کا مظاہرہ ہر روز خاص ہورہا ہے اور اہم مقرر اور سماجی سروکار سے منسلک افراد یہاں تشریف لارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آج کے اہم مقررین میں جاوید ندیم صدر اقلیتی سیل،محترمہ ویدھی سنہا (سنگر)شاہد صدیقی ایڈووکیٹ حبا احمد جے این ایو نے خطاب کیا۔ محترمہ عشرت جہاں نے بتایا کہ ان مقررین نے سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے ان کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔دہلی میں اس وقت دہلی میں سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ،بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مالویہ نگر کے حوض رانی، مصطفی آباد، کردم پوری، شاشتری پارک، نور الہی،اوربیری والا باغ، نظام الدین جامع مسجدسمت ملک تقریباً سو سے زائد مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

اترپردیش میں پولیس کے ذریعہ خواتین مظاہرین کو پریشان کرنے کے باوجود خواتین نے گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کیا اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کرائی۔ پولیس نے یہاں کی لائٹ کاٹ دی تھی، کمبل اور کھانے کا سامان چھین کر لے گئے تھے لیکن پولیس کی ہٹلر شاہی رویہ بھی ان خواتین کا جوش و خروش کم نہ کرسکا اب یہ مظاہرہ اور بڑا ہوگیا ہے۔

اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد کی خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا تھا جہاں آج بھی مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ ان مظاہرے کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے پس پشت نہ کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی کوئی بڑی تنظیم، جو کچھ بھی آتا ہے وہ رضاکارانہ طور پر آتا ہے۔خواتین کا یہ مظاہرہ اترپردیش کے کئی شہروں میں پھیل رہا ہے۔

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے اور یہاں شدت سے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بہارکی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور بہار درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔

پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ،سیوان، چھپرہ، بہار شریف، جہاں آباد،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، سمستی پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں اور بہت سے ہندو نوجوان نہ صرف اس قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپورسب ڈویزن کے رانی باغ خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے جس میں اہم لوگ خطاب کرنے پہنچ رہے ہیں۔

شاہین باغ،دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ’دہلی،۔آرام پارک خوریجی-دہلی ’۔سیلم پور فروٹ مارکیٹ،دہلی،۔جامع مسجد، دہلی،ترکمان گیٹ، دہلی،ترکمان گیٹ دہلی، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، شاہی عیدگاہ قریش نگر،حضرت نظام الدین،رانی باغ سمری بختیارپورضلع سہرسہ بہار‘۔سبزی باغ پٹنہ – بہار، ہارون نگر،پٹنہ’۔شانتی باغی گیا بہار،۔مظفرپور بہار، ۔ارریہ سیمانچل بہار، ۔بیگوسرائے بہار،پکڑی برواں نوادہ بہار، مزار چوک، چوڑی پٹی کشن گنج‘ بہار،۔مغلا خار انصارنگر نوادہ بہار،۔مدھوبنی بہار،۔سیتامڑھی بہار، ۔سیوان بہار،۔گوپالگنج بہار،۔کلکٹریٹ بتیا مغربی چمپارن بہار،۔ہردیا چوک دیوراج بہار،۔ نرکٹیاگنج بہار، رکسول بہار، دھولیہ مہاراشٹر،۔ناندیڑ مہاراشٹر،۔ہنگولی مہاراشٹر،پرمانی مہاراشٹر، ۔ آکولہ مہاراشٹر،۔ پوسد مہاراشٹر،۔کونڈوامہاراشٹر،۔پونہ مہاراشٹر۔ستیہ نند ہاسپٹل مہاراشٹر،۔سرکس پارک کلکتہ،۔قاضی نذرل باغ مغربی بنگال،۔اسلامیہ میدان الہ آبادیوپی،35۔روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی۔محمد علی پارک چمن گنج کانپور-یوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان،۔کوٹہ راجستھان،اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش،، جامع مسجد گراونڈ اندور،مانک باغ اندور،احمد آباد گجرات، منگلور کرناٹک، ہریانہ کے میوات اور یمنانگر اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی دھرنا جاری ہے۔اجمیر میں بھی خواتین کا احتجاج شروع ہوچکا ہے کوٹہ میں احتجاج جاری ہے اور لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کے گھر باہر بھی مظاہرہ ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ جارکھنڈ کے رانچی، لوہر دگا، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here