صادقہ نواب سحر کی افسانہ نگاری : ایک مطالعہ- Sadiqa Nawab Sehar’s Fiction Writing: A Study

0
364

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

Sadiqa Nawab Sehar's Fiction Writing: A Study
اُنزِلا فاروقی

اردو افسانہ آغاز سے لےکر اب تک نت نئے تجربات کی منزلیں طے کرتا ہوا، ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اردو میں افسانوی ادب ابتداء سے لے کر ترقی پسند تحریک تک، تقسیم کے دردناک واقعات سے لے کر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مختلف تجربوں کے ساتھ دور حاضر میں اپنی وسعت کو پہنچا ہے
افسانہ وہ مخصوص صنف ہے جس نے اپنے وسیع کینوس کی وجہ سے ہر دور میں قاری کو متوجہ کیا ہے، بلکہ عصر حاضر کے ہمارے افسانہ نگار موضوعاتی طور پر ہمیں نئی دنیا اور نئے تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔ آج بھی ہمارا افسانوی ادب درخشندہ ستارے کی مانند تابناک نظر آتا ہے۔
اردو افسانہ ابتدا ہی سے تکنیک کے زاویہ سے کسی حتمی تکنیک کا محتاج نہیں رہا ہے۔ اس نے وقت کے ساتھ اپنی سمت و رفتار کو قایم و دائم رکھا ہے۔
میڈیا کے نئے ذرائع اور علوم کی وسعت سے اردو افسانہ آج ایک نئی سمت و رفتار سے بڑھ رہا ہے۔آج ٹیکنولوجی کے زمانے میں دنیا کے سارے فنون ایک نئے وژن میں ڈھل رہے ہیں، اس لئے دور حاضر کے با شعور افسانہ نگار بھی نئے زاویوں اور امکانات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا رہے ہیں۔
اردو افسانے کی ترویج میں خواتین کا اپنا خاص مقام ہے ابتداء سے لے کر دور حاضر تک اردو میں خواتین افسانہ نگار اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ عصر حاضر کی خواتین افسانہ نگاروں میں صادقہ نواب سحر اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔صادقہ نواب سحر کی شخصیت ادب میں محتاج تعارف نہیں۔ آپ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور بہترین شاعرہ بھی ہیں۔ صادقہ نواب سحر تجربات کا بہترین سرمایہ رکھتی ہیں اور گہرا تخلیقی شعور بھی۔ یہ تخلیقی شعور آپ کے افسانوں میں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔آپ آج کے دور کے مسائل اور تجربات کو اپنی افسانوں میں بخوبی برتنے کا ہنر جانتی ہیں۔ صادقہ نواب سحر کے افسانوں کا مطالعہ کریں تو قاری ان کے تخلیق شعور سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔آپ جس طرح الفاظ کا تانا بانا بنتی ہیں اور کم الفاظ میں بڑی گہری بات کہہ جاتی ہیں، نہایت قابل ستائش ہے۔ آپ کے الفاظ ذہن و دل پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ افسانے ‘ سہمے کیوں ہو انکُش۔ میں یہ صورتحال بخوبی دیکھنے کو ملتی ہے۔۔۔
بہت بڑا غلط کام ہوا ہے نہ تجھ سے !…….” ممی نے آنکھیں پھاڑیں۔
ہاں بہت غلط کام ہوا مجھ سے….. مگر ممی انھوں نے مجھے ننگا کرکے کیوں مارا ؟”
وہ تو تمہاری ڈراینگ پر چاک پھینک رہے تھے نا!….. تمہیں تو چھوا بھی نہیں بیٹا!”
نائیں ممی انھوں نے مجھے مارا*…. انہوں نے مجھے بہت مارا…..”
مسز پاٹل نے محسوس کیا، وہ سر سے پاؤں تک لرز رہا تھا۔………..!
(سہمے کیوں ہو انکُش)
نام سے انکُوش لیکن اس پر کوئی بندھن عائد نہیں، شریر چلبلا سا ایک معصوم ذہن بچہ جو اپنے ہم جماعتوں سے تنگ آکر بدلہ لینے کے لئے بنا سوچے سمجھے ایک بری حرکت کر جاتا ہے لیکن اس حرکت اور اسکی سزا سے جو اس کے معصوم دل پر چوٹ لگتی ہے وہ اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ شریر رہنے والے انکش کی شرارتوں کے ساتھ ہی اس کا معصوم دل بھی بندھن میں قید ہوا جاتا ہے۔
چند صفحات میں کسی کرادار کو اس طرح نمایاں کرنا کہ وہ ہمارے ذہن میں اس طرح پیوست ہو جائے کہ ہم اسے بھلا نہ سکیں، تسلسل کے ساتھ مناظر کو ایسے باندھنا کہ قاری کہانی میں خود کو مہو کر لے اور افسانے کی دنیا میں کھو جائے، صادقہ نواب سحر کا بہترین کارنامہ ہے _ منظر نگاری ان کی افسانہ نگاری کی اہم خوبی ہے جو ان کے افسانوں میں بخوبی دیکھنے کو ملتی ہے۔افسانہ ‘پہلی بیوی۔ میں جو تصویر کشی کی گئی ہے وہ کسی بھی شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیگی۔ ایسا لگتا ہے مانوں یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔
غریبی اور مجبوری کا مارا ایک باپ صرف پیسے کی کمی کی بدولت اپنے سات ماہ کے بچے کو انکیوبیٹر میں نہیں رکھ پاتا ہے۔مجبوری میں اس کی زبان سے نکلے یہ الفاظ کسی بھی پتھر دل انسان کو پگھلا سکتے ہیں۔
ڈاکٹرنی بولتی ہے تیس ہزار روپیہ جمع کرا دو_پندرہ دنوں میں بالکل اچھا بچہ ہاتھ میں دونگی”
رکھا کیوں نہیں؟”
پیسہ کدھر ہے؟”
…..کیا کرتے ہو؟”
پہلے بھنگار اٹھاتا تھا”
اب کیا کرتے ہو؟”
اب ردّی خریدتا ہوں”
یہ کیا کرتی ہے”(میں نے عورت کی جانب اشارہ کیا)
پہلے یہ کچرا چنتی تھی ……اب بھیک مانگتی ہے”………!!!
(پہلی بیوی)
صادقہ نواب سحر اپنے کرداروں سے اس طرح مکالمے ادا کراتی ہیں جو قاری کے ذہن و دل پر گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔
کون ہو تم؟؟…… کون ہو؟؟”، صائمہ نے کچھ ہمت ہمت کر لی اور بالکنی کا سلائیڈنگ ڈور ذرا سا سرکا کر بالکنی میں دیکھا اور اپنے سوال مکمل کیا …. “اور یہاں کیسے آئی ہو ؟”
آپ کے پڑوس میں رہتی ہوں اور اپنی بالکنی کی دیوار پھاند کر آئی ہوں۔” سامنے سے بڑی سادگی کے ساتھ جواب ملا۔
پلیز آپ مجھے اپنے گھر میں سے ہو کر جانے دیجیے۔ اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
میرے گھر سے ؟؟…….تم اپنے گھر کے دروازے سے باہر کیوں نہیں نکلیں؟”
میرا شوہر بڑا ظالم ہے۔ بہت مارتا ہے مجھے۔ دن بھر مجھے گھر میں بند رکھتا ہے۔ کسی سے ملنے نہیں دیتا۔ تالا لگا کر باہر جاتا ہے۔ آج بھی دروازے پر باہر سے تالا لگا کر ہی کام پر گیا ہے……”
اب پلیز مجھے اندر لے لیجئے”
میں آپ کو بتاتی ہوں نا! چور نہیں ہوں میں!……… اقراء نام ہے میرا۔
(وہیل چیئر پر بیٹھا شخص)
صادقہ نواب سحر ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا قلم بچوں ، بڑوں، بزرگوں، نوجوانوں سب پر بڑی چابکدستی سے چلتا ہے_ عورتوں کے مسائل ہوں یا بچوں کی معصوم پرابلمز ، نوجوانوں کے فکری مسعلے ہوں یا پھر بزرگوں کے پریشان حالات، گھریلو خاتون کی کشمکش ہو یا کالج میں پڑھنے والے طلبہ کے کردار کو پیش کرنا ہو۔ حتیٰ کہ ہر دور،ہر طبقے کے افراد آپ کی تخلیقات کا موضوع ہیں۔
عورت کا مقام پہلے زمانے سے ہی ہمارے سماج میں کچھ ٹھیک نہیں رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں ہر عورت کو کو اس کے عورت ہونے کی سزاء مل ہی جاتی ہے۔
اخبار،رسالے، ٹی وی، کمپیوٹر، اسکول، کالج بکواس کرتے رہتے ہیں….. گھر کی چہار دیواری میں پہنچ کر ہم صرف عورت ہیں نا…….اور کچھ نہیں نا…….. محکوم، مظلوم……..!”
کیا کہہ رہی ہو منی خبر بھی ہے…! ” شمع ابھی سے اپنے ذہن میں پلنے والی خرافات منی کے ذہن میں پنپتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی، لیکن منی نے اپنی بات پوری کہہ گزرنے کی ٹھان لی۔
اور آزادی کا لیبل پیشانی پر لگا کر پنجرے میں رہنا کتنا مشکل ہے نا باجی !!”
شمع چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ یہ اس کی اپنی سوچ اور تجربہ ننھی سی منی کے ذہن میں چھ سات سال پہلے ہی کیسے پنپنے لگ گیا۔ ! اور پھر اتنی پختگی کے ساتھ!!! شمع نے سوچا۔
(ہزاروں خواہشیں ایسی)
ہزاروں خواہشیں ایسی”اور منّت” ایسے ہی افسانے ہیں، جن میں عورتوں کے مسائل،زندگی کی بے رحم تلخ سچائی دیکھنے کو ملتی ہے۔
ایک طرف منّت کی مکتا ہے جو دلہن بننے کا خواب آنکھوں میں لئے مر جاتی ہے۔……… اور دوسری طرف شمع جو خوابوں کے لئے دلہن نہیں بننا چاہتی، اپنی پسند سے مرضی سے زندگی گزارنا چاہتی ہے پڑھنا چاہتی ہے،زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے”
(وہیل چیئر پر بیٹھا شخص)
افسانے میں آپ نے جو تصویر کشی کی ہے نہایت قابل ذکر ہے۔ اپنے شوہر کے ظلم و جبر سے تنگ آکر ایک نوجوان خوبصورت لڑکی کیسے اپنی قسمت لکھتی ہے اور اس کے چنگل سے آزاد ہو جاتی ہے۔
صادقہ نواب سحر نے ہر عمر کے کرداروں خاص طور سے بچوں، عورتوں اور لڑکیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ کردار نگاری میں آپکو مہارت حاصل ہے، ان کے افسانوں کا مطالعہ کریں تو ہر کردار ہمیں اپنے آس پاس کا ہی نظر آتا ہے، جیسے سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ کردار نگاری کی یہ خصوصیات بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن صادقہ نواب یہ ہنر بھی بخوبی جانتی ہیں اُنھوں نے اپنے ہر کردار کا رول کہانی میں بڑی فنکاری سے ادا کیا ہے۔
صادقہ نواب سحر کی زبان و بیان سادہ سلیس اور دلفریب ہے، جس میں ہندی اور انگریزی الفاظ چاشنی کا کام کرتے ہیں۔ صادقہ نواب سحر ایک متحرک ادیبہ ہیں۔ آپ کا اسلوب بیان، فکر و نظر، تخیل و تجربات منفرد ہے۔ موضوعات کی آپ کے یہاں بھرمار ہے۔ وہ نہ صرف روایتوں اور سماج کی عکاس ہیں بلکہ تعلیم، آج کے دور کی مصروفیات حتیٰ کہ موجودہ دور کے مسائل آپ کی تخلیقات کا وسیلہ اظہار ہیں۔ مختصر یہ کہ صادقہ نواب سحر موجودہ دور کی متحرک و منفرد شخصیت، عظیم و کامیاب پروفیسر، ناول نگار، ناقد، ڈرامہ نویس، بہترین شاعرہ بلکہ افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
(مرادآباد یو پی)244402

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here