9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
انسان کا قصے کہانیوں سے پرانا رشتہ رہا ہے ۔بچپن میں سب نے اپنے بڑوں سے قصے کہانیاں ضرور سنی ہو ں گی ان قصے کہانیوں کا انسان کی تربیت میں اہم رول رہا ہے۔ قدیم دور کی بات کریں تو راجا مہاراجاؤں کے دربار میں قصے کہانیوں کو سنانے کے لیے خادم بھی رکھے جاتے تھے ۔یہ کہانیاں پہلے زبانی سنی جاتی تھیں۔جس کہ ثبوت کہ طور پر مختلف زبانوں کا جائیزہ لینے پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ قصے کہانیوں کتھاؤں اور حکایتوں کی ایک طویل تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھا تو اس نے تحریری میدان میں اپنے قدم جمائے ۔تو یہ زبانی سنی سنائی جانے والی یہ کہانیوں بھی تحریری شکل اختیار کرنے لگیں۔ ہماری ارد و ادب کی مقبول ترین داستانیں اسی طرح مختلف زبانوں سے گزرتے ہوئے اردو زبان میں منتقل ہوئی ہیں۔
صبا نوشاد نے اُردو کی چند اہم داستانیں :ایک مطالعہ تحریر کر کے طلبہ کی آشنائی ان قدیم داستانوں سے کرائی ہے جس سے ہمارا اردو ادب وابستہ ہے اس سے پہلے بھی اردو داستانوں پر اور بھی کتابیں تحریر کی گئی ہیں لیکن اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ صبانوشاد نے اس کتاب کویو جی سی نیٹ جے آر ایف کے طلبہ کے امتحان کے نصاب کے مطابق مرتب کیا ہے۔ راقم القلم کا دعویٰ ہے کہ اگر طلبہ اس کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو امتحان میں اچھے امتیازی نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
صبا نوشاد نے کتاب کی فہرست میںسب سے پہلا مضمون ”پروفیسرصغیرافراہیم” کا رکھاہے جس کا عنوان ہے”داستانوں کے عروج وزوال کی کہانی”۔ جس میں پروفیسرصغیرافراہیم صاحب نے داستان کے عروج و زوال پر روشنی ڈالی ہے اس کے بعد صبانوشاد کا اپنی کتاب پرلکھا ہوا مقدمہ ہے جس میں انھوں نے کتاب کی اہمیت پر اظہار خیال کیا ہے۔ اور کتاب لکھنے کی وجہ بیان کی ہے۔
پھر انھوں نے اُردو کی اہم داستانوں کو ان کی تاریخ کے اعتبار سے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔
باب اول میں ’’ملاوجہی کی ادبی خدمات‘‘ اور ان کی تحریر کردہ تمثیلی داستان ’’سب رس‘‘ کی کہانی اور کرداروں کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔سب رس اردو کی مقبول ترین تمثیلی داستان ہے۔ اس میں حسن و عشق کی کشمکش اور عشق اور دل کے واقعے کو قصے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس داستان میں ملاوجہی نے تصوف کے اہم نکات پیش کئے ہیں۔
باب دوم میں’’فضل علی خاں کی ادبی خدمات‘‘ ۔اور ان کا فن پارے ’کربل کتھا‘ کا ذکر ہے جو انھوں نے 1731ء میں تحریر کیا تھا ۔’کربل کتھا‘ شمالی ہند کی پہلی نثری کتاب تصور کی جاتی ہے ۔یہ کتاب اصل میں”روضتہ الشہدا”کا اردو ترجمہ ہے،اس میں کربلا کے واقعات اور شہادت کا پُردرد بیان ہے۔، کر بل کتھا میں جذبات کی شدت کے اظہار کے لیے نظم سے بھی کام لیا گیا ہے۔صبا نوشاد ان تمام باتوں کا ذکر مکمل طور پر کر دیتی ہیں۔ساتھ ہی وہ اہم نکات پر بھی روشنی ڈالتی ہیں۔جو امتحانات میں اکثر پوچھے جاتے ہیں۔
باب سوم میں ”میرتقی خیال کی ادبی خدمات” کا جائزہ لیا گیا ہے ”بوستان خیال” جو میر تقی خیال کی فارسی کی ضخیم داستان ہے جس کا فارسی سے ترجمہ اردو میں کیا گیاہے۔فارسی میں یہ کتاب پندرہ جلدوں پر مشتمل ہے۔جس میں شہزادہ معز الدین ابو تمیم القائم بامر اللہ لقب صاحبقران اکبر،شہزادہ خورشید تاج بخش،لقب صاحبقران اعظم اور شہزادہ بدر منیر لقب صاحبقران اصغر کی داستانیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس داستان میں جن و پریوں کے عجیب خیالی افسانے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔بوستان خیال کو تین بہاروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی بہار میں کا عنوان: مہدی نامہ ہے، جو پہلی اور دوسری جلد میں شامل ہے، اس میں سلطان ابو القاسم محمد مہدی اور دوسرے ان کے پیش رو سلطان معز الدین وغیرہ کی داستان ہے۔دوسری بہار کا نام گلستان اول ہے،یہ دوسری بہار جلد تین سے جلد سات تک ہے۔ اس میں مقدمہ اور دو گلشن ہیں جن میں سے ہر گلشن دو ذیلی زمرے میں تقسیم ہیں اس داستان کا موضوع خلیفہ معز الدین القائم بامراللہ ہے یعنی ان کی داستان بیان کی گئی ہے۔تیسری بہار کاعنوان: گلشن دوم ہے، یہ بہار آٹھویں جلد سے لے کر پندرہویں جلد تک ہے،اس بہار میں معز الدین کی بقیہ داستان اور شہزادہ خورشید تاج بخش اور شہزادہ بدر منیر کی پیش کی گئی ہے۔صبا نوشاد نے بڑی ہی مہارت کے ساتھ ان تمام نکات کو طلبہ کے روبرو پیش کیا ہے۔کہیں بھی کتاب کو پڑھنے کے بعد دل اکتاتا نہیں ہے،بلکہ قاری لطف لے لے کر اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے۔اور تمام نکات طالب علم کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔اس کتاب سے وہ ہی استفادہ اٹھا سکتے ہیں۔جو اردو ادب سے سچی محبت رکھتے ہیں۔
باب چہارم میں ”میرامن کی ادبی خدمات” کا تذکرہ ہے اور ان کی تخلیق کردہ داستان ”باغ و بہار” پر اہم نکات دیکھنے کو ملتے ہیں۔باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہے باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے ۔اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا ۔ مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، ”میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔” نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں ”داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا”۔
باب پنجم میں ”انشائاللہ خاں انشاء کی ادبی خدمات” پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی تخلیق کردہ داستان ”رانی کیکی کی کہانی” کا ذکر کیا گیا ہے ۔اردو کی زیادہ ترداستانیں عربی،فارسی اور سنسکرت سے ترجمہ ہوئی ہیں۔اردومیں داستان گوئی کو عروج بخشنے اور آسان زبان میں عوام تک پہنچانے میں فورٹ ولیم کالج نے اہم کردار ادا کیا ہے، اس ہی وجہ سے فورٹ ولیم کالج میں کئی اہم داستانوں کااردو میں ترجمہ کیا گیا ۔ اسی دور میں جب کہ داستانیں مختلف زبانوں سے اردو میں ترجمہ ہو رہی تھیں،انشاء اللہ خاں انشا نے ایک طبع زاد داستان رانی کیتکی کی کہانی کے نام سے تصنیف کی۔رانی کیتکی کی کہانی کو دو لحاظ سے شرف حاصل ہے،ایک تو یہ کہ باغ وبہار اور فسانۂ عجائب کے مقابلے میں مختصر ترین ہے اور دوسرے طبع زاد ہے۔ داستان کی بنیادی شرط اس کی طوالت ہے،چونکہ انشا کا سارا زور زبان پر ہے اس لیے یہ داستان طویل نہ ہو کر مختصر ہے۔
باب ششم میں ”رجب علی بیگ سرور کی ادبی خدمات” کا ذکر کرتے ہوئے صبانوشاد نے ان کی شہکار دستان ”فسانہ عجائب” کا جائزہ لیا ہے۔فسانۂ عجائب رجب علی بیگ سرورؔ کی تحریر کردہ داستان ہے۔ شمس الدین احمد اس کے بارے میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’فسانہ عجائب لکھنؤ میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر عابدہ بیگم فسانہ عجائب کے متعلق لکھتی ہیں:
’’فسانہ عجائب اپنے دور کی مقبو ل ترین کتا ب تھی۔ یہ متاثرین فارسی کی انشاپردازی کا اردو جواب تھی۔ سرور نے کچھ ایسا جادو جگایا جو تیس سال تک اردو نثر کے سر پر چڑھا رہا۔‘‘فسانہ عجائب کی سب سے بڑی خوبی اس کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ اس کی عبارت از اوّل تا آخر مقفٰی اور مسجع ہے۔ سرور موقع و محل کے مطابق زبان اختیار کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ منظر کشی، مختلف فنون کی اصطلاحیں، ہر قسم کے سازو سامان کی تفصیلات، عوام الناس کے مختلف طبقوں کا طرز کلام، گویا ہر قسم کا بیان اس کے مناسب اور موزوں الفاظ میں کیا گیا ہے۔ عبارت آرائی اور قافیہ بندی میں سرور کو قدرت اور استادانہ مہارت حاصل تھی۔ اور یہ کتاب اردو نثر پر کئی حوالوں سے اثر انداز ہوئی ‘‘۔فسانہ عجائب کی زبان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قسم سلیس اور بامحاورہ زبان اور دوسری قسم وہ پیچیدہ اور گراں بار زبان ہے جس کو سمجھنے کے لیے قاری کو فرنگی محل کی گلیوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔
آخر میں ہمیںکتابیات دیکھنے کو ملتی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ صبانوشاد نے کن کن کتابوں کا مطالعہ کر کے اس کتاب کو تحریر کیا ہے۔الغرض اردو ادب کے طلبہ کے لئے یہ کتاب علمی آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔جس کا اندازہ قاری مطالعہ کر کے بخوبی کر سکتا ہے۔
علی گڑھ موبائل نمبر:7906715229