[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند رجه بالا ای میل اور واٹس ایپ ن مبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں ۔
جارحانہ سیاست کیسے کی جاتی ہے اور اپنے ارادوں کو کیسے عملی شکل دی جاتی ہے یہ ہنر موجودہ بھارتیہ جنتا پوٹی کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔اپوزیشن لاکھ چلائے ،چیخے ،عوام خواہ کتنے ہی پریشان ہوں لیکن سیٹ پھر بھی بھارتہ جنتا پارٹی کی ہی نکلتی ہے۔اگر حالات کا تجزیہ کیا جائے تو ذہن یہ کہتا ہے کہ اب بی جے پی کہیں سے بھی کسی بھی طرح کا الیکشن نہیں جیت سکتی لیکن ہر مرتبہ اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اور نتائج بی جے پی کے حق میں ہی آتے ہیں۔تازہ معاملہ سری نگر وادی کشمیر کا ہے جہاںبھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دارلحکومت سری نگر میں ڈی ڈی سی الیکشن میں سب سے پہلے بی جے پی کی طرف سے پارٹی کی یوتھ ونگ کے قومی نائب صدر اور انچارج مغربی بنگال انجینئر اعجاز حسین نے ضلع سری نگر کی کھنموہ دوم ڈی ڈی سی انتخابی حلقے سے جیت درج کی۔نجینئر اعجاز حسین نے کہا کہ میں لوگوں کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری جیت علاقائی پارٹیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ لوگ یہاں ترقی چاہتے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں لوگوں کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے ان کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا‘۔ انہوں نے کہا کہ میری جیت علاقائی پارٹیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ لوگ یہاں ترقی چاہتے ہیں۔
دریں اثنا بی جے پی کے قومی ترجمان سید شاہنواز حسین نے انجینئر اعجاز حسین کی جیت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’کشمیر میں کنول کا پہلا پھول کھلا ہے، انجینئر اعجاز حسین نے کھنموہ دوم سری نگر کشمیر کے ڈی ڈی انتخابی حلقے سے بھاری ووٹوں سے جیت درج کی ہے‘۔بی جے پی کے ایک اور سینئر لیڈر رام مادھو نے بھی انجنیئر اعجاز حسین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’ڈی ڈی سی انتخابات میں بالہمامہ سری نگر میں بی جے پی کی پہلی جیت حاصل کرنے پر پارٹی کی یوتھ ونگ کے نائب صدر اور انچارج مغربی بنگال انجینئر اعجاز حسین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں‘۔
جموں وکشمیر میں منگل کی صبح سے ہی پہلی بار منعقد ہونے والے ڈی ڈی سی انتخابات کی ووٹ شماری کا عمل سخت سیکورٹی بند وبست کے بیچ جاری ہے۔ بی جے پی کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر میں بی جے پی کے حمایت یافتہ تیس سے چالیس آزاد امیدوار اپنی اپنی نشستوں پر جیت درج کریں گے۔ان کا دعوی بھی لوگ ہوا مین سمجھ رہے تھے لیکن نتائج آنے کے بعد بی جے پی 70 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی ہیں کہ آخر بی جے پی کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے کہ وو ناسازگار نظر آنے والی فضا کو ایک رات میں سازگار کردیتی ہے۔حتمی نتائج کے مطابق گپکار اتحاد کو 112 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں جبکہ بی جے پی کو 74 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ گپکار کی اتحادی جماعتوں سمیت تمام پارٹیوں کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو بی جے پی کو سب سے زیادہ 74 سیٹیں حاصل ہوئیں جبکہ جے کے این سی کو 67، آزاد امیدواروں کو 49، پی ڈی پی کو 27، کانگریس کو 26، جے کے اے پی کو 12، جے کے پی سی کو 8، سی پی آئی ایم کو 5، جے کے پی ایم کو 3، پی ڈی ایف کو 2، جے کے این پی پی کو 2 اور بی ایس پی کو ایک سیٹ حاصل ہوئی ہے۔
حالانکہ ڈی ڈی سی انتخابات کے نتائج پر عمر عبد اللہ نے کہا کہ عوام نے ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے اور خصوصی درجہ کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلہ کے خلاف اپنی رائے دے دی ہے۔
دفعہ تین سو ستر کی بنا پر کشمیر کو حاصل خصوصی اہمیت کے خاتمہ کے بعدایسا لگ رہا تھا کہ جموں کشمیر کے عوام اس فیصلہ کے سخت خلاف ہیں لیکن اس کے باجود بھی بی جے پی کی کارکردگی ایک طرف جہاں چونکاتی ہے وہیں دوسری طرف اہل سیاست کے لئےایک درس بھی ہے کہ خالی باتوں اور ٹوئیٹر پر لکھے اقوال اور اخباری بیانات سے الیکشن نہیں جیتا جاتا ۔الیکشن جیتا جاتا ہے حکمت عملی اور محنت سے۔جو بی جے پی نے کر دکھایا۔