پرنسپل سکریٹری، بھاشا جتندر کمار قابل مبارکباد، انعامات پر لگائی پابندی، جواب طلب، تب کیا ایوارڈ واپسی کا اعلان ا

0
1586

لکھنؤ۔ 28 ستمبر۔ پرنسپل سکریٹری بھاش جتندر کمار قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اپنے فوری فیصلے سے اردو اکادمی کی نہ صرف ساکھ کو بچایا بلکہ ایک غلط روایت بننے سے روک دیا، اگر انہوں نے یہ فوری سخت فیصلہ نہ لیا ہوتا تو نہ ایوارڈ واپسی ہوتی نہ یہ اجاگر ہوتا کہ اردو اکادمی میں کیا کیا ہورہاہے۔

اردو اکادمی کا جب اصلی چہرہ سامنے آہی گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کی جانندارانہ جانچ ہونی چاہئے اور قصورواروں کو سخت سزا دی جانی چاہئے جس سے پھر کبھی کوئی ایسی روایت ڈالنے کی ہمت نہ کرسکے۔ پانی سر سے اتنا اونچا ہوچکا ہے کہ اب تو اکادمی کے لوگ بھی اکادمی میںہورہی بدعنوانیوں پر کھل کر بولنے کی ہمت دکھانے لگے ہیں، اسی کڑی میں اردو اکادمی کے ایک اہم رکن نے بتایا کہ
’’اُردو اکادمی کے بہت اہم رُکن نے بتایا کہ یہ ساری بدمعاشی گذشتہ دس بارہ برسوں سے جمے سکریٹری کی ہے کیونکہ سکریٹری گذشتہ آٹھ دس برسوں سے جمے ہوئے ہیں؟

حکومت کے ڈپٹی سکریٹری رینک کا کوئی آدمی اب آنا چاہئے، اصل میں جو گڑبڑی ہے وہ سکریٹری کے معیار سے ہی ہے، وہ ہی سب ہینڈل کرتے ہیں، یہ سب جو کچھ بھی ہوا ہے اس سب کے پیچھے سکریٹری کا ہی ہاتھ ہے، ہم لوگ وہاں تک پہنچ نہیں رہے ہیں، محسن سکریٹری کے پیچھے ہیں اصل میں سکریٹری ہی ہے جو کھیل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جب مارچ کی میٹنگ میں ان کے تمام کاموں کی مخالفت کمیٹی کے اراکین نے کی تھی اور اس وقت بہت ہی ہاٹ ٹاک ہوئی تھی، اس لئے اس میٹنگ کے بعد بہت دنوں تک سکریٹری نے میٹنگ نہیںکرائی اور یہ پلان کرتے رہے کہ کیسے کمیٹی کے اراکین کے اتحاد کو توڑا جائے،

تو اس کا یہ راستہ نکالا گیا کہ سوسائٹی کے دو سرگرم اراکین کو سائڈ لائن کردیا گیا، اس کے بعد جو میٹنگ ہوئی ان میں اِدھر کے اراکین کو اُدھر، اپدھر کے اراکین کو اِدھر کرکے آپس میں تفرقہ پھیلا دیا گیا، اس میں آفاقی مخالفت کررہے تھے تو ان کے لئے فوراً ایک ایوارڈ بنا لیا گیا اور اُنہیں بھی ایوارڈ دے کر ان کا منھ بند کردیا گیا۔ سکریٹری کے کام کی مخالفت کرنے والے اراکین کو یا تو ہٹا دیا گیا یا انہیں خرید لیا گیا، یہ سارا کھیل سکریٹری نے کھیلا اور میڈم آصفہ زمانی نہایت بھولی ہیں، وہ چیزوں کو سمجھتی نہیں ہیں وہ اس سکریٹری کے چکر میں آجاتی ہیں، میٹنگ میں اکادمی کی بنیادی چیزوں پر بات ہوتی اس کے بجائے یہ ایوارڈ کی ہی بندت بانٹ ہوتی رہی۔

اکادمی میں تو جو پیسہ الاٹ کرنے کی بات ہوتی ہے، پانچ پانچ لاکھ، دس دس لاکھ بغیر ایگزیکٹیو میں پاس ہوئے ریلیز نہیں ہوسکتے لیکن یہ رقم بھی سکریٹری اور چیئرمین کی سائن سے بغیر ایگزیکٹیو میں پاس ہوئے ریلیز ہوجاتی ہے۔

اسی پر مارچ کی میٹنگ میں پرزور طریقے سے اکادمی کے اراکین نے اعتراض کیا تھا کہ بغیر کسی سب کمیٹی کے یہ پیسہ کیسے ریلیز ہورہا ہے، یہ یہ کرتے تھے کہ پہلے کام کرالیا پھر کمیٹی میں پیش کررہے ہیں اس پر کئی اراکین نے ناراضگی ظاہر کی کہ پہلے آپ کمیٹی کے سامنے پیش کرتے، ہم دیکھتے، ہمیں پتہ تو چلتا کہ کیا چیز آئی ہے، کیا ہونا ہے، اس پر غور وفکر کرتے، پھر اسے پاس کرتے پھر جاکر آپ خرچ کرتے، اس میں افسر مالیات کا بھی کھیل ہے کیونکہ یہ بھی بھاشا سے ہی آئے ہیں جبکہ اردو اکادمی کے آئین میں صاف طور پر لکھا ہے کہ افسر مالیات ٹریزری سے ہی آنا چاہئے، سکریٹری ان کو ملاکر یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں، کیونکہ سکریٹری تینوں جگہ قابض ہیں یہ بھاشا میں بھی ہیں، اردو اکادمی میں بھی ہیں اور فخرالدین علی احمد کمیٹی میں بھی ہیں،

ایسے میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کتنا پیسہ اندر کیا جارہا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ باتیں ابھی تک وزیراعلیٰ نہیں پہنچی ہے وزیراعلیٰ تک یہ ساری باتیں پہنچنی چاہئیں تبھی اس کا پردہ فاش ہوسکتا ہے اور وزیراعلیٰ یوگی جی اس کا ضروری جانکاری لیں گے کیونکہ اس سے پارٹی کی بدنامی ہورہی ہے اس سے حکومت کی بدنامی ہورہی ہے۔ ‘‘
واضح رہے کہ جیسے ہی اردو اکادمی کے انعامات کا اعلان ہوا، حسب دستور اردو والے ایک دوسرے کو مبارکباد دینے میں مشغول ہوگئے جبکہ اردو اکادمی کے ممبر مالِ غنیمت بانٹنے میں اور سب نے آخرکار یہ میرا یہ تیرا، یہ تیرے والا کا یہ میرے والے کا کرکے سارے ایوارڈ تقسیم کردیئے وہ تو بھلا ہو پرنسپل سکریٹری جتندر کمار کا جنہوں نے بلاتاخیر نہ صرف روک لگائی بلکہ اکادمی سے جواب بھی طلب کرلیا ایسے میں ایوارڈ واپس کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا، اور ایوارڈ واپس کرکے اپنی بدعنوانی کو سبھی نے قبول کرلیا۔ کل بیھ لکھا تھا کہ ان سب کے لئے ایوارڈ کیا؟ یہ سب ایوارڈ کی رقم حاصل کرنے کیلئے ہی پیش رفت کی گئی ورنہ ان کے ڈرائنگ روم کی زینت اس سے بڑے بڑے ایوارڈ بنے ہوئے ہیں یہ پہلی بار نہیں ہوا ۔

اس سے پہلے بھی اکادمی کے ہی ملازمینکو پہلے بھی ایک لاکھ کا انعام دیا جاچکا ہے لیکن یہ تو کاروبار ہے، اکادمی میںکوئی ایسا رکن نہین کسی کو کوئی شرم نہیں جو ان بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھائے کیا اردو والوں کا ضمیر بالکل مر گیا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی کوئی صلاحیت نہیں رہی۔ شاید ان کا سوچنا بھی صحیح ہے ورنہ ڈاکٹر طارق قمر، ڈاکٹر حمایت جائسی، جیلانی خان، غفران نسیم، ایس این لال جیسے اردو کے صحافی کے رہتے کسی 70 سال کے بزرگ کو نوجوان صحافی کا ایوارڈ تو ہرگز نہ ملتا دوسری طرف اسی شہر کے کئی ایسے بھی غیرتمند سینئر صحافی ہیں جو نہ تو ایوارڈ خریدنے کی ہوڑ میں رہتے ہیں اور نہ ایوارڈ کے لئے کوئی جوڑتوڑکر سکتے ہیں ان میں حسین افسر تو ایک ایسے صحافی ہیں جن کی نہ صرف ریاستی ہیڈکوارٹر پر برسوں پریس منظوری رہی بلکہ یہ بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر وہاں موجود تھے اور اس کی لائیو رپورٹنگ بھی کی تی، یہی اکیلے اردو صحافی ہیں جنہوں نے 1998 ء میںشہرنامہ کے نام سے اردو کی نیوز ویب سائٹ لانچ کی آج بھی ’’آگ‘‘ جیسے معتبر اور شہرت یافتہ اخبار کے سنڈے میگزین اور ویب پورٹل کے ایڈیٹر ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ حسین افسر خود بھی اردو اکادمی کی ایگزیکٹیو میں رہ چکے ہیں لیکن آج کے اراکین کی طرح خود اپنے لئے ایوارڈ لینے کو انہوں نے اردو ادب کی توہین سمجھا اور جس نے انکے زمانے میں ایسا کرنا چاہا تو اس پر پرزور احتجاج بھی کیا۔

اب جب اردو والے کھل کر سامنے آنے لگے ہیں تو ضروری ہے کہ نہ صرف اردو اکادمی کے ذمہ دار اپنے کو صاف شفاف ثابت کرنے کیلئے خود حکومت سے اپیل کریں کہ گذشتہ دس برسوں کی سی بی آئی سے غیرجانبدارانہ جانچ کرائی جائے بلکہ سبھی اردو دوست ایک صف میں کھڑے ہوکر اس کی پرزور مذمت کریں اور یوگی حکومت جو ریاست میں بدعنوانی سے مبرا حکومت کا دعویٰ کررہی ہے اس کو ایک میمورنڈم دیں کہ اردو اکادمی کی اعتمادیت برقرار رکھنے کے لئے فوراً سی بی آئی جانچ کرائی جائے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here