مودی اسٹیڈیم میں سیاسی کرکٹ- Political cricket at Modi Stadium

0
201

Political cricket at Modi Stadium

صوفی انیس درانی
بحیثیت وزیر اعظم نریندر دامودرداس مودی جو پہلے صرف بھارت کے سب سے بڑے آدمی تھے اب بھگوان جی کی کرپا سے دنیا کے سب سے بڑے آدمی بن گئے ہیںکیونکہ دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم اب ان کے نام کے ساتھ منسوب کردیا گیا ہے۔ پہلے کسی سردار پٹیل کے نام پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن سردار پٹیل کی تو اب بھاجپا کی ضرورت ہی نہیں رہی اُس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس نہ چھوٹا اور نہ بڑا کوئی ایسا نام نہیں تھاجس کی آڑ میں سنگھ پریوار اور بھاجپا خود کو تحریک آزادی سے جوڑ سکتے اسلئے انہوں نے سردار پٹیل کو گود لے لیا کیونکہ گجراتی ہونے کے ساتھ ساتھ سارے بھارت میں انہیں ایک عظیم مجاہد آزادی اور کانگریس کے رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا۔ گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے ساتھ کانگریس کی ہر تحریک کے روح رواں ہوتے تھے۔2014میں جب مودی جی نے الیکشن جیت کر سرکار بنالی تو اب سردار پٹیل کے نام کی بھی ضرورت ختم ہو گئی پھر ویسے بھی ایک اچھے تاجر کی طرح کئی ہزار کروڑ کی سردار پٹیل کی مورتی بنوا کر گجرات میںلگا دی گئی تھی، اس لئے دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم کے نام سے سردار پٹیل ہٹا کر نریندر مودی اسٹیڈیم کردیا گیا۔عقل یہ سوچ کر بھی حیران ہے کہ کیا’’میرے پاس کیا ہے کسی دن بھی جھولا اٹھاؤں گا چلا جاؤں گا‘‘ بار بار کہنے والا اب دنیا کے ما یا جال میںپھنس چکا ہے ۔ میاں راہل گاندھی صحیح کہہ رہے تھے ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ کیونکہ مودی اسٹیڈیم کے دو کناروں کے نام ایک ریلائنس اینڈ(Reliance End)اور دوسرا اڈانی اینڈ ہیں(Adani End) ان دونوں یعنی مودی اور امیت شاہ کے جانشین فرزند دلپذیر جے شاہ اس وقت بھارت میں کرکٹ سمراٹ ہیں ان کے اشارے کے بغیر بھارت میں کوئی اہم کرکٹ کا میچ نہیں ہو سکتا ان کی منظوری کے بغیر بھارت کسی بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کرسکتا۔بہر حال وزیر اعظم نریندر مودی اور مستقبل کے وزیراعظم امیت شاہ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیںمگر اس افسوس کے ساتھ کہ گجرات میں ہی گجرات کی مٹی سے نکلنے والے عظیم رہنماؤں کی مٹی پلید کی جارہی ہے۔ گاندھی جی کے قاتلوںکی سرپرستی کرنے کے الزام میں سردار پٹیل نے سنگھ پریوار پر پابندی لگادی تھی۔ اب سنگھ پریوار نے سردار پٹیل کے نام کا استعمال کرکے ان کا نام تک ہٹا دیااگر دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیم کا نام گجرات کی سب سے اہم عالمی شخصیت مہاتما گاندھی کے نام پر رکھ دیا جاتا تو کیا مضائقہ تھا لیکن سنگھ اور بھاجپا یہ کیسے برداشت کرسکتی تھی؟
احساس کمتری کی شکار قیادت سے عموماً ایسی حرکتیں انجام دی جاتی رہی ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں وزیراعظز نے لکھنؤ میں ایک آن لائن پروگرام میں مہاراجہ سہیل دیو کی یاد گارکا سنگھ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ بنانے والوں کے خلاف تاریخ نگاروںنے بڑی نا انصافی کی ہے۔ ہم اس کی اصلاح کریں گے اور نئے بھارت کو ان تمام خرافات سے نجات دلائیں گے جن کوغلامانہ ذہنیت کے تاریخ نگاروں نے مسخ کر کے پیش کیا ہے جہاں پناہ نے فرما یا کہ تاریخ صرف وہ نہیں ہے جو ملک کو غلام بنانے والوں نے تخلیق کی اور نہ وہ ہے جو غلامی کے جال میں جکڑے ذہنوں نے لکھی۔بھارت کی اصل تاریخ تو یہاں کے عوامی عقائد اور عوامی گیتوںمیں پنہا ہے۔ہر سرکار کو شش کررہی ہے کہ بھارت کی تاریخ ساز شخصیتوںنیتا جی سبھاش چندر بوس سے لیکر سردار پٹیل اور بابا صاحب امبیڈکر اور مولاناآزاد تک سبھی کو ان کی شایان شان جگہ دی جائے ۔ گجرات کے لوگ سبھاش چندر بوس اور بابا صاحب امبیڈکر کو نہیں جانتے ہوں گے مگر سارے بھارت کے لوگ ان تاریخ ساز شخصیتوں سے بخوبی واقف ہیں۔مودی جی کے اس بیان میں دو باتیں حیرت انگیز ہیںایک تو مہاتما گاندھی کا نام نہ لینا اور دوسرے مہاراجہ سہیل دیو کا تاریخ ساز شخصیتوں میں شامل کیا جانا۔میرے خیال میں بھارت میں ایک فی صد لوگ بھی نہیں جانتے ہیں کہ مہاراجہ سہیل دیو کون تھے ۔ اس لئے کہ بھارت کی گذشتہ ہزاردو ہزار سال کی تاریخ میں سینکڑوں راجاؤں نے یہاں چھوٹی چھوٹی سلطنتیں بنا کر حکومت کی ایک دوسرے پر لشکر کشی کرتے رہے یہاں تک کے مسلمانوں نے آکر پھر اس عظیم الشان ملک کو ایک کیا۔ راجہ سہیل دیو بھی انہیں میں سے ایک رہے ہوں گے ۔مگر اب ایک سیاسی مقصد اور مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے ان کو راجہ سے مہاراجہ بنا دیا گیا۔ گیارہویں صدی میں غازی سید سالار مسعود مرحوم جو محمود غزنوی کے ایک زبردست سپہ سالار ہونے کے باوجود بہت نیک اور متقی بزرگ بھی تھے اور ان کی راجہ سہیل دیو کے ساتھ کئی بار جھڑپیں ہوئیں اور بالآخر راجہ سہیل کو اپنی سلطنت سے ہاتھ دھونا پڑا آپ کا روضہ مبارک بہرائچ میں ہے۔ لیکن چونکہ آپ سلطان محمود غزنوی کے جنرل تھے اس لئے وزیراعظم نریندر مودی کے لئے کار آمد بن گئے کیونکہ اس میں موجود ہندو مسلم زاویہ ان کے لئے بڑا اہم ہے۔ خیر جب ملک کے مقدس سیکولر آئین پر حلف لینے کے باوجود وہ اپنی سنگھی ذہنیت سے مجبور ہر کر آئین کے برخلاف چلتے ہیں تو اس میں کوئی کیا کرسکتا ہے؟
البتہ مجھے ان کی اس بات سے قطعی اختلاف نہیں ہے کہ ملک کی تاریخ اور ملک کی آزادی کی تحریک کی تاریخ دوبارہ لکھا جائے تا کہ سنگھ پریوار اور ہندتوا کے پیروکاروں کو احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی سے نجات مل سکے اب دیکھئے تمام تاریخ نگاروں نے خواہ بھارتی ہوں یا غیر ملکی ہندو(غیر سنگھی) ہوں یا مسلمان سب نے لکھ دیا کہ پرتھوی راج چوہان کو ہرانے کے لئے راجہ جے چند نے کئی ہزار میل دورسے شہاب الدین غوری کو بھارت پر حملہ کرنے کے لئے بلا یا تھا۔ بھلا کوئی ایسا راجہ ہو سکتا ہے جو بھارت ماتا پر خود حملے کی دعوت دے ۔اسی طرح جہانگیر اکبر اعظم کو خوامخواہ اکبر اعظم بنا دیاصرف انہوں نے راجہ مان سنگھ کی بہن جو دھابائی کو اپنی رانی بنا یا تھا۔ کچھ کم عقل تاریخ نگاروں نے بھی چمچہ گیری کی ساری حدیں توڑ دیں اورلکھ دیا کہ اکبر کی حکومت کے درمیان ان کی سلطنت بھارت کی سب سے زیادہ رقبہ والی اور بے حد خوشحال مملکت تھی۔اس لئے وہ اکبر اعظم کہلانے کے مستحق ہیں۔ایک غلط فہمی یہ بھی پھیلا دی گئی ہے کہ اکبر کی فوجیوں نے مہارانا پرتاپ کو جنگلوں میں بھاگنے اور چھپنے کے لئے مجبور کردیا تھا۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی’’سنگھ مہا ودیالیہ‘‘ کے مؤرخین کے مطابق مہارانا پرتاپ کی فوج نے اکبر کی دو تہائی بھارت پر حکومت کرنے والی زبردست فوج کو ایسی شکست دی تھی کہ اکبر کو میدان سے بھاگنا پڑگیا تھا۔ اسی طرح پانی پت کے تاریخی میدان میں مراٹھوں نے احمد شاہ ابدالی کی فوج کے پرخچے اڑا دئیے تھے ۔ مگر لگتا ہے کہ اس زمانے میں بھی امبانی اڈانی جیسے قارونی دولت کے مالک سرمایہ دار ہوں گے جنہوں نے مؤرخوں کو گودی میڈیا کی طرح خرید لیا ہوگا۔ جو اس قسم کی خلاف حقیقت تاریخ لکھ کر چھوڑگئے۔
موجودہ سائنس نے بھارت کی قدیمی سائنس اور علوم باالخصوص ملک کی ترقی کی راہ استوار کردی ہے ضرورت ہے کہ اس پر خاص طور سے کام ہو جیسے ہمارے چند مرکزی اور سائنسی ادارے ’’گئو موتر‘‘ پر کام کررہے ہیں۔ گئو موتر ’’قارورہ بقر‘‘کی افادیت کا علم بہت پرانا ہے کون سی ایسی بیماری ہے جو گئو متر کے پینے سے نہ جائے۔ ابھی تک تو اس قدیمی سائنس کے صرف چند دروازے ہی کھلے ہیں۔ پنچ وٹی یعنی گئو موتر، گئو گوبر، گئو ماتا کا دودھ اور گئو کا گھی اور مکھن سب میں بھگوان نے بڑے بڑے گن چھپائے ہیں۔کیا آپ کو علم ہے کہ گئو ماتا کے گوبر کا لیپ کرنے سے ہر چیز ایٹمی تاب کاری سے محفوظ ہوجاتی ہے ۔ ہم دو ایسی مملکتوں کے درمیان رہتے ہیں جن کے پاس ایٹمی طاقت ہے ۔ اگر چہ ہم بھی نہرو جی اور اندرا جی کے طفیل اٹامک طاقت برسوں پہلے بن چکے ہیںاور ہر حملے کا جواب دے سکتے ہیں(چین سے حالیہ سرحدی کشمکش میں بھارت کی شاندار جیت نے ثابت کردیا ہے کہ ہم اور ہماری حکومت کتنی مضبوط اور مستحکم ہے )لیکن اگر ہم اپنے بڑے شہروں کے درو دیوار پر گوبر کا لیپ کر لیں تو پھر ہم کو کسی بات کا کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ وزیر اعظم مودی خود فرما چکے ہیں کہ ویدک دور کی پلاسٹک سرجری کا کوئی جواب نہیں تھا۔ خود شیو جی نے اپنے بیٹے گنیش جی کا سر قلم کردیا تھا ۔ لیکن جب ماتا پاروتی روئیں دھوئیں تو پھر انہوں نے ہاتھی کا سرکاٹ کر گنیش جی کے سر کی جگہ فٹ کردیا تھا ۔ آپ سب قارئین مہابھارت اور رامائن کو ٹیلی ویژن پر دیکھ کر دنگ رہ گئے ہوں گے کتنی زبردست سائنسی ہتھیار تھے۔ایک ایک تیرایٹم بن کا کام کرتا تھا۔ اس زمانے کی جنگی سائنس کتنی زبردست تھی اس کا ان سیریلیوں کو دیکھنے سے کچھ قیاس لگا یا جاسکتا ہے ۔ وزیراعظم مودی کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔مثلا ایک دور تھا جب وہ ایڈوانی کی رتھ یاترا پر ان کے ساتھ جھولا لیکر سوار ہونے کو اپنی سیاست کی معراج سمجھتے تھے لیکن جیسے ہی انہیں سنگھ پریوار نے موقع دیا وہ ایڈوانی جی کو لنگڑی مار کر خود بھارت کے وزیراعظم بن گئے اور پھر امیت شاہ کی صحبت نے تو کمال ہی کردیا ۔ مرلی منوہر جوشی ،اومابھارتی،سشما سوراج سب کو پانی پلا دیا۔ یہ بھی اس قدیم علم کا فیض ہے جسے آج کے دور میں پولیٹکل سائنس کہا جاتا ہے اور شدھ ہندی میں چانکیہ نیتی کہا جاتا ہے۔
باتوں ہی باتوں میںامیت شاہ جی کا بھی ذکر نکل آیا تو ان کا تاریخ کا علم اور سیاست کا علم تو بہت وسیع ہے عین ویدک علوم کے مطابق ۔ لیکن ذرا جغرافیہ میں کمزور لگتے ہیں۔ چند روز قبل تریپورہ کے وزیراعلیٰ نے امت شاہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جب امیت شاہ جب بھاجپا کے کل ہند صدر تھے ان سے ایک نجی گفتگو میں کہا تھا کہ وہ نیپال اور سری لنکا میں بھی بھاجپائی حکومتیں قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔امیت شاہ کی اس وقت کی سوچ نے (اور غالباًآج بھی وہ سوچ بدلی نہیں ہے )اس خطے میں کافی ہلچل مچادی، نیپال کے وزیر خارجہ نے نیپال میں بھارتی سفیر کو طلب کر کے اظہار نا پسندیدگی کیا۔سری لنکا کے سفیر نے بھی بھارتی وزارت خارجہ کو خط لکھ کر غصے کا اظہار کیا ۔ امیت شاہ کو کہنا چاہئے تھا کہ ہم سنگھ سوچ کے مطابق ’’اکھنڈ بھارت‘‘ بناکر دم لیں گے۔بھارت کی سرحدیںزمانہ قدیم میں افغانستان سے شروع ہوتی تھیں اور برما تک پھیلی ہوئی تھیں۔ہم اس عظیم مملکت بھارت کو اس کی تمام پرانی سرحدوں تک لے جا کر دم لیں گے کیونکہ جہاں جہاں ماضی میں بدھ دھرم پہنچا ہے سب بھارت کا ہی علاقہ تھا۔ خواہ نیت ہو تھائی لینڈ،یا لاؤس ہو کمبوڈیا یا پھر ویت نام سب اپنے ہی برادر ہیں کیونکہ ان سب کے مقدس مقامات بھارت میںہیں۔مگراکھنڈ بھارت نے میں سب سے بڑی پریشانی کی جڑ مسلمان ہیں۔ افغانستان ، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا میں ممالک میں مسلمان موجود ہیں۔ اکھنڈ بھارت بن گیا تو ان سب ممالک میں رہنے والے مسلمانوںکی تعداد بے حد بڑھ جائے گی۔وزیر داخلہ امیت شاہ اور بھاگوت چچا جب یہ سوچتے ہیں تو ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ہیں!
مشغلہ ان کا بظاہر کاروبار گل سہی
وہ بھی زیر آستیںرکھتے ہیں خنجر نیا
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here