حماس اور اسرائیل کے مابین فی الحال جنگ بندی ہو چکی ہے لیکن مسلمانوں کا غصہ ابھی ٹھندآ نہیں ہوا ہے۔سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف بیان بازیاںاور اسرائیلی پروڈکٹس کے بایکاٹ کی اپیلیں یو ں ہورہی ہیں کہ بس آپ نے بائکاٹ کیا اور اسرائیل نے فلسطین کے سامنے گھٹنے ٹیکے۔بولنے والے اپنے فن خطابت کے ھجوہر دکھا رہے ہیں اور مسلمانوں کی غیرت کو للکار رہے ہیں۔لکھنے والے اخبارات کے صفحے کے صفحےسیاہ کر رہے ہیں۔اور ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیل اور عرب لیڈران اور اقوام متحدہ ان تحریروں اور بیان بازیوں سے خوف زدہ ہو ئے جا رہے ہیں۔اور بس آپ کے قدموں میں گرنے ہی والے ہیں۔لیکن مسلم عوام کو ان جوشیلی تقریروں اورگرم تحریروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،چاہے کئی گجرات اور دہلی برپا ہوجائیں، چاہے چین یا فلسطین میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے۔
لیکن جناب جس جوش سے آپ عربوں کو اور تمام مسلم ممالک کو حتیٰ کہ خود امریکہ اور اسرائیل کو مشورے، ہدایات اور وارننگ پر وارننگ دے رہے ہیں۔وہ ذرا اپنے ملک میںان مظالم پر بھی نظر ڈالیں ہیں جو مسلمان خود مسلمانوں پر کررہے ہیں، جن کے خلاف آپ کو ویسی ہی آواز اٹھانی چاہئے جیسے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف آپ اٹھارہے ہیں۔کیا آپ کو وہ لاکھوں بے بس اور مجبور بہنوں اور بیٹیوں کی آہیں سنائی نہیں دیتیں جن کے سرپرست قیمتی جہیز اور شاہانہ دعوتوں کا اہتمام نہیں کر سکتے۔ آپ خود ایسی غیرشرعی دعوتوں میں شرکت کرکے خوب ڈٹ کر کھاتے ہیں، کیا آپ کو وہاں ہیومن رائٹس اور ویمنس رائٹس کی خلاف اخبار میں جرائم کا کالم پڑھئے، اگرچہ کہ آپ کی آبادی 18-20 فیصد ہے لیکن جرائم میں آپ 50-50 ہیں۔ کیا اس طرح کے لوگ جب قوم میں بھر جائیں گے تو ان کا وہی حشر نہیں ہونا چاہئے جو کہ ہورہا ہے۔کیا اس کے ذمہ دار بھی یہودی یا امریکی یا آپ کے ملک کے فاشسٹ لیڈر ران قوم ہیں۔کیا اس کو روکنے کے لئے آپ نے کسی قسم کی کوئی اصلاحِ معاشرہ کی تحریک برپا کی ہے۔یہ سچ ہے کہ آپ انفرادی سطح پر کچھ نہیں کرسکتے، بقول علامہ اقبال
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اب وقت آگیا ہے کہ جتنے مشورے آپ نے فلسطین کے سلسلے میں پیش کئے ہیں۔ وہ تمام اپنے آپ پر اپلائی کریں۔ جماعت اور Masses کے بغیر نہ آپ ملک کے اندر کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ملک کے باہر۔اس کے لئے ایک جماعت ایک تحریک کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ دعوت، اصلاحِ معاشرہ کی بھی،تاکہ آپ کا حشر کل چین اور فلسطین یا برما کے مسلمانوں جیسا نہ ہو۔ بہت سی تنظیمیں اور جماعتیںجو جمہوریت، سیکولرزم اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک گیر سطح پر دینی، سیاسی اور معاشی بیداری پیدا کررہی ہیں،آپ یا تو ان کے ساتھ شامل ہوجایئے۔ملک میں اتنے بڑے بڑے فسادات اور گھٹالے ہوچکے ہیں، سپریم کورٹ کے جسٹس لویا کا قتل، ہیمنت کرکرے، پنسارے، گوری لنکیش جیسے لوگوں کے قتل، پلوامہ میں تین سو سے زیادہ فوجی جوانوں کے قتل ہوئے ہیں، لیکن کسی فاشسٹ یا فرقہ پرست پارٹی پر نہ دہشت گردی کا الزام لگا اور نہ ان پر پاپندی لگی، لیکن مسلم نوجوانوں کی تنظیم پر پابندی لگ گئی،اور کئی نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں کئی کئی سال کی جیل کرکے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو ہمیشہ کے لئے خوف اور دہشت کا قیدی بنا دیا گیا۔ اٹھئےکوئ مخصوص تنظیم یا جماعت یا تحریک یا اخبارنہیں لیکن کسی کا ساتھ تو دیجئے۔ یہ سب نہیں کرسکتے تو کم سے کم سطح پر دعوت و تبلیغ کے ذریعے کام کیجئے۔انسانی خدمت کے جذبے کو عام کیجئے۔اتھاد بین المسالک کے لئے کچھ کیجئے۔ کئی تنظمیں اور گروپ ہیں جو سنّت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے شرک کی حقیقت بت پرستوں کو سمجھارہے ہیں، اورانہیں ایک اللہ کی طرف لوٹا رہے ہیں۔ آپ ان کا ساتھ دیجئے۔ ہندوستان کے پندرہ بیس کروڑ مسلمانوں میں سے صرف ایک کروڑ مسلمان کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان جماعتوں کی نفری بڑھادیں تو دیکھئے آپ کی آواز نہ صرف فاشسٹ اور فرقہ پسندوں کے کانوں او ر ذہنوں میں بلکہ اسرائیل اور امریکہ کے ایوانوں میں بھی گونجے گی۔
بھول جایئے کہ آپ لکھ پتی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، یا بااثر ہیں یا کسی نواب کی اولاد ہیں۔ آپ کے تعلق سے سب کی پالیسی ایک ہی ہے، نہ آپ کو منسٹری ملے گی، نہ آپ کو نیشنل لیڈرز کی صف میں آنے کا موقع دیا جائیگا، اورنہ کسی کارپوریشن کا ڈائرکٹر بنایا جائیگا۔ آپ کو دو چار اسٹیٹ کمیٹیوں جیسے حج کمیٹی، اردو اکیدیمی یا اوقاف کمیٹی کی کرسیاں حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی سیاست میں مصروف کردیا جائیگا۔تو اب بھی وقت ہے سوچ لیجئے کہ اپنی ملت کے لئے خود اٹھئےیاپھر یوں ہی سوشیل میڈیا اور اخبارات میں اپنے بیانات جاری رکھئے جس سے کبھی کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔