9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
سہیل انجم
لیجیے جناب! نتیش کمار کے خلاف بی جے پی کا کھیل شروع ہو گیا۔ وہ کھیل جسے ’’آپریشن کمل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کھیل تو الیکشن کے پہلے سے ہی کھیلا جا رہا تھا لیکن اب کھلم کھلا شروع ہو گیا ہے۔ اروناچل پردیش میں نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو کے چھ ممبران اسمبلی کو توڑ لیا گیا اور انھیں بی جے پی میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس پر جہاں بی جے پی کے خیمے میں خوشی کا ماحول ہے وہیں جنتا دل یو کے خیمے میں مایوسی کا عالم ہے۔ بلکہ کسی حد تک ناراضگی کی بھی کیفیت ہے۔ جنتا دل یو کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا یہ قدم گٹھ بندھن دھرم کی خلاف ورزی ہے اور انتہائی افسوسناک ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جنتا دل یو کو یہ نہیں معلوم کہ بی جے پی گٹھ بندھن کا دھرم نباہنے کے دعوے تو خوب کرتی ہے لیکن اس کا عمل اس کے برعکس ہو تا ہے۔ یہ بی جے پی کی تاریخ رہی ہے کہ وہ جس ریاست میں کمزور ہوتی ہے وہاں مضبوط پارٹی کے کندھے پر سواری کرتی ہے اور خود کو مضبوط اور اپنے حلیف یا ساتھی کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ وہ اگر حکومت میں شریک ہے تو اندر اندر ایسی چالیں چلتی ہے کہ حلیف جماعت کمزور اور وہ مستحکم ہوتی جائے۔ پھر جب وہ اس پوزیشن میں آجاتی ہے کہ تن تنہا حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے تو جس کندھے پر سواری کیے ہوتی ہے اسے لات مار کر گرا دیتی ہے۔
اس کی بہترین مثال مہاراشٹرا کی ہے۔ وہاں بی جے پی اور شیو سینا تقریباً ایک چوتھائی صدی سے ایک دوسرے کے حلیف رہے ہیں۔ دونوں مل کر الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ شروع میں شیو سینا کافی مضبوط تھی اور اس کی قیادت میں مخلوط حکومت بھی بنی تھی۔ شیو سینا کے منوہر جوشی وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے گوپی ناتھ منڈے نائب وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ بی جے پی نے خود کو مضبوط کیا اور اس سے پہلے کی اسمبلی میں بی جے پی اتنی مضبوط ہو گئی کہ اس کی قیادت میں حکومت بنی۔ دیویندر فڑنویس وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔
جب 2019 میں ریاستی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو ایک بار پھر بی جے پی نے اپنی چالیں چلنی شروع کر دیں۔ شیو سینا کے اودھو ٹھاکرے نے اسے بھانپ لیا اور اس بار انھوں نے بی جے پی کی چالوں کو ناکام بنانے کا تہیہ کر لیا۔ لہٰذا شیو سینا نے اپنے وزیر اعلیٰ کی شرط رکھ دی۔ بی جے پی اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ جب بات نہیں بنی تو شیو سینا نے این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ اس پر بی جے پی کی تلملاہٹ قابل دید ہے۔ وہ تمام تر کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اس حکومت کو کمزور کرکے گروا دے اور اپنی حکومت بنا لے۔ لیکن شرد پوار جیسے سینئر سیاست داں کی وجہ سے اس کی یہ چال فی الحال کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔
اس سے بہت پہلے بی جے پی نے اترپردیش میں مایاوتی کو سپورٹ کیا تھا اور دونوں میں ڈھائی ڈھائی سال وزیر اعلیٰ بنے رہنے پر اتفاق ہوا تھا۔ لیکن جب بی ایس پی صدر مایاوتی نے دیکھا کہ بی جے پی اس کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو انھوں نے ڈھائی سال کے بعد بی جے پی کو حکومت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا اور حکومت سے الگ ہو گئی اور الیکشن کرانا پڑا۔ اسی طرح بی جے پی نے جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے کندھے پر سواری کی۔ وہی پی ڈی پی جس کو وہ علاحدگی پسندوں کی پارٹی کہتی رہی ہے اسی کے ساتھ اس نے حکومت بنائی۔ لیکن بہر حال وہ حکومت بھی زیادہ دن نہیں چل سکی اور بی جے پی کی سازشوں کی وجہ سے ختم ہو گئی۔
بی جے پی چاہتی ہے کہ کوئی بھی ریاست ایسی نہ بچے جہاں اس کی حکومت نہ ہو۔ اس کے لیے وہ ہر حربہ اختیار کرتی ہے۔ دوسری پارٹیوں سے لوگوں کو توڑنا اور اپنے ساتھ ملانا اس کا پرانا کھیل ہے۔ اگر کوئی آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اسے لالچ دیا جائے گا پھر بھی وہ تیار نہ ہوا تو اسے ڈرایا دھمکایا جائے گا۔ اس نے یہی کھیل کرناٹک میں کھیلا۔ کانگریس کے ممبران اسمبلی کو توڑ لیا اور جنتا دل ایس اور کانگریس کی حکومت گروا کر اپنی بنا لی۔ اس نے یہی کھیل مدھیہ پردیش میں کھیلا۔ کمل ناتھ کے خلاف محاذ آرائی کی گئی اور بالآخر وہاں بھی کانگریس کے ممبران کو اپنے خیمے میں لایا گیا اور وہاں ایک بار پھر شیو راج سنگھ چوہان کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت چل رہی ہے۔ وہ یہی کھیل راجستھان میں بھی کھیلنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن بہر حال کانگریس کے سینئر رہنما اشول گہلوت کے خلاف یہ سازش کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ اگر اشوک گہلوت ذرا بھی کمزور پڑیں تو وہاں بھی بی جے پی اپنی چالوں میں کامیاب ہو جائے۔
بہار میں الیکشن کے پہلے سے ہی نتیش کمار کے خلاف کھیل چل رہا تھا۔ لوک جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان کو بی جے پی نے نتیش کمار کے خلاف کھڑا کیا۔ انھوں نے نتیش کی پارٹی کے خلاف اپنے امیدوار اتارے اور بی جے پی رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی کے مطابق چراغ کی پارٹی نے بیس پچیس سیٹوں پر نتیش کو نقصان پہنچایا۔ الیکشن کے دوران بی جے پی کے بڑے رہنماؤں نے چراغ کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ انتخابی نتیجہ جب سامنے آیا تو وہی جنتا دل یو جو کہ پہلے بڑے بھائی کی پوزیشن میں تھا اب چھوٹے بھائی کی پوزیشن میں آگیا۔ بی جے پی نے ایک اور چلی۔ اس نے نتیش کمار کو ہی وزیر اعلیٰ بنایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیش جب ایک کمزور ورزیر اعلیٰ رہیں گے تو ان سے اپنا کام کروایا جا سکے گا۔ بی جے پی کا کام نتیش کریں گے اور بدنامی بھی انھی کی ہوگی۔ ان کی جو صاف ستھری امیج ہے وہ داغدار ہو جائے گی۔ ان کا سیکولر چہرہ بدنما ہو جائے گا اور جب ایسا ہوگا تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ہی ہوگا۔ نتیش یا تو بی جے پی کے رحم و کرم پر کام کرنے پر مجبور ہوں گے یا اگر الگ ہوں گے تو اس وقت تک ان کی طاقت بہت کمزور ہو چکی ہوگی۔
نتیش کمار جیسا کائیاں اور سمجھدار سیاستد اں بی جے پی کے چکر میں آگیا ہے۔ ادھر بی جے پی نے ابھی تک چراغ پاسوان کو این ڈی اے سے نکالا نہیں ہے۔ اس سے بی جے پی بہار میں ایک تیسری طاقت کھڑی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک ایسی طاقت جو کسی حد تک سیکولر ووٹوں سے بنے لیکن حکم اسی کا سنے۔ چراغ میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ مودی اور شاہ کے خلاف بول سکیں۔ نتیش کو اس کا احساس ہے لیکن وہ محض حکومت میں بنے رہنے کے لیے سب کچھ برداشت کرتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ یا تو ان کی کوئی حکمت عملی ہوگی یا پھر مجبوری۔ جو بھی ہو اس سے بی جے پی کو فائدہ اور جنتا دل یو کو نقصان ہے۔ بی جے پی نے نتیش کے قریبی سشیل مودی کو بھی ان سے دور کر دیا ہے۔ اس سے قبل ایسا ہوتا تھا کہ جب بھی بی جے پی کا کوئی لیڈر نتیش کے خلاف بیان دیتا تھا تو سشیل مودی نتیش کی حمایت میں آجاتے تھے۔ لیکن اب انھیں نتیش سے الگ کر دیا گیا ہے۔ انھیں راجیہ سبھا میں بھیج دیا گیا ہے اور ان کی جگہ پر دو ایسے لوگوں کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ہے جو آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا نتیش کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔
اب ایسے میں بی جے پی نے ایک بڑی اور کھلم کھلا چال چلی کہ اروناچل پردیش میں جنتا دل یو کے چھ ممبران اسمبلی کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کروا دیا۔ اب ایسی خبریں یا افواہیں ہیں کہ مغربی بنگال کے الیکشن کے بعد بہار میں ایک بڑا آپریشن کیا جائے گا۔ جنتا دل یو کے ممبران کو توڑ کر بی جے پی میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر یہ خبر درست ہے اور ایسی خبروں سے انکار بھی نہیں جا سکتا، تو نتیش کمار کو ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں۔ آر جے ڈی سے ان کو پیشکش کر دی گئی ہے کہ وہ اس کے ساتھ مل جائیں۔ وہ پہلے بھی اس کے حلیف رہے ہیں لیکن بعد میں انھوں نے اس کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا۔
بہر حال بہار میں اگلے کچھ مہینوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی بڑا الٹ پھیر ہو سکتا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ نتیش کمار چپ چاپ بی جے پی کی سازشوں کو برداشت کرتے ہیں یا وہ بھی کھل کر میدان میں آجاتے ہیں۔ آنے والے وقت کا انتظار کیجیے۔ بہار کی سیاست میں زلزلہ آنے والا ہے۔
٭٭٭