ادب اطفال اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے افق-New horizons for children’s literature and science and technology

0
281

New horizons for children's literature and science and technology

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہم جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہہ کامل نہ بن جائے
موجودہ دور سائینس و ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے۔ پوری دنیا نے سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت کوقبول کیا ہے۔ دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ لگی ہوئی ہیں۔ اسکی کامیابی کو مفید کارآمد اور مؤثر تصور کیا جا رہا ہے۔ اسی کے اثرات ہمیں روز بروز جدید ایجادات کی شکل میں نظرآ رہے ہیں۔ آج انسان سائنس و ٹیکنالوجی کو زندگی کے ہر شعبہ میں معقول طور پر استعمال کررہا ہے۔ تعلیمی ،سماجی ، معاشی اور سیاسی شعبوں کے ساتھ ساتھ مذہبی شعبے کو سائنس و ٹیکنالوجی نے مستحکم کیا ہے۔ دورِ جدید کی ٹیکنالوجی کو سمجھنا اور اسے استعمال کرنا ترقی یافتہ سماج کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ اس سے دور رہنے والے سماج یا افراد کو ترقی سے دور سمجھاجاتا ہے۔
اردو ادب میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کا شعبہ تو بالکل ہی الگ ہوتاہے لیکن اس کی تعلیم کی ابتداء بچپن سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ اردو ادب میں جس طرح ادب اطفال پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اسی طرح اس میں سائنسی ادب پر بھی بہت زیادہ زور دیاگیاہے۔ اردو میں بچوں کو سائنس مضمون کی تعلیم ابتدائی جماعتوں سے دینے کا رواج ہے۔ تاہم ادب اطفال میں جس انداز میں کہانی،افسانہ اور نظم کے موضوعات پر توجہ دی گئی لیکن اس میں سائنسی نقط? نظر و فکراندوزی والے عنوانات پر ا?دھی توجہ بھی نہیں دی گئی ہے اور اس سلسلے میں جو کچھ کام بھی ہوئے اس کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ اسی لئے سائینس و ٹیکنالوجی کی رفتار کو اردو ادب اطفال میں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ بچوں میں ابتداء سے ہی سائینسی رغبت پیدا ہو انکی ذہن صلاحیت ، غور وفکر کرنے کے رجحانات کے باغ میں نئے نئے تازہ تازہ پھول کھلتے رہے۔ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ذیادہ تر بچے اسکولوں میں سائنس و ریاضی مضامین سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ انکا دلی لگاؤ ذہنی دلچسپی انکو توانائی مہیا نہیں کرتی ہے۔ انھیں ان مضامین سے اکتاہٹ ہو جاتی ہے۔ اردو ادب میں جسطرح زبان دانی کی نشوونما کے لئے بھر پور مواد موجود ہے۔ ایسے ہی جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے چھوٹے چھوٹے موضوعات کو مرکز بناکر بچوں کی دلچسپی کو ابھارا جانا چاہیے۔
سائنس کی بنیادی تعریف اور بچوں کے لئے سائینسی ادب :-
انگریزی لفظ ’’سائنس‘‘ (Science)، لاطینی کے ’’سائنسیا‘‘ یا ’’سائنشیا‘‘ (Sciencia) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’جاننا‘‘ (To Know) ہے۔ ’’سائنس‘‘ کا اردو اور عربی ترجمہ ’’علم‘‘ سے کیا جاتا ہے جو اس کے لغوی ماخذ سے مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ ’’جاننا‘‘ اور ’’علم رکھنا‘‘ کم و بیش ایک ہی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ تاہم ا?ج یہ ممکن نہیں کہ ہر علم کو ’’سائنس‘‘ قرار دیا جاسکے۔ علم کی درجہ بندی کی گئی۔ جس سے مخصوص شعبے کے علم کی تفصیلی معلومات حاصل جا سکے۔ اسکی باریکیوں پر ریسرچ کیا جاسکے۔ اسی وجہ سے سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی مزید زمروں میں منقسم کیا گیا ہے۔ جیسے علم فلکیات ، علم کیمیاء ، علم بائیولوجی، علم زولوجی باٹونی وغیرہ
بچوں کے سائنسی ادب پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ سمجھ لینا مناسب ہوگاکہ سائنسی ادب کیاہے؟ اور یہ ادب بچوں کے لئے الگ کیوں ہے۔ بچے اپنے اطراف وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات پر اطمینان بخش جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ مختلف سوالات دریافت کرتے رہتے ہیں۔ بڑے بزرگ یا تعلیم یافتہ حضرات ان تمام واقعات سے مانوس ہوتے ہیں۔ انھیں انکاعلم ہوتا ہے۔ وہ روز اسے دیکھتے ہوئے، محسوس کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ لیکن بچوں کو اسکی تفصیلی جانکاری دینا ضروری ہے۔ غبارہ اوپر ہی کیوں جاتاہے ؟ ہوا نظر کیوں نہیں آتی ہے؟ موسم کی تبدیلی ،رہن سہن میں فرق، بارش کا برسنا ،کھانے کا پکنا ، گرم ٹھنڈی چیزوں کے بارے میں علم اور اندھیرا روشنی وغیرہ وغیرہ ان تمام کی سرسری معلومات بچوں کے شبہات کو دور نہیں کر پاتی ہے۔ وہ تو اسکے پیچھے کی اصل کہانی کو جاننا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے سرپرستوں و اساتذہ اکرام کا سائسٹفیک ہونا نہایت ضروری ہے۔ تبھی ہم بچوں کے نظریات کو سائینسی نظر دے پائنگے۔
ادب اطفال میں سائینس و ٹیکنالوجی ک استعمال عمر و نفسیات کے لحاظ سے ہو۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کا ادب ان کی عمروں کے اور انکی نفسیات کے اعتبار سے تیارکیاجاناچاہیے۔ تین سے چھ سال کے بچے پڑھنا نہیں جانتے، ان کے لیے تصاویری کتابیں ،بولتی کتب ، حرکاتی کتب ، رنگین و دلکش ڈیجیٹل بْک ہونی چاہئیں جو سائنسی تصورات پیش کرتی ہوں۔ انکے موضوع بھی بچوں سے مانوس ہونے چائہے۔
۶?سے ۸ سال کے بچے عموما چھوٹے چھوٹے جملے پڑھنے لگتے ہیں۔ اس لیے ان کے بچوں کے لیے ایسی کتابیں ہوں جو زبان کے اعتبار سے ا?سان ، بے حد مختصر،دیدہ زیب تصاویر سے مزین ہوں۔ ان بھی اینیمیشن تصاویر اور مؤثر عنوانات ہو۔ اس عمر کے بچوں کو گھریلو استعمال کی چیزیں اور گھر کے کام کاج میں استعمال ہونے والی چیزوں میں دلچسپی ہوتی ہیں۔اسے ملحوظ تخلیق رکھے۔ ہروضوع کی معلومات مع وجہ بتانے سے سائنسی نظریات کی بلندی و ترقی ہوتی ہیں۔
۹?سے ۲۱?سال کے بچے فطرت میں دلچسپی لینے لگتے ہیں،اس لیے وہ ایسی کہانیاں پسند کرتے ہیں جو روزمرہ کے تجربات اور حادثات سے پر ہوں۔اس عمر کے بچوں کو سائینسی نقط? نظر پیدا کرنے والے مضامین دئیے جائیں۔ ان سے سواالات بھی پوچھے جائے۔ایسے موضوعات کو دلچسپ انداز میں پیش کیا جائے جس سے انکی مخفی صلاحیتوں کو توانائی ملے اور وہ خود سے کچھ الگ نیا کرنے کے قابل بنے سکے۔
جب کہ ی چودہ سال کے بچے اپنے ماحول سے پوری طرح باخبر ہوجاتے ہیں اور ایسی تخلیقات پسند کرتے ہیںجو ان کی متجسس فطرت کے لیے باعث تسکین ہوں اور ماحول میں پائی جانے والی چیزوں کے بارے میں ان کے کیااور کیوں کے جواب اپنے اندر رکھتی ہوں۔ موبائل وایپ ، ٹیبلیٹ لیپٹاپ اور کمپوٹر پروگرامس کا مؤثر استعمال کیا جانا چاہیے۔ سبق آموز گیمس جس میں سائینسی نقطہ نظر ہو اسے پیش کرنا چاہیے۔
نصابی کتب بھی ادب اطفال کا حصہ ہیں۔ آج مصنفین نے اردو میڈیم کے سائنس کے طلباء کے لیے این سی ای ار ٹی نصاب کے مطابق مختلف سائنسی مضامین کی کتب تیار کی ہیں جو طلباء کے لیے بہت کارآ مد ہیں۔انھیں تیار کرنے والوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر زاہد حسین،ڈاکٹر خوشنود حسین ،بنگال کے عبدالودود انصاری اور مہاراشٹر کے رفیع الدین ناصر قابل ذکر ہیں۔ اسی بہت سے رسالے ماہنامے بچوں کی سائنسی و ٹیکنالوجی ترقی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ جنکے موضوع خالص سائینس پر مبنی ہوتی ہیں۔ اور ساتھ ہی اس میں جدید ٹیکنالوجی وکی روحانیت موجود ہیں۔ جس سے بچوں کو مفید رہنمائی دستیاب ہورہی ہیں۔
(جاری)
مسائل و امکانات :-
بچوں کے لیے سائنسی ادب کے سرسری جائزے سے اندازہ ہوتاہے کہ عام طور سے کچھ مصنفین نے بچوں کی عمر کا لحاظ کیے بغیراپنی تخلیقات پیش کی ہیں جو زیادہ تر بڑی عمر کے بچوں کے لیے ہیں۔
حکومت کی جانب کے مسائل :-
اس سلسلے میں کچھ رکاوٹیں تو سرکار کی طرف سے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح بچوں کی صحت و تندرستی کی جانب توجہ دی جارہی ہے۔ اسی طرح بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے تعلیمی میدان کے تمام شعبوں کی ترقی کے لئے مختلف پروگرامز مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔۔ جسے اسکولوں کے علاوہ بچے روز مرہ زندگی میں بھی استعمال کر سکے۔ جسے سائنس ایکزاویشن ، سائینس و ٹیکنالوجی موضوع پر مقابلہ آرائی، ادب اطفال کے مخصوص ادباء کو تعاون، بچوں کے رسالے و کتب کی پرنٹنگ وغیرہ پر خصوصی توجہ نہیں ہے۔
سماج کا رحجان :-
ذمہ دار خودار معاشرے میں ادب اطفال کے لئے اکتاہٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ سماج اردو ادب کو پش پشت ڈال کر دیگر میڈیم کو فروغ دینے کی کوشش کر رہیہیں۔ انھیں اردو میں بچوں کی ہمہ جہت ترقی نظر نہیں آتی ہے۔ انگریزی کلچر نے انھیں اندھا کیا ہوا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اردو ادب سے دور لے جا رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال معاشرے میں کیا جارہا ہے۔ لیکن بچوں کی ادبی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لئے اسے بروئے کار نہیں لایا جارہا ہے۔ معاشرے کی سائنسی ذہن سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

بچوں کے والدین و سرپرست :-
افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج ادب اور ادب اطفال کا مسئلہ پیچھے جا چکا ہے۔ “اردو زبان” خود، اردو دانوں کے گھر سے رخصت ہو رہی ہے۔ وہ والدین جن کی تعلیم ، تدریس اور روزی تک کا انحصار اردو پر ہے وہ بھی احساسِ کمتری کا شکار ہو کر اپنے بچوں کو اردو پڑھانے سے گریز کر رہے ہیں۔
ادب اطفال کے مسائل کا احاطہ کیا جائے تو اس کے بنیادی تین نکات سامنے آتے ہیں۔ بچوں کا ادب کہاں سے آرہا ہے ؟ کیسا آرہا ہے ؟ اور کہاں تک پہنچ رہا ہے ؟ اردو زبان کے استعمال میں گراوٹ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس سے قطعِ نظر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آج بچوں کا ادب کون لکھ رہا ہے ؟ کیا لکھ رہاہے ؟ اور کیسے لکھ رہا ہے ؟ ادب اطفال کے ہمارے قدیم ذخیرے میں بے شمار ایسے نام مل جاتے ہیں جو بیک وقت ادیب و شاعر ہوتے تھے اور تنقیدی نظر بھی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم سے نکلے ادبی شہ پارے بچوں کے دلوں میں پیوست ہو جاتے تھے اور بچوں کے ذہنی ارتقا کے ضامن بھی لیکن آج یا تو مجبوری میں بچوں کا ادب لکھا جا رہا ہے یا بے توجہی سے لکھا جا رہا ہے یا پھر بطور فیشن بچوں کا ادب تیار ہو رہا ہے۔ اہل لکھنے والوں کو ضرورت نہیں ، جسے لکھنا آتا ہے وہ لکھتا نہیں اور بیشتر وہ لکھ رہے ہیں جنھیں ادب اطفال کے رموز سے واقفیت نہیں۔ بآسانی انگلیوں پہ شمار کیے جانے والے چند نام ایسے ضرور مل جاتے ہیں جو محنت سے لکھ رہے ہیں لیکن بچوں تک اس کی رسائی ایک مشکل امر بنی ہوئی ہے۔ بچوں کے رسائل میں ڈھونڈے سے ہی کوئی ایک آدھ مضمون ایسا مل پاتا ہے جو صحیح معنوں میں ادب اطفال پر منطبق ہوتا ہو ورنہ بیشتر کہانیاں اور مضامین ایسے ہوتے ہیں جن کی زبان اور اسلوب دور دور تک بچوں کے ذہن و مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ بچوں کے ادب خلق کرنے والے اکثر ادبا کے ذہن اس فرق سے خالی ہوتے ہیں کہ کس عمر کے بچوں کے لیے کون سا اسلوب مناسب ہے ؟ یہ بھی ایک مسئلہ درپیش ہے۔

معاشی مسئلہ :-
اکیسویں صدی کے دورِ حاضر میں جو مواد مہیا ہے۔ اس میں جدیدیت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ سرپرستوں و والدین کی دلچسپی کے مطابق تخلیق کیا گیا ہیں۔ اس میں ذیادہ اخراجات خرچ ہوتا ہے۔ اس لئے اس مواد یا تخلیق کی قیمت ذیادہ ہوتی ہے۔ جسے خریدنے کی استعداد سبھی میں نہیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ قیمت دیکھکر خریدنے کا خیال ملتوی کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے جدید ادب انکے گھر پہنچنے محروم رہتا ہے۔ مثال کے طور پر بلیک اینڈ وائٹ کتب کی قیمت اور رنگین کتب کی قیمت میں کافی فرق ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انکی تخلیق کے لئے سرمایہ بھی ذیادہ لگتی ہے اور اگر رنگین کتاب کو موڈرن کرنا ہوتو اس میں اور خرچ ہوتا ہے۔ جیسے کیو آر کوڈ کا استعمال کرنا ہو۔ بولتی تصویروں کی شمولیت وغیرہ بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے مفید و کارآمد ٹیکنالوجی روز بروز اپڈیٹ لا رہی۔ اپڈیٹ ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جو سرپرستوں و والدین کے بجٹ سے باہر ہوتا ہے۔

مفید اقدامات :-

بچوں کے سائنسی ادب کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس پر ہمارے ادب کے مستقبل کا انحصار ہے۔اس سلسلے میں حسب ذیل اقدامات مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

١) مصنفین انفرادی طور پر بچوں کے لیے سائنسی ادب لکھنے پر خصوصی توجہ دیں۔
٢)سائنسی ادب کے تخلیق کار اپنی کاوشوں کو غیر اہم تصور نہ کریں۔
٣) تبصرہ اور تنقید نگار سائنسی ادب پر بھی توجہ مرکوز کریں تاکہ یہ تخلیقات نہ صرف عوام کے سامنے اسکیں بلکہ مثبت تنقید سے معیار ادب میں اضافہ بھی ہوسکے۔
٤)قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور ریاستی اردو اکادمی جیسے ادارے سائنسی ادب اطفال کی تیاری اور فروغ کے لیے منظم طور پر پروجیکٹ کے تحت مختلف عمر کے بچوں کے لیے الگ الگ کتابیں تیار کریں۔
٥)تیار کردہ ادب اطفال کی تخلیقات کو عام ہاتھوں میں رسائی کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اسکا منظم خاکہ و تربیت بنانی چاہئے۔
٦)اردو رسالے میگزین اور اخببارات کی ترقی کے لئے اردو والوں کو عملی کوششیں کرنی چاہئے۔

ازقلم
حسین قریشی
بلڈانہ مہاراشٹر

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here