Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکتنا اونچا کر دیا اسلام کے معیار کو روک کے شبیرؑ...

کتنا اونچا کر دیا اسلام کے معیار کو روک کے شبیرؑ نے عباس کی تلوار کو

آٹھ محرم کربلا انسان سازی کی درسگاہ

قافلہ حسینی کا سفر مدینہ سے لے کرمدینہ کی واپسی تک بغیر ذکر عباس کے ادھورا ہے۔کیونکہ اگر کربلا کو دو لفظوں میں سمیٹا کے جائے تو وہ دو لفظ صبر و شجاعت قرار پائیں گے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دو صفات کا کسی ایک شخص میں پایا جانامشکل ہے ، بازو میں زور رکھنے والا انسان دوسروں کی سختیوں پر صبر نہیں کرپاتا۔لیکن حضرت علیؑ کی شخصیت ان دونوں متضاد صفات کا مرکز نظر آتی ہیں کہ 25 سال زور بازو دکھایا تو لافتح کی سند ملی اور سکوت و صبر کا جو مظاہرہ کیا تو محسوس ہوا کہ علی سے بڑا کوئی صابرنہیں۔یہی صفات علی سے بعینہ عباس میں منتقل ہوگئے جس کا اظہار کربلا میں عباس نے اس انداز سے کیا کہ تفسیر کربلا کی تکمیل ذکر عباس کے بغیر ادھوری ہوگئی۔
ہمارے علماء اور ذاکرین نے آج کا دن خاص طور سے حضرت عباسؑ کے نام سے منسوب کیا ہے تاکہ ہر شخص اپنی بصیرت کے مطابق حضرت عباسؑ کی صفات سے درس و سبق حاصل کر سکے۔
شجاعت جن عام معنی میں سمجھی جاتی ہےکربلا میں اس کے جوہر دکھانے کا موقع عباسؑ کو نہیں ملاکیونکہ امام حسین ؑ خوب جانتے تھے اگر حضرت عباس ؑ کو تلوار کے ذریعہ شجاعت دکھانے کی اجازت دے دی تو کربلا کی تاریخ ہی بدل جائے گی پھر جیسے تمام جنگیں ہزاروں گردنیں قلم کر کے جیتی گئیں اُن ہی جنگوں میں سے ایک جنگ کربلا کی بھی تاریخ کے اوراق پر درج ہوجائے گی۔یہ کمال عباس تھا کہ آپؑ نے جنگ کئے بغیر شجاعت کے معنی بدل دئے اور بعد کربلا جب بھی شجاعت اور بہادری کا ذکر آتا ہے تو عباس کا نام بھی ذہن میں ابھر آتا ہے۔
حضرت عباس ؑ کی شجاعت کے بارے میں کوئی کیا جان سکے گا سب سے پہلے جو آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ حضرت علی ؑ جیسے شجاع نے ایک تمنا اپنے بھائی عقیل سے کی کہ اُن کا عقد ایک ایسے شجاع قبیلے میں کرائیں جس سے ایک شجاع بیٹا پیدا ہو جو کربلا میں میری نیابت کرے، اس کی ایک بہت چھوٹی سی جھلک حضرت عباس ؑ نے اپنے بچپن میں ہی صفین کی جنگ میں دکھادی تھی لیکن ان کی شجاعت کیا تھی اس کا درس ہمیں کربلا سے ملتا ہے جب امام حسین ؑ نے اپنے سارے عزیز و اقرباء ، دوست و احباب ، بھانجے بھتیجے یہاں تک کے بیٹے کے شہید ہوجانے کے بعد بھی حضرت عباس ؑ کو جنگ کی اجازت نہیں دی جبکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت عباس ؑ کئی دن کےبھوکے پیاسے ہیں، دن بھر لاشیں پر لاشیں اٹھا چکے ہیں پورا جسم زخمی ہے اس کے باوجود جب حضرت عباس ؑ سب سے آخر میں ایک بار پھر جنگ کی اجازت مانگنے آئے تو امام حسین ؑ نے صاف انکار کردیا، بہت اصرار کرنے پر بس اتنا کہا کہ عباس اگر جانا ہی چاہتے ہو تو پہلے کئی دن کے ان پیاسے بچوں کے لئے پانی کی کوئی سبیل کردو لیکن دیکھو تلوار لے کر مت جانا۔ ایسی حالت میں بھی تلوار نہ لے جانے کی ہدایت سے حضرت عباس ؑ کی شجاعت کا اندازہ صاحب عقل وفہم بخوبی لگاسکتےہیں،ہم تو بس اتنا سمجھ سکے کہ اس حالت میں بھی امام حسین کو یقین تھا کہ یزید کا لشکر حضرت عباس کی تلوار کے آگے ٹھہر نہ سکے گا اور پھر جو کربلا کی تاریخ ہم لکھنا چاہتے ہیں وہ نہ لکھی جاسکے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی جب حضرت عباس ؑ بغیر تلوار مقتل میں گئے تو یزیدی افواج میں بھگدڑ مچ گئی، حضرت عباس ؑ نے فرات پر قبضہ کرلیا پھر مشک کو پانی سے بھرا ۔آپ آج سنیں گےکہ جب حضرت عباس خیمہ کی جانب واپس آنے لگے تو کس طرح چھپ کر دھوکے سے ان کے ہاتھوں کو قلم کردیا گیا۔ یہی یزیدی فوجیں تھیں جب انہوں نے چار محرم کو دریا کے کنارے سے امام حسین ؑ کے خیموں کو ہٹانے کو کہا تو حسین ؑ کا شیر عباسؑ بپھر گیا، یزید کا لشکر کانپ گیا تھا اور جب انہوں نے تلوار کی نوک سے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور یزید کی فوج سے کہا کہ جب تک میں واپس نہ آئوں کوئی اس کے قریب بھی نہ آئے، دشمن فوج عباس ؑ کے غیض کی تاب نہ لاسکی اور جہاں تھی وہیں ٹھہر گئی۔ لیکن عباس ؑ نے بھائی حسین ؑ اور بہن زینب ؑ کی مرضی کے تحت تلوار زانو پر رکھی اور دو ٹکڑے کر اسے بہن کے قدموں میں ڈال دیا اور اسی کے ساتھ حضرت عباس ؑ نے شجاعت کے معنیٰ بدل دیئے اور ابھی تک شجاعت اُسے کہتے تھے جو جنگ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں پر غالب آجائے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کے سر قلم کرلے، لیکن عباسؑ نے بتایا کہ اصل شجاعت زورِ بازو نہیں بلکہ زورِ نفس ہے جوش کو ہوش پر غالب آنا شجاعت نہیں بلکہ اطاعت کے آگے اپنی طاقت پر قابو رکھنا اصل شجاعت ہے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular