ڈکٹیٹرس اپنے قول و عمل میں یکساں ہوتے ہیں
عبدالعزیز
’آدمیت لے رہی ہے ہچکیوں پر ہچکیاں
ہاتھ ہے ہٹلر کا رخش خودسری کی باگ پر‘
گزشتہ روز (8فروری) مسٹر نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں جو تقریر کی ہے اس سے اپنی پوری پہچان بتا دی اور اپنا اصلی چہرہ بھی دنیا کو دکھا دیا۔ ایسی شرمناک اور قابل مذمت تقریر مودی نے اس سے پہلے نہیں کی تھی۔ مودی ان ساری صفات و خصوصیات کے حامل ہیں جو صفات و خصوصیات ایک ڈکٹیٹر میں ہونا چاہئے، ہٹلر سے ان کی کافی مماثلت ہے۔ ہٹلر نے 1920ء میں یہودیوں کو گمراہ کن (Parasite) کہا تھا۔ اس کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ ٹھیک یہی اصطلاح اور لفظ مودی نے کسان آندولن کرنے والوں اور دیگر آندولن کرنے والوں کے بارے میں کہا۔ انھوں نے کہاکہ بدھی جیوی (دانشور)کی اصطلاح ہم سنتے آئے ہیں ۔ یہ ایسے بدھی جیوی ہیں کہ ہر آندولن میں خواہ وکیلوں کا ہو یا طالب علموں کا ہو یا مزدوروں اور کسانوں کا ہو ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ یہ در اصل ’آندولن جیوی‘ کہلانے کے مستحق ہیں ۔ آندولن کے سوا ان کا اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہ دراصل آندولن جیوی نہیں بلکہ ’پرجیوی‘ ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی تقریر سے اپنی بیمار ذہنیت کا ایک طرح سے تعارف کرایا ہے اور بتایا کہ جو لوگ آر ایس ایس کے پرچارک یا تربیت یافتہ ہوتے ہیں کیسی گندی اور مریضانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں۔ دنیا میں بغیر تحریک یا آندولن کے کہیں بھی انقلاب یا تبدیلی نہیں آتی اس حقیقت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔
آر ایس ایس کے تربیت یافتہ لوگ ہر تحریک اور ہر آندولن کو جو انسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے ہوتی ہے، جمہوریت اور آزادیِ رائے کیلئے ہوتی ہے، ہمیشہ خلاف رہے ہیں۔ جنگ آزادی میں سنگھ پریوار کے کسی شخص نے بھی حصہ نہیں لیا بلکہ مجاہدین آزادی کی مخالفت کرتے رہے اور انگریزوں کی وفاداری کرتے رہے۔ ان کے نظریہ ساز ساورکر ایک بار کسی وجہ سے گرفتار ہوگئے تو معافی مانگ کر جیل سے باہر ہوئے۔ زندگی بھر انگریزوں کی غلامی کرتے رہے اور ان کی ایک مشاورتی کمیٹی تھی جو انگریزوں کو مجاہدین آزادی کے خلاف مشورے دیتی رہی اور مدد کرتی رہی۔ یہ ہے مودی کے نظریہ ساز لیڈر کی تاریخ۔ مودی کو یہ نہیں معلوم ہے کہ آج بھی ایسے لوگ زندہ ہیں جنھوں نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا تھا اور آج جہاں بھی جبر و ظلم ہوتا ہے اس کے خلاف وہ آواز بلند کرتے ہیں۔ کرناٹک کے سوامی جو مجاہد آزادی ہیں ان کی عمر 104 سال ہے۔ وہ ہر ایک آندولن میں نا انصافی اور زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پرجیوی کہنا کتنی بڑی گمراہی، بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو عدل و انصاف کیلئے ہر گھڑی اور ہر وقت کھڑا رہتا ہے۔ پولس کی لاٹھیاں کھاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے، جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے پھر بھی اس کا حوصلہ پست نہیں ہوتا۔ کیا ایسے لوگ قابل تعریف ہیں یا قابل مذمت ہیں۔ قابل مذمت تو ان لوگوں کیلئے ہیں جو حق و انصاف اور انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔ انیکا سنگھ نامی ایک عورت جو دلت سماج سے تعلق رکھتی ہے، دلتوں کو اور دیگر طبقات کو اونچا اٹھانے کیلئے، برابری کا درجہ دلانے کیلئے ہر آندولن میں حصہ لیتی ہے۔ کئی بار اس کی گرفتاری ہوئی اور اسے جیل جانا پڑا پھر بھی اس کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ اس نے نریندر مودی کی راجیہ سبھا والی تقریر کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی تقریر انسانیت دشمن شخص ہی کرسکتا ہے۔
نریندر مودی نے ’ایف ڈی آئی‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک کی ترقی کیلئے بہت ضروری ہے کہ لیکن ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے جسے “Foreign Destructive Ideology” (ایف ڈی آئی) کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہاکہ قوم کو ایف ڈی آئی غیر ملکی تباہ کن نظریات کی نئی شکل سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ بیان پوپ سنگر ریحانہ، امریکی نائب صدر کملا ہیریس کی بھانجی مینا ہیریس اور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھمبرگ کی جانب سے زرعی ترمیمی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے ہندستانی کسانوں کی حمایت کرنے کے بعد بین الاقوامی شخصیات کے حوالے سے اس طرح کا بیان سامنے آیا ہے۔کسان 26نومبر 2020ء تینوں نافذ کردہ زرعی قوانین یعنی کسانوں کی پیداوار اور تجارت ایکٹ 2020ء کے خلاف قومی دارالحکومت کی مختلف سرحدوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ اس تحریک میں اب تک 250 کسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور جو لوگ آندولن کر رہے ہیں حکومت ان کیلئے مشکلات پر مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے اطراف خاردار تار لگائے جارہے ہیں۔ کیل کانٹے بچھائے جارہے ہیں۔ کنکریٹ دیواریں بنائی گئی ہیں۔ مودی کو اتنا بھی شعور نہیں ہے کہ جو لوگ آندولن میں شریک ہوتے ہیں انھیں سخت اور سنگین ترین مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جان جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ کیا یہ لوگ اپنے لئے آندولن کرتے ہیں یا سب کی بھلائی اور بہتری کیلئے کرتے ہیں۔ مودی ایک طرح سے انسانوں کی ہر بھلائی اور بہتری کے خلاف نظر آتے ہیں۔ زرعی قوانین امبانی اور اڈوانی کی دولت بڑھانے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ یہ لڑائی امیروں اور غریبوں کے درمیان ہے۔ جبر و ظلم اور ناانصافی کے خلاف ہے۔ مودی کی آنکھوں نے دیکھا ہوگا کہ جب نربھیا کی تحریک چلی تو جنتر منتر سے لے کر راشٹریہ بھون تک آندولن کاری پہنچ گئے تھے۔ آج کسان آندولن کاری کو دہلی آنے نہیں دیا جارہا ہے۔ ان کے راستے میں کیل اور کانٹے بچھائے جارہے ہیں۔ ہزاروں پولس اور پارا ملٹری فورسز کو کسانوں کی خبر لینے کیلئے تعینات کر دیا گیا ہے۔ انا ہزارے اور کجریوال کا آندولن جب ہوا تھا تو پورا دہلی ہل گیا تھا اور اس کے پردے کے پیچھے آر ایس ایس کے لوگ آندولن کاریوں کی مدد اس لئے کر رہے تھے کہ کانگریسی حکومت کو گرانا تھا۔ آر ایس ایس کے یہ لوگ پرجیوی تھے یا آندولن جیوی تھے۔ سنیکت کسان مورچہ کی جانب سے ڈاکٹر درشن پال نے گزشتہ شام کو کنڈلی بارڈر پر بات چیت میں کہاکہ باہری حکمرانوں سے ملک کے ان کے بزرگوں نے آزاد کرایا تھا۔ کسانوں کو ایسے آندولن جیویوں پر فخر ہے۔ وزیر اعظم ایسے آندولن جیویوں کے خلاف ہیں۔
انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ نے آج اپنی پہلی خبر میں مودی جی کی خوب خبر لی ہے۔ لکھا ہے کہ 1920ء میں یہودیوں کیلئے ہٹلر نے جو گمراہ کن بات کہی تھی بالکل اسی طرح کی بات 2021ء میں مودی جی نے کسان آندولن والوں کے خلاف کہی ہے۔ جب بھی آندولن ہوتا ہے مودی جی شرمناک قسم کی بات کہنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ شہری ترمیمی قوانین کے خلاف جب تحریک زوروں پر تھی تو مودی جی نے کہا تھا تحریک کرنے والوں کو ان کے کپڑوں سے پہچاننا چاہئے۔ ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف تھا۔ ملک میں مسلمانوں کی تعداد بیس پچیس کروڑ سے کم نہیں ہے۔ کسان جو آندولن چلا رہے ہیں جن کا اثر ملک بھر میں ہے۔ خاص طور پر پنجاب ،ہریانہُ‘ اورمغربی یوپی میں ہے۔ اگر ان تین ریاستوں کے آندولن کاریوں اور ہمدردوں کو جوڑ لیا جائے تو بیس پچیس کروڑ سے کم نہیں ہوگی۔ملک بھر میں جو آندولن کاری اور ہمدرد ہیں ان کی تعداد بھی پندرہ بیس کروڑ سے کم نہیں ہوگی۔ دیکھا جائے تو 60۔70 کروڑ افراد یا کسان آندولن چلا رہے ہیں۔ ان سب کا مذاق اڑانا ، انھیں پرجیوی کہنا، ٹکڑے ٹکڑے گینگ ، ماؤدادی، خالصتانی، پاکستانی، غدارِ وطن اور اربن نکسل کہنا کتنی شرمناک اور قابل مذمت بات ہے۔ جولوگ سنگھ پریوار سے تعلق رکھتے ہیں یا ان سے ہمدردی کرتے ہیں انہی کو دیش بھکت یا محب وطن قرار دینا اور سب کو ملک دشمن اور غدار وطن بتانا کتنی خطرناک بات ہوسکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر شر سے خیر نمودار ہوتا ہے۔ خیر کا پہلو یہ ہے کہ وہ شرپسند عناصر جو گودی میڈیا میں ہیں یا سیاست دانوں میں ہیں ان کے کالے کرتوت بے نقاب ہوگئے ہیں۔ ان کی کسان دشمنی اور انسان دشمنی دنیا بھر کے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ چھوٹے بڑے سب مذمت کر رہے ہیں۔ مودی جی نے اپنی پوری طاقت راجیہ سبھا میں تقریر کرتے ہوئے لگادی لیکن کل ہی سے جو ان کی تقریر کے خلاف لکھے جارہے ہیں ، بیانات دیئے جارہے ہیں اور اس سے اب کی تقریر ہوا میں تحلیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک طرف حق کی آواز ہے اور دوسری طرف باطل کی۔ باطل پرستوں نے اپنے متضاد عمل اور قول کا ثبوت دیا ہے۔ایک طرف وہ کسانوں کو بات چیت کی دعوت دے رہے ہیں، دوسری طرف ان کے راستے میں کانٹے بچھا رہے ہیں۔ ایک طرف زرعی قوانین کو ڈیڑھ دو سال کیلئے معطل کرنے کی بات کر رہے ہیں، دوسری طرف ان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے قانون واپس نہ لینے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ یہ منافقانہ روش نہیں تو کیا ہے؟ تضادبیانی اور تضاد عملی کے یہ شکار سیاستداں نہ گھر کے ہوتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں سے ان کا کوئی دور دور تک لگاؤ نہیں ہوتا۔ یہ اپنے بیوی بچوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں۔ کسان دہلی کی سرحدوں پر مر رہے ہیں اور جاڑے میں ٹھٹھر رہے ہیں اور ان کے بیٹے ملک کی سرحدوں پر دشمن کی گولیوں سے ہلاک ہورہے ہیں۔ ان کی لاشیں ترنگے جھنڈے لپیٹ کر ان کے گھر پہنچائی جارہی ہے۔ ایسے لوگوں کو گودی میڈیا والے یا سنگھ پریوار کے کیڈرس اور لیڈرس اگر دشمن قوم اور غدارِ وطن کہتے ہیں تو کیا اتنے بڑے جھوٹ کو دنیا تسلیم کرلے گی یا ملک کے انصاف پسند شہری مان لیں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ مودی اور ان کے لوگوں کی الٹی گنتی جلد شروع ہوجائے گی۔ چار ریاستوں میں جو الیکشن ہونے والے ہیں یہاں کے ووٹرس اگر سوجھ بوجھ سے کام لیں گے تو یقینا ان کی انسان دشمنی کا صحیح جواب دیں گے اور ان کو ہر ریاست میں شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068