ایک اور مسجد کی شہادت-Martyrdom of another mosque

0
44

Martyrdom of another mosque

ابھی بارہ بنکی کے رام سنیہی گھاٹ کے سمیر گنج میں سو سالہ قدیم مسجد غریب نواز کی غیر قانونی شہادت کا معاملہ سرد نہیں ہوا تھا کہ اتر پردیش میں ایک اور مسجد کی شہادت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔اطلاع کے مطابق مظفر نگر میں ایک مسجد کو غیر قانونی تعمیر کا حوالہ دیتے ہوئے اسے شہید کر دیا گیا ہے۔
جہاں تک ضلع بارہ بنکی کی مسجد غریب نواز کا معاملہ ہے تو اس کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا لیکن عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے پولیس اور انتظامیہ نے (شائد) ارباب اقتدار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے شہید کرا دیا۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بابری مسجد کی طرح اس مسجد کو غیر مسلموں کی انتہا پسندی نے شہید نہیں کیا بلکہ خود پولیس اور انتظامیہ نے شہید کرایا۔جب کہ ایسا کوئی حکم فی الحال عدالت نے صادرنہیں کیا تھا۔حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ مسجد شہید ہوتی رہی لیکن مسجد کے ذمہ داران اور علاقے کے مسلمانوں نے خود کوئی کاروائی نہیں کی اور اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ جب یہ خبر میڈیا میں آئی اس کے باوجود بھی حکومت نے اس بابت کوئی مناسب کاروائی نہیں کی جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ ذہنیت کے افسران اور عوام کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ساتھ ہی حکومت کی شبیہ بھی خراب ہوتی ہے۔اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب مظفر نگرکے” کھتولی ” میں بھی ایک مسجد کی شہادت کا معاملہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔اس کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ اس مجد کو بھاجپا کے بعض لیڈران کی شکایت پر انتظامیہ نے شہید کرایا ہے۔
سوشل میڈیا پر وہ ویڈیو بھی گردش کر رہا ہےجس میں انتظامیہ کے ذمہ داران خود کھڑے ہو کر مسجد کو شہید کرا رہے ہیں۔بلڈوزر منگوایا گیا اور اس کے ذریعہ مسجد کی دیواروں اور چھت کو گرایا گیا۔لیکن بچا کھچا کام خود وہاں کے مسلمانوں نے خود پورا کیا۔پرنٹ میڈیا میں آئی خبر کے مطابق جب اس مسجد کو شہید کرنے ذمہ داران پہونچے تو انھیں مقامی مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔انتظامیہ کا دعوی ہے کہ مسجد اور مسجد کے اندر قائم مدرسہ وقف کی زمین پر ناجائز طور پر تعمیر کرائے جا رہے تھے۔جس کی جانچ پڑتال کے بعد اسے مسمار کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔جب مقامی مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کی گئی تو پولیس نے سختی کی جس کے نتیجہ میں معاملات زیادہ خراب نہیں ہو سکے اورایس ڈی ایم اور پولیس کی موجودگی میں مسجد کی دیوار اور ٹین شیڈ کو گرادیا گیا ،جس کے بعد باقی بچا کھچا کام مقامی مسلمانوں نے خود ہی پورا کر دیا او مسجد پوری طرح سے شہید کر دی گئی۔ایس ڈی ایم کے مطابق یہ زمین وقف بورڈ کی ملکیت ہے اور اس میں مسجد اور مدرسہ ناجائز طور پر تعمیر کیا جا رہا تھا،جسکی شکایت ملنے پر جانچ پڑتال کی گئی اور شکایت درست پائے جانے پر اس ناجائز تعمیر کو گرایا گیا۔
اطلاعات کے مطابق قبرستان میں اس مسجد کی تعمیر شروع کی جا رہی تھی جس کی اجازت کسی مجاز ادارے سے نہیں لی گئی تھی۔اور گزشتہ ایک ہفتہ کے اندر اس جگہ پر دیواریں کھڑی کر ٹین شیڈ بھی ڈال دیا گیا اور نماز شروع کر دی گئی جس کی شکایت ملنے پر انتظامیہ کی طرف سے کاروائی کی گئی۔
اب سوال یہ اٹھتا یہ ہے کہ جس طرح سے انتظامیہ نے شکایت ملنے پر فوری کاروائی کرتے ہوئے ایک زیر تعمیر مسجد کو شہید کرنے میں کوئی مستعدی دکھائی کیا اسی طرح کسی مندر یا کسی دوسری عبادت گاہ کو اس نے شیہید کرنے میں کوئی دلچسپی لی ہے۔کیا ریاست میں جگہ جگہ ہر سڑک ہر محلہ ہر گلی اور ہر سرکاری پارک میں اسے غیر مسلموں کی عبادت گاہ نظر نہیں آتی۔اگر تحقیق کی جائے تو ایک بہت بڑی تعداد ناجائز طور پر بنائی گئی عبادت گاہوں کی مل جائے گی۔لیکن نشانہ پر صرف مسلم عبادت گاہیں کیوں ہیں۔جبکہ حال ہی میں ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جتنی بھی غیر قانونی عبات گاہیں ہیں انہیں ہٹایا جائے اس کے بعد انتظامیہ نے کتنی عبادت گاہوں پر کاراوائی کی۔اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو۔اس سے قطع نظر افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو غیر قانونی طور پر مسجد یا مدرسہ یا مزارات کی تعمیر یا توسیع کراتے ہیں جو سراسر غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔غیر قانونی طور پر بنائی گئی مسجدوں میں نماز بھی ادا ہوتی ہے یا نہیں یہ بھی معاملہ مشکوک ہے اور قبولیت کی بات بہت دور کی ہے۔ملی تنظیموں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے معاملات پر خود نظر رکھیں اور ایسی حرکتوں سے لوگوں کو باز رکھنے کی کوشش کریں جن سے اسلامی شعائر پر حرف آتا ہو اور جو ملت کی شبیہ خراب کرنے میںممد و معاون ہوتی ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here