جوڑ توڑکے سہارے جنوبی ہند میں سیاسی جنگ- Manipulative political war in South India

0
89

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


محمد لقمان ندوی
یہ بات عیاں ہے کہ جنوبی ریاستوں میںبی-جے-پی کا راستہ مقامی پارٹیوں نے روک رکھا ہے ورنہ کانگریس توتقریباً تباہ ہوچکی ہے اوربی-جے-پی کو روکنے کا دم خم باقی نہیں بچا۔2004 سے 2014 تک مرکز میں کانگریس کی قیادت میں یو پی- اے اتحاد نے حکومت کی، ملک ترقی کی ایک نئی راہ پر جیسے چلتا نظر آیا اس میں کمال صرف اور صرف سابق وزیر اعظم مسٹر من موہن سنگھ اور وزیر خزانہ پی چدمبرم کا تھا جنہوں نے 2008 میں دنیا بھر کی معاشی بدحالی کے باوجود ہندوستان بہت زیادہ متاثر نہیں ہوا لیکن جانبدارانہ سیاسی صورتحال، غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم کے علاوہ مضبوط اپوزیشن کی عیاریوں اور حکومت کے نا اہل و بدعنوان وزیروں کے ہوس کی اگ سے خود اپنے خمیمہ کی طنابیں ہر سمت سے جلا ڈالیں، ان کو پتہ بھی نہ چلا کہ کب آگ اور کب آشیاں جلا۔
امر سنگھ کا توڑجوڑ ہو یا کلماڈی، جیسوال، اے راجا، کنی موہی، وغیرہ کی بدعنوانیاں، ممبئی حملہ ہو یا مالیگاوں قبرستان و ممبئی ٹرین بلاسٹ، انڈین مجاہدین، بٹلہ ہاؤس کا فرضی انکانٹر کا بھوت ہو، سب کانگریس کو بہا لے گیا مرکز سے لیکر ان ریاستوں میں جہاں کانگریس برسر اقتدار رہی وہاں سرکاری انڈین مجاہدین پیدا کرتی اور مجبور و معصوم مسلمانوں سے جیل آباد کرتی رہی یہاں تک کہ 2014 میں پھر 2019 میں طاقتور انتخابی مشینری اور ہندوتوا کے ایجنڈے کے ساتھ بی-جے-پی نے کانگریس کو ناک آوٹ کردیا اور مرکزی اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔
مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد بھی ریاستوں میں پوری طرح قابض نہ ہوسکی جس کی وجہ سے راجیہ سبھا اکثریت سے دور رہی باوجود اس کے راجیہ۔کے منافقوں نے بی-جے-پی کا ہر کام آسان کیا۔یاد کیجئے گجرات میں بڑی مشکل سے حکومت بچ پائی لیکن اترپردیش آسام اور کئی شمال مشرقی ریاستوں میں خود کو مضبوط کرنے میں قابل ذکر حد تک کامیاب رہی۔جبکہ گوا، مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں کانگریسیوں کی بغاوت بی -جے -پی کی پھر سے حکومت بنانے میں کام آئی، گویا ’’دیوں کی گرم مزاجی ہوا کے کام آئی‘‘ جبکہ اروناچل پردیش میں پہلی بار حکومت بنائی اس میں بھی کانگریسیوں کی کمزوری اور کئی علاقوں میں بی-جے-پی کے ساتھ کانگریسی خفیہ تعاون کام آیا۔
مہاراشٹرا میں بی- جے- پی کی حکومت ہونی چاہئے تھی لیکن اس کی سگی بہن شیوسینا نے غیر اطمینان بخش طریقہ سے کانگریس و این- سی- پی سے الائنس کرلیا اسی طرح راجستھان میں جیسے تیسے کانگریس کا بگڑا توازن درست ہو سکا، اور یہی وجہ ہے کہ بی-جے-پی کانگریس مکت بھارت کا خواب مشرق، مغرب اور شمال مشرق میں جلدی ہی پورا کر نے میں کسی حد تک کامیابی کے قریب پہنچ گئی جبکہ مغربی بنگال، آندھرا پردیش، اڑیسہ اور تمل ناڈو کیرالا تلنگانہ وغیرہ میں یہ تجربہ غیر موثر رہا (حالیہ حیدربا کارپوریشن الیکشن میں بی-جے-پی کی دھماکے دار انٹری نے تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا)مذکورہ ریاستوں میں کانگریس کی کمزوری نے بی-جے-پی کی امیدیں ضرور جگا دیں ہیں لیکن مقامی پارٹیاں راستہ روکے کھڑی ہیں۔
موجودہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں جہاں مغربی بنگال میں بی-جے-پی ہر ممکن کوشش سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے تمام دستوری اور اپنی اسٹائل میں غیر دستوری وسائل، غیر پارلیمانی زبان اور جھوٹے پروپیگنڈوں کا سہارا لے رہی ہے وہیں آسام میں حالات اس کے حق میں کچھ زیادہ اچھے ہیں، جبکہ بی-جے-پی جنوبی ہند کی تعلیم یافتہ ریاست تمل ناڈو میں اپنی موجودگی درج کرانے کیلئے ان تھک کوششوں میں مصروف ہے، تمل ناڈو میں’’اے -ڈی- ایم کے‘‘ (جے للتا کی پارٹی) اور پانڈوچری میں ’’رنگا سوامی کانگریس‘‘ کی مدد سے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے لیکن اسٹالن اس راہ کا سب سے بڑا روڑا ہیں،اہم بات یہ بھی ہے کہ تمل ناڈو میں ہر پانچ سال میں حکومت بدل جاتی ہے، اگر جمہوری نظام سیاست کی تقویت کے حوالے سے بات کریں تو یہ بہتر بھی ہے۔جہاں تک کیرالا کی بات ہے تو وہاں بی-جے-پی ابھی تک خواب بن رہی ہے وہاں وہ 2026 کے انتخاب کو دماغ میں رکھ کر کام کرتی نظر آرہی ہے۔
یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں میں سیاسی و سماجی سسٹم ملک کی دیگر ریاستوں سے بالکل مختلف ہے، بی-جے-پی جانتی ہے کہ اس کا کیسریا رنگ ان ریاستوں میں یقینی طور پر پھیکا رہے گااسی وجہ سے اس نے یہاں دوسری سیاسی پالیسیاں اپنائیں ہیں جن سے تمل ناڈو میں فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔بی-جے-پی یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں وزیر اعظم نریندرمودی تمام تر ناکامیوں، خرابیوں، سماجی عدم مساوات، سیاسی جانبداری، اپنے دعووں میں جھوٹ، لفظی وعدوں سے عملی بغاوت اور معاشی بدحالی کے باوجود ایک طبقہ میں کافی پسندیدہ ہیں لیکن تمل ناڈو کا قضیہ ذرا ہٹ کر ہے جہاں اس معاملہ میں بڑی حد تک تحفظات ہیں اس لئے بی- جے- پی کے پالیسی سازوں نے یہاں اپنے امیدواروں کو مودی کے بجائے مقامی لیڈروں کی فوٹو (جن میں سابق سی ایم جے للتا بھی شامل ہیں) کو بینر و پوسٹر میں زیادہ اہمیت دی ہے۔بی -جے -پی ہندتوا کارڈ کھیلنے میں کسی قسم کی رعایت نہیں کرتی لیکن مقامی سنجیدہ مسائل میں احتیاط دامن بھی مضبوطی سے پکڑے رہی ہے۔
جیسے کیرالا میں عیسائی یا مسلم اکثریتی علاقوں میں عیسائی و مسلم امیدواروں کواتارنے میں بھی اسے کوئی خاص اعتراض نہیں ہے، لیکن سب سے اہم بی-جے-پی کی سیاسی توڑجوڑ سماجی شعبدہ بازی اترپردیش کی طرح تمل ناڈو کے جنوبی اضلاع میں کرنے کوشش کی۔اترپردیش میں یادو اور جاٹ برادری پر کئے گئے اپنے تجربے کو تمل ناڈو کے 18 فیصد دلت اور دو فیصد آدی واسی ووٹروں کو ہتھیا کر تمل ناڈو میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔
ایک بڑے صحافی ’’ایس شری نواسن‘‘ کے مطابق اترپردیش اور تمل ناڈو میں دلت اعداد و شمار کے اعتبار سے تقریباًایک جیسے ہیں وہ کہتے ہیں کہ : اتر پردیش میں ایک طرح کے دلت نہیں ہیں یہاں شیڈول کاسٹ میں درج فہرست جاٹ و اہر جیسی چھیاسٹھ کاسٹ ہیں۔تمل ناڈو میں71 دلت کاسٹ ہیں۔ جن میں تین بڑی دلت برادریاں ہیں، پلار، پریار، اور اروندھتی درج فہرست ہیں.دلت ریزرویشن کے خلاف سنگھ کی بیان بازیاں نہ کہ صرف تمل ناڈو میں بلکہ پورے ملک کے دلتوں کو بے چین کرتی رہی ہیں یہاں کی بعض دلت ذاتیں تو خود کو شیڈول کاسٹ سے نکال کر بیک ورڈ میں لانے کی مانگ کررہی ہیں اور حکومت اس پر غور بھی کررہی ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کی ذیلی اکائیوں کے تعاون سے بی-جے-پی سماج میں کمزور طبقات یا افراد کے درمیان بہت خاموشی کے ساتھ کام کررہی ہے تاکہ ان کی پہچان بنے اور ان کے مقامی دیوی دیوتاؤں کو سماج میں جگہ مل سکے کیونکہ یہ عمل ہندوتوا کی پالیسی کے نفاذ کیلئے بالکل مناسب ہے۔یہ در اصل ایک ایسی چال ہے جو مسلسل چلی جارہی ہے جو منو اسمرتی نظام کے نفاذ میں معاون ہوگی دلتوں کو دیوی دیوتاؤں کی طرف واپس لانے کا مقصد ذاتی واد کی زنجیر کو توڑ کر تمام برادریوں کو ہندتوا کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے ( یہ کھیل اتر بھارت کی ریاستوںمیں خوب جم کر کامیابی کے ساتھ کھیلا گیا ہے) تمل ناڈو کی پارٹیوں نے بی-جے-پی کے ان اقدامات کا جم کر مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک چال ہے جس کا مقصد دلتوں کو گروپس میں تقسیم کرکے اپنے لئے ووٹ بینک کا ایک مضبوط بلاک تیار کرنا ہے۔
اتر پردیش میں بی-جے-پی نے اسی چال سے مایاوتی کو ٹھکانے لگانے دیا ہے۔تمل ناڈو میں اصل مسئلہ اس انتخاب میں بھی ریزرویشن کا ہی ہے۔دیویندر، کلا، ویلار، یہ بڑی دلت برادری ’’پلار‘‘کا حصہ ہیں جو شیڈول کاسٹ سے نکلنے کے باوجود شیڈول کاسٹ ریزرویشن سے مستفید رہنا چاہتی ہیں ( مطلب سماجی طور پر قد بھی بڑا ہوجائے لیکن چھوٹے قد کا فائدہ بھی حاصل ہوتا رہے)۔اب ایسے میں انہیں کہاں اور کیسے ایڈجسٹ کیا جائے گا یہ بالکل بھی آسان نہیں۔
سیاسی پارٹیاں چاہے جنتا کہیں کہ وہ ذات پات کی سیاست پر یقین نہیں رکھتیں لیکن ان کا ہر ہر قدم اس دعوے کو جھٹلاتا ہے ان کی ہر پالیسی ہر یوجنا ان کا منھ چڑھاتی ہے، تمل ناڈو میں موجودہ حکومت نے آخری دنوں میں 5۔10 فیصد موسٹ بیک ورلدورلڈ کلاس کو ریزرویشن دینے کی بات کہ کر پچھلی ذاتوں کی سیاست کرنے والوں کو بے چین کردیا ہے جبکہ تعلیم و روزگار میں جو ریزرویشن دیا جاتا ہے اس کا 20 فیصد تو صرف موسٹ بیک ورلڈ کلاس کو ملتا ہے۔اب موجودہ انتخابات کے نتائج سے ان پالیسیوں کی کامیابی و ناکامی کا پتہ چلے گا۔
مگر ایک بات تو طے ہے کہ بی-جے-پی یہاں اپنے ہندوتوا کے کارڈ کا فائدہ نہیں اٹھا سکتی کیونکہ یہ ریاست دیگر ریاستوں سے بالکل مختلف ہے جہاں تقریباًہر پانچ سال میں حکومت بدل جاتی ہے۔کیرالا میں کسی دور دراز گرام پنچایت کے انتخاب میں بی-جے-پی کا کوئی امیدوار جیت گیا، جب کیرالا کے سی- ایم -سے اس جیت پر سوال کیا گیا تو ان کا جواب سنہرے حروف سے لکھنے والا تھا انہوں نے کہا’’ شاید وہاں تعلیم کی کمی رہ گئی ہم اس پر ضرور دھیان دیں گے اور تعلیمی نظام بہتر بنائیں گے‘‘۔
تعلیم یافتہ ریاستوں میںبی-جے-پی ابھی تک بے بس ہے اور اگر اسی طرح تعلیم کے مواقع اور اس کا معیار بڑھتا رہا تو بہت ممکن ہے کہ ملک بی-جے-پی بیزار ہوجائے۔
9892650691
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here