ماں کا احترام ہر بچے کی ذمہ داری

0
566

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


 

 

مضمون نگار: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

دنیا کے بیشتر ممالک ہر سال 13 مئی کو یوم مادر ‘ ماں کا دن منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر ماؤں کی بہتر زندگی اور بچوں کے تحفظ کا عہد کیا جاتا ہے ۔ کیوں نہ کیا جائے، بچہ ایک عورت کو ماں کا درجہ دلاتا اور ماں افزائش نسل کا سبب بنتی ہے ۔ پوری دنیا مدرس ڈے کو ایوری چائلڈ الائیو ” ہر بچہ با حیات ” کے پس منظر میں مناتی ہے ۔ اس موقع پر بھارت میں بچوں کی اموات کو کم کرنے، حمل، زچگی اور بچوں کی ولادت کے تیئں بیداری پیدا کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔

یہ بھی پڑھیں

اردو تحقیقی ادب میں ایک گرانقدراضافہ

ماں بننے والی عورت کو دو مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ایک حمل ٹھہرنے سے بچہ کی ولادت تک، دوسرا پیدائش کے بعد ۔ حاملہ عورت کو معیاری طبی سہولت اچھے ڈاکٹر اور نرسوں کے ذریعے فراہم ہو، یہ خاص دیکھ بھال کچھ ایک کے لئے نہیں بلکہ ہر ایک ماں و بچے کو، لڑکا ہو یا لڑکی، کہیں بھی رہتے ہوں سب کو مہیا کرانے کی ضرورت ہے ۔ حمل و نوزائیدہ کی ولادت کے دوران محفوظ ہاتھوں کی سپورٹ ہر ماں بچے و بچی کا حق ہے ۔ صنفی مساوات اور معیار بھی اسی کا حصہ ہے ۔ بچیوں کی دیکھ بھال اسی طرح ہونی چاہئے جیسی بچوں کی کی جاتی ہے ۔ بچی کے بیمار ہونے پر والدین کو اسی طرح فکر مند ہونا چاہئے جیسے کہ بچے کے لئے ہوتے ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تو بیٹی پیدائش پر جنت کی بصارت دی ہے ۔ بھارت میں ابھی بھی کئی دور دراز کے علاقے ایسے ہیں جہاں بچے کی ولادت کرانے کی معقول سہولیا ت نہیں ہیں ۔

نکسل واد سے متاثر ملکان گری ایسا ہی علاقہ ہے ۔ یہاں کے پرائمری ہیلتھ سنٹر کے ڈاکٹر اونکار ہوتا نے بتایا کہ بچے پیدا کرانے میں انہیں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان کے مطابق یہ آدی واسی علاقہ ہے جہاں کے کنڈا ریڈی آدی واسیوں میں حاملہ عورت کو بچے کی پیدائش سے پہلے گوشالہ میں منتقل کرنے کی رسم ہے ۔ اسے گوشالہ میں اپنے بچے کو خود ہی جننا پڑتا ہے ۔ نال بھی اسے خود ہی کاٹنی ہوتی ہے ۔ گھر کا کوئی شخص اسے نہیں چھوتا ۔ اگر کوئی چھوئے گا تو اسے ایک ہفتہ گاؤں کے باہر رہنا پڑے گا یہ رسم ہے ۔ ان کے ملکان گری پہنچنے سے پہلے کئی عورتیں بچہ جننے میں فوت ہو جاتی تھیں ۔ حاملہ خواتین کو ہیلتھ سنٹر لانے کے لئے انہیں بڑی مشقت کرنی پڑی ۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلتھ سینٹر میں اسٹاف بھی نہیں ہے، وہ انکا اسسٹینٹ اور ایک اٹینڈنٹ ہے ۔ کئی مرتبہ انہیں حاملہ خواتین کو اپنے اسسٹینٹ کی مدد سے چارپائی پر کئی کلومیٹر پیدل چل کر ہیلتھ سنٹر لانا پڑا، اور ڈلیوری کرانی پڑی ۔ انہوں نے بتایا کہ مریض کو بھی انہیں خود ہی کھانا بنا کر کھلانا پڑتا ہے ۔ کئی مرتبہ تو مریض کا پیشاب، پاخانہ تک ڈاکٹر ہوتا کو ہی صاف کرنا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر اونکار ہوتا نے بتایا کہ یہاں پندرہ، پندرہ دن بجلی نہیں آتی ۔ اسپتال میں ایک انورٹر ہے جسے وہ چارج کرکے رکھتے ہیں ۔ جس کا استعمال مریض کے آنے پر کرتے ہیں ۔ خود بغیر بجلی کے رہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں تو اندھیرے میں گزارا کر لونگا لیکن لیبر پین سے تڑپتی کوئی عورت رات میں آجائے تو اس کی ڈلیوری کرانے کے لئے بجلی زیادہ ضروری ہے ۔ یہی سوچ کر انورٹر کو ضرورت کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر ہوتا نے بتایا کہ ان کے ملکان گری ہیلتھ سنٹر جانے کے بعد سے بچہ جننے میں کسی عورت یا بچہ کی جان نہیں گئی ۔

یونیسیف میں شعبہ صحت کے قائم مقام صدر ڈاکٹر گگن گپتا نے بتایا کہ ‘ ہر بچہ با حیات منصوبہ کے تحت نوزائیدہ بچوں کی روکے جانے لائق اموات کا 2030 تک خاتمہ کرنا ہے ۔ دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی قریب 1/5 اور نوزائیدہ کی لگ بھگ ایک چوتھائی اموات بھارت میں ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی اموات میں کمی لانے کی سمت میں اچھی کوششیں ہوئی ہیں ۔ اس کی وجہ سے پانچ سال کی عمر کے دوران ہونے والی بچوں کی اموات میں بہ تدریج کمی آ رہی ہے لیکن پھر بھی نوزائیدہ بچوں کی اموات اور بچوں کی زندگی میں صنفی امتیاز کے فاصلہ کو کم کرنے کے لئے اور کوششوں کی ضرورت ہے ۔ یہ یقینی بنانا ہے کہ ہر بچے کو زندگی کے پہلے گھنٹہ میں ماں کا دودھ ملے، اس معمولی کوشش سے نوزائیدہ بچوں کی اموات میں 22 فیصد تک کی کمی لائی جا سکتی ہے ۔ ماں کا دودھ صرف بچوں کی ہی حفاظت نہیں کرتا بلکہ یہ ماں بننے والی عورت کی بھی حفاظت کرتا ہے ۔ جو خواتین بچوں کو دودھ پلاتی ہیں وہ پستان اور رحم کے کینسر سے محفوظ رہتی ہیں ۔ امیروں کے مقابلے غریب خاندانوں میں شیرخواروں کو ڈیڑھ گنا زیادہ دودھ پلایا جاتا ہے ۔ وہیں اونچی آمدنی والے ملکوں میں ایک تخمینہ کے مطابق21 فیصد بچوں نے اپنی ماں کا دودھ کبھی پیا ہی نہیں، یہ تناسب کم اور اوسط آمدنی والے ملکوں میں چار فیصد ہے۔ ماں کا دودھ پلانے کی شرح میں اضافہ کے لئے بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ قرآن مجید میں دو سال بچوں کو دودھ پلانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔

ڈاکٹر گپتا نے کہا کہ نوعمر لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی شرح میں 8 فیصد کی کمی آئی ہے لیکن پھر بھی نو عمر لڑکیاں حاملہ ہو رہی ہیں ۔ نو عمری میں حاملہ ہونا خطرناک ہو سکتا ہے۔ پڑھی لکھی خواتین کے مقابلے ان پڑھ عورتوں کی بچہ کی ولادت کے دوران یا اس کے بعد موت کا امکان زیادہ ہو تا ہے ۔ حاملہ خواتین کو عدم غزائیت یا خون کی کمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ ڈاکٹر گگن نے بتایا کہ دس میں سے آٹھ خواتین اسپتالوں میں بچے جننے لگی ہیں لیکن اب بھی ہر سال پچاس لاکھ عورتوں کے گھر پر ہی بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ سماج کے ذمہ دار حضرات کو اس طرف توجہ دینی چاہئے ۔ ولادت کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے اسپتال میں ماں اور بچے کو آسانی سے بچایا جا سکتا ہے ۔

حکومت کے شعبہ صحت شہر اور دیہی علاقوں کی خواتین کی صحت کا آگن واڑی اور آشا کارکنوں کے ذریعہ خیال رکھتا ہے ۔ فرنٹ لائن آشا ورکر اوما دیوی نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی کسی عورت کے حاملہ ہونے کی خبر ملتی ہے ہم اس کی جانچ کرواتے ہیں ۔ حمل کے دوران خون، پیشاب، بلڈ پریشر، وزن کی برابر جانچ کرانی ہوتی ہے ۔ کم ازکم چار بار اسپتال جانا چاہئے ۔ پوسٹ نیٹل چیک اپ بھی ضروری ہے ۔ خون کی کمی نہ ہو اس کے لئے فولک ایسڈ اور ہڈیوں کو مضبوط رکھنے کے لئے کیلشیم کی گولیاں دی جاتی ہیں ۔ حمل کی مدت میں کھان پان کا خاص خیال رکھنے اور ڈلیوری اسپتال میں کرانے کی صلاح دیتے ہیں کیونکہ اسپتال میں ڈلیوری کرانے میں ان ہونی کا امکان کم ہوتا ہے ۔ بچے کو پیدائش کے ایک گھنٹہ کے اندر ماں کا دودھ دینا چاہئے ۔ چھ ماہ تک بچے کو صرف ماں کا دودھ دینا چاہئے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ پانی بھی نہیں ۔ اوما دیوی نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے بعد وہ بچے کا وزن کرتی ہیں، اسے چھو کر دیکھتی ہیں کہ وہ ٹھنڈہ یا پھر بہت زیادہ گرم تو نہیں ہو رہا، دودھ اچھی طرح پی رہا ہے یا نہیں، سانس لینے میں اسے کوئی دقت تو نہیں ہو رہی، آنکھ چیک کرنے سے پیلیئے کا پتا لگ جاتا ہے ۔ نابھی دیکھتی ہیں کہ کہیں اس سے خون تو نہیں آرہا ۔ اسی طرح زچہ کا بھی پورا دھیان رکھنا ہوتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کو ہمیشہ ہاتھ دھو کر چھونا چاہئے ۔ انہوں نے بتایا جس بچہ کی ڈلیوری اسپتال میں ہوتی ہے اس کے گھر چھ اور گھر میں پیدا ہونے والے بچے کے گھر وہ سات وزٹ کرتی ہیں ۔ اور معمول کے ٹیکوں سے بچے کے والدین کو واقف کراتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت پر ٹیکے لگنے سے بچہ صحت مند رہتا ہے ۔

حمل کے دوران عورت کو اس کے شوہر اور گھر والوں کے سپورٹ کی خاص طور پر ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کی مدد سے زچگی کے ایام اور بچے کی دیکھ بھال میں آسانی ہو جاتی ہے ۔ اس کی عملی مثال جگت پور ضلع ہاوڑہ مغربی بنگال کے شیخ محمد علی نے پیش کی ۔ ان کی اہلیہ نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا ۔ بچے کمزوری کی وجہ سے بیمار ہوگئے، اہلیہ کے لئے اکیلے انہیں سنبھالنا مشکل تھا ۔ شیخ محمد علی نے بچوں کی دیکھ بھال میں اپنی اہلیہ کا ہاتھ بٹایا ۔ اس کے لئے انہیں کام چھوڑنا پڑا ۔ ان کی کوشش سے بچے بچ گئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بچہ ماں باپ کی ساجھا ذمہ داری ہے جسے مل کر پورا کرنا چاہئے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر شوہر اپنی اہلیہ کا ساتھ دے اور گھر کے لوگ حاملہ خاتون کی حوصلہ افزائی اور مدد کریں تو پیدا ہونے والا ہر بچہ صحت مند اور گھر کے لوگ خوش رہیں گے ۔

زچہ بچہ کی صحت پر گزشتہ کئی برسوں سے خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم محفوظ زچگی مہم بھی شروع کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں زچہ بچہ کی اموات در میں کمی آئی ہے ۔ کئی ریاستوں کا آئی ایم آر، ایم ایم آر اوست مرکزی اوست سے بھی کم ہے، لیکن ابھی بھی اس شعبہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ملک کے کئی طبقے و علاقے کے لوگ اپنے دقیانوسی رسم ورواج کی وجہ سے ان سہولیات کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں یا پھر ہیلتھ سروسز ان کی رسائی سے دور ہیں ۔ 24×7 ڈلیوری سینٹرس کی موجودگی کے باوجود بچوں کی ولادت اب بھی گھروں پر ہو رہی ہے ۔ جبکہ ان سینٹرز میں حاملہ خواتین کو لانے اور ڈلیوری کے بعد گھر تک پہنچانے کیلئے فری ایمبولینس کا انتظام ہے ۔ اتنا ہی نہیں دیہی خواتین کو زچگی کے دوران اچھے کھان پان کے لئے رقم بھی فراہم کی جاتی ہے ۔ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر، آشا، آنگن واڑی کارکن ماں اور بچے کی بہتر صحت کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔ آنگن واڑی مراکز میں حاملہ خواتین کو غذائیت سے پر کھانا فراہم کیا جاتا ہے ۔ کوپوشن کے شکار بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کوپوشن سینٹر کام کر رہے ہیں ۔ ان میں مزدوری کرنے والی خواتین کی دہاڑی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ جتنے دن وہ سینٹر میں رہتی ہیں اتنے دن کی مزدوری کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔ بچے کی زندگی ماں پر منحصر ہے، ماں کا احترام ہو اس معاملہ میں سرکار کے ساتھ سماج کو زیادہ کام کرنا پڑے گا کیونکہ آج کے بچے ہی کل کا مستقبل ہیں ۔ ان کی اچھی صحت اور تحفظ ہماری ساجھا ذمہ داری ہے ۔

جس طرح ماں بچے کا خیال رکھتی ہے اسی طرح بچوں کو بھی ماں کا خیال رکھنا چاہئے ۔ کیونکہ ماں کے بغیر بچے کا کوئی وجود نہیں ۔ اس گود پہلی درسگاہ ہے اور اس کے قدموں میں جنت ہے ۔ اللہ کے رسول نے جن تین لوگوں پر لعنت بھیجی ہے ان میں سے ایک وہ ہے جس نے ماں، باپ یا دونوں کو پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہیں کی ۔ رسول اللہ نے فرمایا انہیں اف تک نہ کہو ۔ ماں کا صرف ایک دن نہیں بلکہ ہر دن ماں کا ہے ۔ ایسا یوم مادر منانے کا کیا فائدہ جس سے بچے میں ماں کا احترام کرنے کا جذبہ پیدا نہ ہو ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here