لمبی ہے غم کی شام- Long is the evening of sorrow

0
110

ہندوستان میں عوامی تحریک کی روایت اور حقوق کی بازیابی کے لئے عوامی مظاہروں کا سلسلہ کیا اب تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔یہ سوال اب ذہنوں میں اٹھنے لگے ہیں۔جامعہ ملیہ تشدد، ہندوستان بھر میںشاہین باغ مظاہرہ، مشرقی دہلی فسادات، لاک ڈاؤن میں غریب مزدوروں کی شہروں سے اپنے گاؤں کی جانب ہجرت، معیشت کا برا حال، کسانوں کا دہلی کی سرحدوں پر ٹھٹھرتی ٹھنڈ میں احتجاج، ٹریکٹر پریڈ، لال قلعہ اور دہلی کے کئی علاقوں میں مظاہرین کا ہنگامہ اور پھر پولیس کارروائی۔ ویسے تو حکومت سے بہت سے سوال کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آپ ایسی حکومت سے کیسے سوال کر سکتے ہیں، جس کو ملک کی اکثریت نے اپنے بھلے اور بہتر مستقبل کے لئے منتخب کیا ہو۔کیونکہ جب ملک کے عوام نے بھر پور اکثریت کے ساتھ حکومت کو منتخب کیا ہے تو پھر سوال کرنے والے تو اس حزب اختلاف کے دائرے میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں جن کا کام ہی حکومت کا اختلاف کرنا ہے اور آج کے دور میں حزب اختلاف کا سیدھا مطلب ملک دشمن ہے۔
26 جنوری کو کسانوں نے جو ٹریکٹر پریڈ نکالی وہ اپنے آپ میں تاریخی نظر آ رہی تھی۔ صبح جو تاریخی نظر آرہی تھی یا جمہوریت کی ایک مثال ہیش کر رہی تھی وہ شام ہوتے ہی جمہوریت پر ایک بدنما داغ کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ جیسے ہی تشدد کی خبریں ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے لگیں، تقریباً سبھی چینلوں پر ٹریکٹر پریڈ کی گھنونی تصویر پیش کی جانے لگی۔ کسان رہنما بیک فٹ پر نظر آنے لگے اور کچھ نے سارے معاملہ پر شرمندگی کا اظہار بھی کر دیا۔ان سب کے بعد پنجابی اداکار دیپ سدھو اور لکھاسدھانا کا نام آنے لگا۔ سوشل میڈیا میں یہ خبر عام ہوگئی کہ ان دونوں کی ٹیم کے لوگ ہی لال قلعہ اور دیگر مقامات پر تشدد کے لئے ذمہ دار تھے۔ اس کے بعد دیپ سدھو جن کو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور اداکار سنی دیول کا قریبی بتایا جاتا ہے انہوں نےلال قلعہ کے سارے معاملہ کو ایک طریقہ سے جائز ٹھہراتے ہوئے اپنا ویڈیو پیغام جاری کر دیا۔ سنی دیول نے سوشل میڈیا کے ذریعہ پیغام دیا کہ ان کا دیپ سدھو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب کسان تحریک کے خلاف پولیس کا ایکشن ویسے ہی جاری ہے، جس طرح سے گزشتہ سال این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مظاہر ہ کرنے والوں کے خلاف کی گئی ۔اور قرقی کے احکامات تک جاری کئے گئے۔ کسان تحریک کو جس طرح سے حکومت ڈیل کر رہی ہے اور جو طریقہ کار اپنا رہی ہے اس سے یہ اندشہ بھی پیدا ہو چلا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ پوری تحریک اب دم توڑ دے اور لوگوں کو گھر جانے پر مجبور ہونا پڑے۔ شائد اس کے بعد نئے زرعی قوانین کے خلاف کوئی آواز بھی نہ اٹھے، شائد چند لوگوں کے ہاتھوں اور چند لوگوں کی وجہ سے جمہوریت کی شکست بھی ہوجائے۔
لیکن اگر یہ تحریک بے نتی جہ ختم ہو گئی تو اس کا مطلب ہندوستان میں عوامی تحریکوں کا خاتمہ ہی تصور کیا جائے گا اور ایسا ہونے کا سیدھا مطلب جمہوریت کی حفاظت کے لئے راستے کا مزید تنگ ہونا ہے۔ حکوت عوام کی ماں کی طرح ہوتی ہے اسے اپنے ہر بچے سے پیار اور ہمدردی اور اس کی فلاح و بہبود و ترقی کی فکر ہوتی ہے۔اس لئے حکومت کو چاہیے تھا کہ ان کسانوں کو دشمن تصور نہ کر کے اور ان کی تحریک کو کچلنے کے بجائے ان میں اعتماد پیدا کیا جاتا، تاکہ جب کسان گھر جائیں تو حکومت مخالف جذبہ اپنے سینے میں لے کر نہ جائیں۔ حکومت کے اس عمل سے بیرون ملک دشمنوں کو ایک سبق مل جاتا۔
واقعہ تو یہ ہے کہ اگر ملک کا ایک بڑا طبقہ کسی بھی حکومت کے خلاف دل میں نفرت پال لیتا ہے تو وہ ملک کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ کسی بھی جمہوریت اور اچھی حکومت کے لئے عوامی تحریکیں بہت ضروری ہیں، ان کو کچلنے کے لئے طاقت صرف نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ان کا دل جیتنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اگریہ کسان تحریک بغیر حل کے ختم ہوگئی تو پھر نہیں لگتا کہ آنے والے دنوں میں عوام اپنے مطالبات کو لے کر سڑکوں پر آئیں گے اور پھر تمام فیصلہ بند کمروں میں کچھ لوگوں کے حساب سے کر لئے جائیں گے۔لیکن امید پر دنیا قائم ہے۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here